انگریزی کا ایک محاورہ نما قول ہے ''عمومی تاثر ‘اصل حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے‘‘۔ 1970ء کے پہلے عام انتخابات میں یوں لگ رہا تھا جیسے جماعت اسلامی مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی شدید مزاحمت کرے گی۔ ایسا نہ ہوا ۔1993ء میں قاضی حسین احمد مرحوم نے ''پاکستان اسلامک فرنٹ‘‘ کے نام سے ایسا سماں باندھا کہ آنکھیں چُندھیانے لگیں۔ ''ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘کے نعروں سے دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکنے لگی۔ 93 میں سے صرف تین امیدوار جیتے۔ فرنٹ محض 3.15 فیصد ووٹ لے پایا۔ زمینی حقائق اور عمومی تاثر کی یہ قدر ے دُور افتادہ مثالیں ہیں۔
2013ء کی مثال زیادہ پرانی نہیں۔ نو نہالانِ انقلاب‘ شوخ و شنگ میڈیا اور دانشورانِ خواب فروش نے باور کرا دیا کہ پی ٹی آئی کا سونامی سب کچھ بہا لے جانے کو ہے ۔ 11 مئی 2013ء کو سرِ شب‘ تخیلاتی کامرانی کا جادو کچھ اس طرح ٹوٹا کہ خان صاحب پانچ برس انگاروں پہ لوٹتے رہے۔آج ایک بار پھر اس تاثر (Perception)کو ثابت شدہ زمینی حقیقت کے طور پر دل و دماغ میں بٹھانے کی منظم کوششیں جاری ہیں کہ تحریک انصاف 8 فروری کے دن اپنے ہر مدِمقابل کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔ اس تاثر کو ہوا دینے والوں میں '' نگرانوں‘‘ کا ایک حلقہ خاصا سرگرم ہے جو دسترخوانِ اقتدار سے دستکش ہونے کو تیار نہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ہوا کھڑا کر کے انتخابات کو آگے دھکیل دیا جائے ۔
اپریل 2022ء میں عمران حکومت ختم ہوئی تو گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 57فیصد پاکستانیوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان میں 63 فیصد خواتین تھیں۔ عام طور پر حکمرانوں یا اُن کی حکومتوں کو عوامی فلاح و بہبود اور ملکی تعمیر و ترقی کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ خان صاحب کے چار سالہ عہد سے شاید ہی عام آدمی کی کوئی آسودگی بخش یادجڑی ہو۔ 2022ء کے معروف ضمنی انتخابات کو بھی اس تاثر کی ایک دلیل گردانا جاتا ہے جب قومی اسمبلی کی آٹھ کی آٹھ نشستوں پر عمران خان نے خود انتخاب لڑا۔ سات میں کامیاب رہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی نمایاں سبقت حاصل کی ۔مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے منحرفین کو ٹکٹ دینے کے باعث اُن کا ووٹر گھر سے نہیں نکلا۔ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات میں پولنگ کی شرح صرف 29 فیصد رہی۔ گویا 71 فیصد ووٹر ووٹ ڈالنے نہیں آئے ۔عام انتخابات میں یہ شرح 51.7فیصد تھی۔
ایک اور تاثریا مفروضہ یہ ہے کہ اس مرتبہ نوجوانوں کا ایک لشکرِ جرار پہلی بار وو ٹر بننے جا رہا ہے۔ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔ پچھلے چاروں انتخابات میں نئے ووٹرز کی شرح کم و بیش یہی رہی ہے۔ گزشتہ انتخابات (2018ء) میں نئے ووٹرز کی شرح کُل رجسٹرڈ ووٹوں کا18.7 فیصد تھی۔ اب یہ شرح 2.2 فیصد کم ہو کر 16.5 فیصد رہ گئی ہے۔ یہ حقائق بھی دلچسپ ہیں کہ اٹھارہ سے چوبیس سال کی عمر کے جوان بہت زیادہ جوشی و جذبہ سے ووٹ نہیں ڈالتے۔ 2018ء میں جب چار سُو خان صاحب کا ڈنکا بج رہا تھا تو صرف 37 فیصد نوجوان ووٹ ڈالنے نکلے تھے ۔ گیلپ پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اٹھارہ سے چوبیس سال کے ووٹ ڈالنے والے نوجوانوں میں سے صرف 35 فیصد نے پی ٹی آئی اور 65 فیصد نے دوسری جماعتوں کو ووٹ دیے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کا حصہ 21 فیصد تھا۔ آج تو موسم بہت بڑی کروٹ لے چکا ہے۔
2018ء کے انتخابات میں ہُنر وروں کی تمام تر کرتب کاریوں کے باوجود پی ٹی آئی 32 فیصد ووٹ لے پائی تھی۔ کامیاب امیدواروں میں بڑی تعداد انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھنے والوں(Electables) کی تھی۔آج وہ سب سائبیریا کے موسمی پرندوں کی طرح نیلگوں جھیلوں کو ہجرت کر گئے ہیں ۔کچھ زندانوں میں ہیں۔ کچھ روپوش اور کچھ لا تعلقی کی بُکّل مارے گھروں میں گوشہ نشیں۔ پارٹی نیچے سے اوپر تک تہ و بالا ہو چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو گردش میں آئے تو پیپلز پارٹی کے بانی رکن بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ شیخ صاحب کیلئے یہ بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا تو خود اُن کے کہنے پر نصرت بھٹو قائم مقام چیئر پرسن بنا دی گئیں۔ پارٹی کا کھونٹا قائم رہا۔ ضرورت پڑنے پر محترمہ بے نظیر بھٹو نے مخدوم امین فہیم کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کا چیئرمین بنا دیا۔ نواز شریف پر افتاد ٹوٹی تو ایک بار جاوید ہاشمی اور دوسری بار شہباز شریف کو کمان سونپ دی۔ کھونٹا قائم رہا۔ خان صاحب کے '' دانشمندانہ‘‘ سیاسی فیصلوں کا تازہ شاہکار یہ ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان نامی اجنبی کو پی ٹی آئی کی کمان سونپ دی جو 99 فیصد کارکنوں کو پہچانتے بھی نہیں اور جن کی 27 سالہ تحریک انصاف سے رفاقت کی عمر صرف لگ بھگ 17ماہ ہے۔ اُدھر عمران خان جانے کب سے شیخ مجیب الرحمن بننے کی آرزو پال رہے ہیں۔9 مئی کو انہوں نے اپنے کارکنوں کو'' مکتی باہنی‘‘ بنانا چاہا لیکن تدبیر الٹی پڑ گئی۔ وہ ابھی تک کلنک کے اس بد نما ٹیکے کو ماتھے کا جھومر بنائے بیٹھے ہیں ۔بھَنور کی گرہ کیسے کھُلے اور کون کھولے ؟توشہ خانہ گھڑیاں بیچنے ‘190 ملین پاؤنڈ کے عوض زمینیں اور نقد رقوم وصول کرنے‘ اپنی اہلیہ اور ان کی ہمجولیوں کی داستانوں‘ سائفر کے ناٹک اور9 مئی کی سازش نے خان صاحب کے لا تعداد مداحوں کو بدظن تو ضرور کیا ہوگا‘ اس فردِ عمل نے ان کے نئے شیدائی کم کم ہی پیدا کیے ہوں گے۔
25 مئی 2022ء اور 25 نومبر 2022ء کے لانگ مارچ برُی طرح ناکام رہے۔ انہیں بے پناہ ''مقبولیت ‘‘کا پیمانہ کوئی نہیں بنا رہا۔ سب سے اہم اور نتیجہ خیز مشق‘انتخابات کے دن کی ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے ہر حلقۂ انتخاب کے لگ بھگ تین سو پولنگ سٹیشن کیلئے پولنگ ایجنٹوں‘ سہولتی کیمپوں‘ گھر گھر رابطوں‘ ووٹرز کو لانے والی ٹرانسپورٹ کیلئے ہزاروں مستعد کارکنوں اور بھرپور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک فعال اور منظم جماعت ہی کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کیا یہ سب کچھ کر پائے گی؟
زمینی حقائق کو اپنی آرزو یا مفاداتی عینک سے دیکھنا اور دکھانا‘ فریب کے سوا کچھ نہیں۔ شہر شہر‘ گاؤں گاؤں‘ مختلف حلقوں میں جماعتی امیدوار بڑی حد تک واضح ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مشق جانے کب شروع ہوگی ۔اگر وہ کھمبے کو جتوانے کی استعداد رکھتی ہے تو بھی بتانا پڑے گا کہ لوگ کس شہر کے کس محلے کی کون سی گلی میں نصب کس کھمبے کو ووٹ دیں؟ بہت ہی تلخ سہی‘ لیکن در و دیوار پہ کندہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے سربراہ کی بے حکمتیوں کے با عث پی ٹی آئی پنجہ آزمائی کی سکت کھو چکی ہے۔ آج وہ کسی بڑے انتخابی دنگل نہیں‘ اپنی بقا کے معرکے سے دوچار ہے۔