شکوک وشبہات اور بے یقینی کی گہری دھند کے باوجود 8 فروری کے صاف وشفاف افق سے انتخابات کا سورج طلوع ہوا جب خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کو رخصت ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور سندھ‘ بلوچستان اور وفاق کے منتخب ایوانوں کو تحلیل ہوئے بھی چھ ماہ ہونے کو ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انتخابی عمل بڑی حد تک پُرامن رہا۔ داخلی اور خارجی مبصرین نے بے قاعدگیوں (Irregularities) کی بات ضرور کی ہے‘ جو دنیا بھر کے انتخابی معمولات کا حصہ ہوتی ہیں‘ لیکن کسی نے منظم دھاندلی کی طرف اشارہ تک نہیں کیا۔
میں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درجنوں پولنگ سٹیشنز دیکھے۔ ہر جگہ رونق اور گہماگہمی تھی۔ پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کے کارکن‘ اپنے اپنے پرچم اٹھائے متحرک دکھائی دیے۔ کہیں بھی فوج‘ رینجرز یا پولیس کے جتھے دکھائی نہیں دیے۔ 2018ء میں یہ کیفیت نہ تھی۔ تب ہر پولنگ سٹیشن وردی پوشوں کے نرغے میں تھا۔ مجھے یاد ہے ‘ میں ووٹ ڈالنے گیا تو عین پولنگ بوتھ کے اندر دو سپاہی بندوقیں تانے کھڑے تھے۔ اندر باہر خوف وہراس کا عالم تھا۔ میں ووٹ دے کر بالائی منزل کی سیڑھیاں اُتر کر نیچے آیا تو ایک طرحدار سے جوان نے آگے بڑھ کر بڑے ادب سے سلام کیا۔ ہاتھ ملایا اور بولا'' سر میں کرنل... ہوں۔ آپ کا شاگر د رہا ہوں‘‘۔ میں نے شگفتہ سے بے تکلف لہجے میں پوچھا ''کسے ووٹ ڈالنے آئے ہو؟‘‘ کہنے لگا ''نہیں سر۔ میں آج کل ...میں ہوں‘ میری ڈیوٹی لگی ہے‘‘۔ اب کے ماحول خاصا کھلا اور آزادانہ تھا۔ نتائج میں ناروا تاخیر کاکوئی معقول جواز ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اس کی قابلِ قبول توجیہ الیکشن کمیشن پر واجب ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ ایک بڑی جمہوری مشق مکمل ہوگئی۔ اہلِ فارس کا محاورہ نما قول ہے ''آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ یعنی ''سورج طلوع ہونے کی دلیل‘ سورج خود ہی ہوتا ہے‘‘۔ انتخابی نتائج خود گواہی دے رہے ہیں کہ 2018ء والا آسیب حرکت میں نہیں آیا۔ لگ بھگ تمام مبصرین یہی کہہ رہے تھے کہ نتائج کا انحصار پی ٹی آئی کے ووٹرز پر ہے۔ اگر وہ بڑی تعداد میں گھروں سے نکل آئے تو نتائج حیران کن بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ پیش بینی درست ثابت ہوئی۔ پی ٹی آئی ووٹرز جوش وجذبہ کے ساتھ متحرک ہوئے اور نتائج نے تمام مبصرین کو چونکا دیا۔ کیا یہ عمران خان سے ہمدردی کی لہر تھی یا کچھ اور؟ بلاشبہ عمران خان سزا یافتہ قیدی کے طورپر جیل میں ہیں اور نااہل بھی۔ وہ نہ انتخابی مہم چلاسکے نہ انتخابات میں حصہ لے سکے۔ 2018ء میں نوازشریف بھی سزایافتہ قیدی کے طورپر جیل میں تھے اور نااہل بھی۔ وہ بھی نہ انتخابی مہم چلاسکے نہ انتخابات میں حصہ لے سکے۔ یہی حال مریم نوازکا تھا۔ ہمدردی کی لہر اُس وقت بھی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ تب ہر سطح کی انتخابی انتظام کاری‘ ''دوسالہ محنت‘‘ کے تحفظ اور انتخابی نتائج کی طنابیں‘ قمر جاوید باجوہ‘ فیض حمید اور آصف غفور جیسے جری حکمت کاروں کے ہاتھوں میں تھیں جو ایک جماعت کو نمونۂ عبرت بنانے اور ایک جماعت کو ہر قیمت پر اقتدار میں لانے کا حلف اٹھاچکے تھے۔ اپنے اہداف کیلئے برہنگی کی حد تک تہذیب وشائستگی کی حدیں پھلانگ جانے میں اُنہیں کچھ ندامت نہ تھی۔ سو سرِ شام جونہی نتائج سرکشی کرتے دکھائی دیے‘ انہوں نے آر ٹی ایس کی مشکیں کسیں‘ من چاہے نتائج مرتب کیے اور باضابطہ طورپر یہ ٹویٹ کرکے سوگئے کہ ''اللہ جسے چاہے عزت سے نواز دے اور جسے چاہے ذلت دے‘‘۔ اگر آج چھ برس قبل کے ''جری سپوتوں‘‘ کی جگہ عاصم منیر‘ ندیم انجم اور فیصل نصیر نہ بیٹھے ہوتے یا اُن کا طرزِ عمل بھی 2018ء کے کرداروں کی طرح حیا باختہ ہوتا تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزادوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ نہ لگے ہوتے۔ اور یہ وہی عاصم منیر ہے جس کا راستہ روکنے کیلئے عمران خان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ تقرری سے دو دن قبل راولپنڈی پر یلغار کی‘ بات نہ بنی تو اس کا تختہ الٹنے کیلئے 9 مئی کو ایک بڑا حملہ کرکے فوج کو بغاوت پر اُکسانے کی سازش کی۔ اگر آج عمران خان کی مخالف پارٹیوں کو کوئی باجوہ‘ کوئی فیض حمید‘ کوئی آصف غفور میسر آجاتا‘ تو منظرنامہ کیا ہوتا؟
انتخابات کا مرحلہ تو تمام ہوا لیکن کیا اس کے نتیجے میں پاکستان دیرپا سیاسی استحکام سے ہم کنار ہوپائے گا؟ اس سوال کا جواب ملنے میں کچھ وقت لگے گا۔ پاکستان کو درپیش انتہائی گمبھیر مسائل‘ سنگین چیلنجوں کی شکل میں منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ سب سے بڑا بحران زبوں حال معیشت کو سنبھالا دینا ہے جس سے عام آدمی کے لاتعداد مسائل جُڑے ہیں۔ ان مسائل کا حل سیاسی استحکام‘ پالیسیوں کا تسلسل اور کامل یکسوئی مانگتا ہے۔ اس کیلئے شرطِ اوّل یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں راہ پانے والی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی مفادات سے تھوڑا اوپر اٹھیں اور اجتماعی قومی مسائل کے حل کیلئے مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں۔ اس وقت تک پاکستان مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ جمعہ کی شام جماعت کے قائد نوازشریف نے سیاسی بلوغت اور قومی مسائل کے شعور پر مبنی نہایت مثبت پیغام دیا کہ ''آئیں ہم سب مل جل کر قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالیں‘‘۔ اگلے چند دنوں میں اندازہ ہوجائے گا کہ یہ پیغام کس حد تک پذیرائی پاتا ہے۔
سیاسی استحکام کے لیے پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزادوں کا کردار خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ کیا وہ ایک منظم دھڑے کے طور پر موجود رہتے ہیں؟ کیا وہ اپنے آپ کو کسی یک رکنی یا دو رکنی جماعت میں ضم کردیں گے؟ کیا وہ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ہوائوں کا رزق ہو جائیں گے ؟ سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا یہ گروہ ایک بدلی ہوئی‘ مثبت اور تصادم گریز حکمتِ عملی اپنائے گا یا اُسی آتش فشانی دہانے سے پھوٹتا لاوا بنا رہے گا جو کئی برسوں سے کشتِ جمہوریت کی ہریالی کو چاٹ رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کی لغت میں حکمت‘ مصلحت‘ مفاہمت‘ مکالمے اور جمہوری لچک جیسے الفاظ ہیں ہی نہیں۔ اسی کو وہ اپنے بیانیے کی طاقت سمجھتے ہیں اور یہی بیانیہ نہ صرف ملک بلکہ خود خان صاحب کے لیے بھی لاتعداد مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اپنی انتخابی کامیابی کو بھی انہوں نے ''غلامی نامنظور‘‘ کے طورپر منانے کا اعلان کیا ہے۔ گویا پارلیمان بھی ''غلامی‘‘ سے نجات کا ایک مورچہ ہوگی اور ''یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک‘‘ کا جہادی معرکہ جاری رہے گا۔ اگر پارلیمان کے اندر موجود یہ ''آزاد‘‘ کسی بھی نام تلے‘ عمران خان کے فلسفۂ سیاست کے تحت ''بارود خانہ‘‘ بنے رہتے ہیں تو جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والی جماعتوں کو نظام کے تسلسل اور عوامی مسائل کے حل کیلئے بہرطور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ آزاد ‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں سے کوئی بھی اپنے زورِ بازو پر حکومت نہیں بناسکتا۔ بیرسٹر گوہر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ کسی سے اتحاد نہیں کریں گے۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی بھی ہاتھ نہیں ملاتیں تو ایوان اپنا قائد چننے میں ناکام رہے گا اور اسمبلی ٹوٹ جائے گی۔ پھر کیا ہو گا ؟ ''بارودخانہ‘‘ کے لیے نہ سہی‘ روایتی جمہوری سیاسی جماعتوں کے لیے یہ سوال نہایت اہم ہے۔