اکتوبر 2016ء کی اٹھائیس تاریخ تھی۔ زمستانی ہوائیں شہرِخوش جمال کا رُخ کر رہی تھیں۔ مجھے پیغام ملا کہ وزیراعظم یاد کر رہے ہیں۔ کوئی پانچ سات منٹ میں وزیراعظم ہائوس پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع دی اور پرنسپل سیکرٹری‘ فواد کے کمرے میں جا بیٹھا۔ بلاوے کا انتظار تھا کہ وزیراعظم نواز شریف خود اُس کمرے میں آگئے اور اُسی صوفے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے جس پر میں بیٹھا تھا۔ سلام دعا کے بعد فواد سے کہنے لگے... ''فواد تم نے صدیقی صاحب کو بریف کردیا ہے؟‘‘ فواد بولا... ''بس سرسری سی بات ہوئی ہے سر‘‘۔ وزیراعظم کا چہرہ خزاں رنگ ہورہا تھا۔ کسی تمہید کے بغیر کہنے لگے ... ''آپ ڈان کی خبر سے تو آگاہ ہیں جسے 'ڈان لیکس‘ کے نام سے ایک بڑا سکینڈل بنا دیا گیا ہے۔ میں نے کافی باتیں آپ سے شیئر کی ہیں۔ اب مجھے ایک نہایت ہی ناخوشگوار کام پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اُن لوگوں کا اصرار ہے کہ پرویز رشید کو فارغ کر دیا جائے‘‘۔ وزیراعظم کے چہرے کی پت جھڑ پر گہرے کرب کی سنولاہٹ غالب آگئی۔ بولے... ''آپ جانتے ہیں کہ میں پرویز کی کتنی عزت کرتا ہوں۔ پہلے اسی طرح کے کھیل تماشے میں مشاہد اللہ کو نکلوایا گیا۔ اب پرویز رشید کا خون مانگتے ہیں۔ میں اس صورتحال پر بہت پریشان ہوں۔ ابھی ایک چھوٹی سی میٹنگ ہے۔ میں اُس سے فارغ ہوکر آپ سے پھر ملتا ہوں۔ اس دوران فواد آپ کو بریف کرتا ہے‘‘۔
فواد کی بریفنگ میں اس کے سوا چونکا دینے والی کوئی بات نہ تھی کہ پرویز رشید کو ٹارگٹ کیا جا چکا ہے اور ''وہ لوگ‘‘ تُلے بیٹھے ہیں۔ کوئی پون گھنٹے بعد وزیراعظم آگئے۔ اے ڈی سی سے کہہ دیا کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ فواد نے اپنی رپورٹ دی۔ میاں صاحب کہنے لگے ... ''آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ بتائیں کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے کہا ... ''پرائم منسٹر! بہت افسوس کی بات ہے کہ آپ سے پرویز رشید کی قربانی مانگی جا رہی ہے۔ آپ اشارہ بھی کریں گے تو وہ استعفے میں لمحہ بھر کی دیر بھی نہیں کرے گا لیکن یہ سلسلہ کہاں جا کے رُکے گا؟ تاہم اگر ضمانت دی جا رہی ہے کہ اس کے بعد یہ باب بند ہو جائے گا تو فساد رفع کرنے کے لیے آپ وقتی طور پر یہ کڑوا گھونٹ پی لیں‘‘۔ میاں صاحب کے لہجے کی شکستگی میں تلخی کی کڑواہٹ بھی گُھلنے لگی تھی۔ ''لیکن صدیقی صاحب یہ کوئی حل تو نہیں نا۔ ہم کب تک اس طرح کے ناجائز اور بے تُکے مطالبات کے سامنے سر جھکاتے رہیں گے؟ میں کس طرح پرویز رشید جیسے شخص کو سامنے بٹھا کر کہوں کہ استعفیٰ دو؟ کیا وزیر اطلاعات کا کام خبریں رکوانا ہے؟ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ پرویز رشید اس معاملے میں ملوث نہیں۔ ملوث کیا ہونا‘ یہ سرے سے کوئی معاملہ ہی نہیں۔ اگر میں کسی کو ایکسٹینشن نہیں دے رہا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے قریبی ساتھیوں کے چہروں پر کالک تھوپ دی جائے؟ یہ پرویز رشید نہیں‘ میری توہین ہے۔ نواز شریف کی نہیں وزیراعظم کی توہین ہے‘‘۔ میرے پاس زخم خوردہ وزیراعظم کے لیے کوئی حرفِ تسلّی نہ تھا۔ کارگاہِ سیاست کا ایک اور حیا باختہ باب وا ہو رہا تھا۔ پاناما کا الائو بھڑکانے والوں کو منوں تیل میسر آ گیا تھا۔
اگلے دن‘ پرویز رشید کو پیغام ملا کہ وزیراعظم ایک فوری میٹنگ کے لیے بلا رہے ہیں۔ آتے ہی اُنہیں وزیراعظم کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ اسحاق ڈار‘ چودھری نثار علی خان اور فواد پہلے سے موجود تھے۔ شہباز صاحب کو بھی آنا تھا لیکن نہ آ پائے۔ بارہ چودہ منٹ گزر گئے لیکن خلافِ معمول وزیراعظم بھی نہ آئے۔ اچانک دروازہ کھلا۔ مریم نواز چادر سی لپیٹے کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کی آنکھیں نم آلود تھیں۔ روایتی احترام اور قرینے کے ساتھ سب کو سلام کیا۔ پرویز سے ملی اور کھڑے کھڑے بولی ...''انکل مجھے اَبّو نے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ سے آنکھیں نہیں ملا سکتا‘‘۔ ٹشو سے آنسو پونچھتے ہوئے وہ ایک کرسی پہ بیٹھ گئی۔ بوجھل ماحول کا سکوت توڑتے ہوئے چودھری نثار نے تمہیدی گفتگو کا آغاز کیا۔ چند جملے ہی بولے تھے کہ پرویز کہنے لگا ... ''چودھری صاحب! تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا بتا دیں کہ میں نے استعفیٰ دینا ہے یا مجھے برطرف کیا جانا ہے؟‘‘ اس پر سناٹا چھا گیا۔ پرویز‘ مریم سے مخاطب ہوا ... ''بیٹا ! ابّو کو جا کر بتا دو۔ مجھے اُن کے جذبات کا اندازہ ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے‘ مجھے اُس کے اسباب کا بھی پتا ہے اور کرداروں کا بھی۔ میرے استعفے سے میاں صاحب کی مشکلات کم ہوتی ہیں تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔ وہ میرے حوالے سے ہرگز پریشان نہ ہوں‘‘۔ استعفیٰ یا برطرفی کے سوال کا کوئی جواب نہ آیا؛ البتہ چودھری صاحب نے کہا ''فی الحال ہم یہ خبر بریک کردیتے ہیں۔ کل میں پریس کانفرنس میں تفصیل بتا دوں گا‘‘۔
پرویز رشید اپنے استعفے کے مضمون پر غور کرتا دفتر پہنچا۔ کاغذ قلم لے کر بیٹھا۔ وہ لفظوں سے زیادہ عمل پر یقین رکھتا ہے۔ سیدھے سادے دو تین جملے ہی تو لکھنا تھے۔ غیر شعوری طور پر اُس نے ٹی وی آن کیا۔ بریکنگ نیوز چنگھاڑ رہی تھی۔ ''پرویز رشید کی برطرفی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ شام کو وزیراعظم ہائوس سے باضابطہ بیان جاری ہوگا‘‘۔ پرویز رشید نے قلم وہیں چھوڑا۔ حسب ِعادت نائب قاصد سے مانگ کر ایک سگریٹ سلگایا۔ کم و بیش اپنی عمر جتنا سال خوردہ چَرمی بیگ اٹھایا اور گھر چلا گیا۔ خنک شام شہرِ سفّاک پر اُتر رہی تھی تو فرمان بھی جاری ہوگیا۔ ''اب تک کے شواہد کی رُو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اطلاعات سے کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ لہٰذا اُنہیں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کے لیے کہہ دیا گیا ہے‘‘۔
پرویز کا لہو پی کر بھی شیش ناگ کو تسکین نہ ہوئی۔ اُس کی پھنکار پہلے سے بھی زیادہ خونخوار ہو گئی۔ بلاشبہ پرویز رشید ایک مشکل شکار تھا۔ نواز شریف نے صرف 'دفعِ شر‘ کے لیے اپنی زندگی کے تلخ ترین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کیا لیکن 'عمران پروجیکٹ‘ کے منصوبہ کاروں نے فاتحانہ تمکنت کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ عمران خان کو اشارہ ہوا۔ اُس نے نتھیا گلی سے اعلان کیا کہ میں اسلام آباد کا محاصرہ کرنے آرہا ہوں۔ نومبر لپکا چلا آرہا تھا اور توسیع کی تمنا بے کل ہوئے جا رہی تھی۔ ''ڈان لیکس‘‘ اور ''پاناما لیکس‘‘ گرم جوش سہیلیوں کی طرح بانہوں میں بانہیں ڈالے‘ توسیع کی بارگاہِ ناز میں جھومر ڈالنے لگیں۔ (جاری)