میرے دوست‘ سینیٹر رضاربانی نے تجویز دی ہے کہ حکومت 2023ء کو ''سالِ دستور‘‘ کے طور پر منانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے کیونکہ 14 اگست1973ء کو نافذ ہونے والا آئینِ پاکستان‘ اس برس‘ 14 اگست کو پچاس سال کا ہوجائے گا۔ میں سینیٹر ربانی کی تجویز میں اتنا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ تقریبات کی رنگا رنگی کے ساتھ ساتھ خود احتسابی کی ایک سنجیدہ مشق کے لیے بھی ایک کمیٹی قائم کر لی جائے۔ ممکن ہو تو یہ کمیٹی اُن سوالوں کے جواب تلاش کرے جو گزشتہ پچاس برس پر محیط ہمارے سیاسی عدم استحکام‘ معاشی ابتری‘ ادارہ جاتی انحطاط‘ قانون وانصاف کی زبوں حالی‘ آکاس بیل کی طرح ہمارے وجود سے لپٹی بے یقینی‘ جمہوری اقدار کی شکست وریخت اور ہمہ جہتی زوال کے حوالے سے قوم کے دل میں تیرِ نیم کش کی طرح ترازو ہیں۔
نامرادی اور سوختہ بختی میں گندھی کیا بے ننگ ونام داستان ہے کہ سقوط ِڈھاکہ کے ساڑھے پانچ اور نفاذِ آئین کے صرف چار سال بعد ہمیں ایک تازہ دم مارشل لاء نے آلیا۔ کمیشن کے نامزد کردہ ایک بھی فوجی افسر کا محاسبہ نہ ہوا۔ البتہ حمودالرحمن کمیشن کے سینئر رکن‘ جسٹس انوار الحق کی سربراہی میں قائم عدالتی بینچ نے ضیا الحق کے مارشل لاء کو سندِ جواز عطا کرنے اور من پسند آئینی ترامیم کا اختیار دینے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو صلیب کا سزاوار ٹھہرادیا۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے ''مثبت نتائج‘‘ سے کشید کیاگیا مرضی کا وزیراعظم بھی صرف تین سال تک قابلِ قبول ٹھہرا۔ 1988ء سے 1997ء سے تک‘ نو برس میں چارانتخابات ہوئے۔ کوئی وزیراعظم معیاد پوری کر پایانہ اسمبلی۔ گیارہ سالہ زخم خوردہ جمہوری دور کے بعد مشرف کے چاق وچوبند مارشل لاء کا ناقوس بجا۔ سائبان ِآمریت تلے اپنے اپنے مکالمے بولنے اور چھب دکھانے والے کردار‘ وزیراعظم کہلائے۔ غلام مصطفی جتوئی‘ بلخ شیرمزاری‘ معین قریشی‘ معراج خالد‘ محمدمیاں سومرو‘ ہزارخان کھوسو اور ناصرالملک‘ معتوب وزرائے اعظم کے درمیان جُز وقتی محبوب بن کر آئے اور چلے گئے۔ بیس سالہ مارشل لاء اور تقریباً دو برس پر محیط نگرانوں کا دور نکال دیا جائے تو بارہ منتخب وزرائے اعظم کے حصے میں‘ صرف 28 برس آئے۔ اوسطاً اڑھائی برس سے بھی کم۔ بات تقدیس ِآئین کی چلی ہے تو آئین شکنی سے بڑا جرم کوئی نہیں۔ مشرف نے دو بار یہ کیا۔ پہلا جرم‘ خلعتِ فاخرہ پانے والے ارشاد حسن خان نے کارِثواب قرار دے دیا۔ دوسری آئین شکنی پر‘ نوازشریف نے پہلی بار آرٹیکل6 کے تحت مقدمہ چلایا۔ عدالت نے سزا سنائی۔ عمران خان دور میں‘ لاہور ہائی کورٹ نے سزا بھی ختم کردی اور سزا دینے والی عدالت کو بھی اکھاڑ پھینکا۔ ''قانون سب کیلئے برابر‘‘ اور ''رُول آف لاء‘‘ کی دہائی دینے والے خان صاحب کے اٹارنی جنرل‘ ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر عدالتی افسروں نے مشرف کا ساتھ دیا۔ مشرف پر بیک وقت نصف درجن مقدمات چلتے رہے۔ ضمانتیں بھی منسوخ ہوئیں۔ اُسے ایک دن کے لیے بھی کسی جیل کی اُن کوٹھڑیوں سے پالا نہیں پڑا جن کی بوسیدہ میل خوردہ دیواریں سیاستدانوں سے گہری شناسائی رکھتی ہیں۔
پچاس سال کے زخموں کا شمار شاید مشکل ہو۔ ممکن ہو تو کمیٹی صرف گزرے چھ سالوں کو کھنگال لے۔ کیا افتاد پڑی تھی کہ وزیراعظم نوازشریف کی بے دخلی ضروری ٹھہری؟ کیا سبب تھا کہ عمران خان کی تاج پوشی ناگزیر ہوگئی؟ ثاقب نثار جیسے منصفِ موسم شناس کی بارگاہِ عدل ناشناس سے خان صاحب کو امانت ودیانت کی دستارِفضیلت عطا کرنے کا فرمان کس نے جاری کیا؟ آرٹی ایس کی گردن کس نے دبوچی؟ مونس الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کیلئے ٹکٹ بانٹنے والی جس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے‘ اُس میں تحریک انصاف کے دو سینئر رہنمائوں کے علاوہ ایک ''تیسرا‘‘ بھی تھا؟ انتخابات سے تختِ اقتدار تک کے تمام مرحلوں میں ''تیسرے‘‘ کا کردار کیا رہا؟ عمران خان کا ہر سیاسی حریف ''تیسرے‘‘ کا معتوب کیوں قرار پایا؟ کیا ستّر برس کے ماضی میں کوئی ایسی نظیر ملتی ہے کہ حساس ادارے کا کوئی باوردی افسر‘ کسی سیاستدان کے خلاف فیصلہ لینے اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے پاس پہنچے؟ تعّفن زدہ چھ برس میں یہ بھی ہوا کہ جنرل نے جج سے کہا '' انتخابات سے پہلے نواز اور مریم کی ضمانت نہیں ہونی چاہئے ورنہ ہماری دوسال کی محنت ضائع ہوجائے گی‘‘۔ جج بولا ''صاحب! ابھی تو اُنہیں احتساب عدالت نے بھی سزا نہیں سنائی‘‘۔ جواب ملا ''وہ ہم دیکھ لیں گے‘‘۔ جج نے معذرت کرلی اور بھید کھول دیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے سرسری سماعت کے بعد جج کو تو گھر بھیج دیا لیکن دوسری جانب سے کسی نے نہ پوچھا کہ کیا آپ واقعی نواز اور مریم بارے مطلوبہ فیصلہ لینے گئے تھے؟ جج کی پٹیشن کو سپریم کورٹ میں پڑے پانچواں سال ہورہا ہے۔ صرف نوسماعتیں ہوئیں۔ جلد سماعت کی بیس درخواستیں اور درجن بھر فریادی خطوط‘ ٹھہری ہوئی جھیل میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں کرسکے۔ سو پچاس برس کو جانے دیں۔ گزشتہ چھ برس پر نگاہ ڈالیں جو غالباً ہماری تاریخ کے انتہائی مکروہ‘ بدچہرہ اور متعّفن ترین ماہ وسال تھے۔ آئین وقانون پر بیلن پھیرنے اور پاکستان کو بے چارگی و کسمپرسی کے اس حال تک پہنچانے والے سارے کردار زندہ ہیں۔ دو کردار تو آج بھی سرِبازار کرتب دکھا رہے ہیں۔ ایک زمان پارک سے فائر کھولتا ہے۔ دوسرا پنڈی میں بیٹھ کر کسی ترجمان کے کندھے پر رکھی بندوق کا گھوڑا دبا دیتا ہے۔ بظاہر وہ ایک دوسرے کو آئینہ دکھا رہے ہیں لیکن قوم ان آئینوں پر نظریں جمائے‘ دو چہروں کو ہی نہیں‘ اُن کے آزوبازو سے جھانکتے کئی چہروں کو بھی حیرت سے تکے جارہی ہے۔ مفادِباہمی کے شرمناک کھیل میں ملوث یہ کردار پاکستان کی کشتی میں پتھر بھرتے اور پیندے میں سوراخ کرتے رہے۔ آج جب یہ کشتی بحرِتلاطم خیز میں ہچکولے کھا رہی ہے تو یہ سب ‘ سرِساحل کھڑے تماشا کرنے‘ قہقہے لگانے اور ایک دوسرے پر آوازیں کسنے میں لگے ہیں۔ یہ کس کے ہُنر کا اعجاز ہے کہ جو فوج 1971ء کی شکست پر بھی بے رحمانہ تنقید کا نشانہ نہیں بنی وہ آج چاند ماری کا ٹیلہ بن گئی ہے۔ ہماری تقویم تاریخ کے متعّفن ترین چھ سالہ دور کا لمحہ لمحہ ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔