کیا غلاظت میں لَت پَت ماہ و سال تھے۔ ''پروجیکٹ عمران‘‘ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ نواز شریف نامی بھاری بھرکم پتھر کو راستے سے ہٹانے کی حکمتِ عملی طے پا رہی تھی۔ پاناما کی زنبیلِ فتنہ کھل چکی تھی۔ نواز شریف کے خلاف کارروائی کیلئے عمران خان اور سراج الحق کی آئینی درخواستیں فضول، لَغو، ناکارہ اور لایعنی قرار دے کر شاہراہِ دستور پر پھینکی جا چکی تھیں جب منصوبہ سازوں کو ایسے ججوں کی ضرورت پیش آئی جنہیں چکنی مٹی کی مورتیوں کی طرح عدالت کی کارنس پر سجا کر حسبِ ضرورت مرضی کے گھگھو گھوڑوں میں ڈھالا جا سکے۔ جانے یہ کس ساحر کی ساحری تھی کہ آغوشِ عدل نے ثاقب نثار نامی ایک نابغہ جنم دیا اور پھر ایسے نابغوں کا تانتا سا بندھ گیا۔ دسمبر 2016ء میں مطلع عدل پر یہ چاند طلوع ہوا۔ دِنوں اور ہفتوں میں موصوف کے ایسے جوہر کھلے کہ خلقِ خدا دانتوں تلے انگلی دابے تصویرِ حیرت بنی سوچتی رہ گئی کہ ''ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی؟‘‘۔ پھر تو چنگاریوں کی پھلجھڑیاں سی چھوٹنے لگیں۔ ثاقب نثار کے بعد آصف سعید کھوسہ، کھوسہ کے بعد گلزار احمد اور گلزار کے بعد عمرعطا بندیال۔ 31 دسمبر 2016ء سے شروع ہونے والی آتش بازی 16ستمبر 2023ء تک اپنی رنگا رنگ روشنیاں بکھیرتی رہی۔ حلف فراموشی اور عدل شکنی کا یہ نامراد سلسلہ پونے سات برس تک جاری رہا۔ اس قبیلے نے ایسے ایسے فیصلے صادر کیے کہ زمین و آسماں لرز گئے لیکن ان کے ماتھوں پر ندامت کا ایک قطرہ تک نہ جھلملایا۔ یہ کُند چھری سے قانون و انصاف کو ذبح کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے متعفن فیصلے عیدِ قربان کے بعد گلی کوچوں میں پڑی آلائشوں کی طرح ہر سو بکھر گئے اور لوگوں نے رومال اپنی ناکوں پہ رکھ لیے۔ اِن دنوں قاضی فائز عیسیٰ یہ آلائشیں ٹھکانے لگانے میں لگے ہیں لیکن جانے کتنا وقت لگ جائے۔
کم و بیش چوالیس سال پہلے قتل کے الزام میں وقت کے مقبول راہ نما ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔ سات ججوں میں سے تین نے ملزم کو بری کر دیا۔ چار نے زیادہ سے زیادہ سزا سنا دی۔ ایک ووٹ کی برتری‘ تاریخ اور سیاست کے سینے میں ایسا خنجر گھونپ گئی کہ گہرے زخم سے ابھی تک لہو رِس رہا ہے۔ تیرہ برس قبل آصف علی زرداری نے بطور صدرِ مملکت سپریم کورٹ کو ایک ریفرنس بھیجا کہ اس فیصلے کی جانچ پرکھ کی جائے جسے وقت کے قاضی نے ''عدالتی قتل‘‘ قرار دیا ہے۔ کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ آخرکار قاضی فائز عیسیٰ نے کسی دیمک زدہ الماری سے گرد میں اَٹی فائل نکالی، جھاڑ پونچھ کی، نو رُکنی بینچ بٹھایا جس نے متفقہ فیصلہ دیا کہ بھٹو کے مقدمے کی کارروائی منصفانہ نہیں تھی اور اُنہیں آئینی و قانونی طریقہ کار سے محروم رکھا گیا۔ 1979ء کے اوائل میں بھٹو کو سزا سنانے والے بینچ کا کوئی بھی رُکن آج زندہ نہیں۔ وہ جب تک جیے، پنشن اور مراعات پاتے رہے۔ گئے تو اُن کے پسماندگان فیض یاب ہوتے رہے۔ چوالیس سال بعد نو رُکنی بینچ کی رائے کا حاصل‘ مصلوب ہو جانے والے کے نواسے‘ بلاول بھٹو کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسوئوں کے سوا کچھ نہ تھا۔
چھ برس پہلے کی بات ہے کہ ثاقب نثار، مسندِ عدل پر جلوہ فگن کوئی مقدمہ سن رہے تھے کہ اچانک بات حکومتِ وقت کی ''غلط بخشیوں‘‘ کی طرف مُڑ گئی۔ داستاں آگے بڑھی تو بات برادرِ محترم عطاء الحق قاسمی کی طرف جا نکلی۔ ثاقب نثار کی للکار سنائی دی کہ ہم 184/3 کے تحت اس شخص کی بطور چیئرمین پی ٹی وی تعیناتی کا جائزہ لیں گے۔ اُن دنوں تحریک انصاف کا ''عہدِ انصاف‘‘ جوبن پہ تھا۔ بنی گالا کی شاداب پہاڑی پر تین سو کنال کے رقبے پر محیط ''ریاست مدینہ‘‘ کا فرماں روا اپنے بارے میں کوئی ناتراش جملہ بولنے یا لکھنے والوں کی تلاش میں 'آدم بُو، آدم بُو‘ پکار رہا تھا۔ ثاقب نثار نے آئو دیکھا نہ تائو، 184/3 کے تحت صوابدیدی اختیار کی شمشیرِ برہنہ لہراتے ہوئے قرار دیا کہ قاسمی کی تقرری پہلے دن ہی سے غلط تھی۔ وہ اپنی ساری تنخواہیں اور مراعات واپس قومی خزانے میں جمع کرائے۔ یہ رقم 19کروڑ 78 لاکھ روپے بنتی تھی۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی اس ''گناہِ کبیرہ‘‘ میں ملوث پائے گئے سو لازم ٹھہرا کہ تاوان کا کچھ حصہ وہ بھی بھریں۔ متاثرین نے نظر ثانی کی اپیلیں دائر کیں۔ سوا پانچ برس ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ بالآخر یہ آلائش بھی قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم ایک سہ رُکنی بینچ نے ٹھکانے لگا دی۔
جمعۃ المبارک کے دن قاضی صاحب ہی کی سربراہی میں قائم ایک پانچ رُکنی بینچ نے ایک لحیم شحیم، تنومند اونٹ کی اوجھڑی اور آنتوں کا وہ انبار بھی ٹھکانے لگا دیا جو ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے عین سامنے شاہراہِ دستور کے بیچوں بیچ پڑا تھا۔ ''پروجیکٹ عمران‘‘ کی گود ہری ہونے کو تھی اور لازم ٹھہرا تھا کہ نواز شریف اور اُس کی خودسَر بیٹی جیل کی کال کوٹھڑیوں میں پڑے رہیں اور 2018ء کے انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔ اُس عہد کے ''تاریخ ساز جرنیل‘‘ فیض حمید اسلام آباد ہائیکورٹ کے سب سے سینئر جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے گھر پہنچے۔ مدعا بیان کیا کہ باپ بیٹی کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔ جج بولا ''ابھی تو انہیں احتساب عدالت سے بھی سزا نہیں ہوئی‘‘۔ جنرل نے کہا ''ہم نے وہ بندوبست کر لیا ہے‘‘۔ کھرا اور بے لچک جج بولا ''میرے بینچ میں مقدمہ لگا تو میں اپنے حلف کے مطابق میرٹ پر فیصلہ دوں گا‘‘۔ تاریخ ساز جرنیل نے تاریخی جملہ کہا ''اس طرح تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی‘‘۔ تاریخ ساز جرنیل کی محنت ''انصاف پرور‘‘ ججوں نے بچا لی۔ دو ماہ بعد چیف جسٹس بننے والے جسٹس شوکت عزیز کو ''ضابطۂ اخلاق‘‘ کی خلاف ورزی کے جرم میں گھر بھیج دیا گیا۔ جسٹس بندیال نے انصاف کی اِس آلائش پر کڑا پہرہ دیا اور معتوب جج کی پٹیشن کا فیصلہ نہ ہونے دیا۔ یہاں تک کہ موسم بدلا اور کھلی ناانصافی پر مبنی نام نہاد فیصلے کو بدل ڈالا گیا۔ میں یہ کہانی کسی دن زیادہ تفصیل سے بیان کروں گا۔
جسٹس ثاقب نثار نے اپنے بھائی کے اُکسانے پر ایسا ہی ایک فیصلہ، اسی 184/3 کے تحت اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے قائم ہونے والے ادارے ''پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ‘‘ کے بارے میں دیا تھا اور ایسی کاری ضرب لگائی تھی کہ برسوں یہ ادارہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو سکا۔ اس ادارے کے نیک نفس بانی ڈاکٹر سعید اختر کو تماشائے کوچہ و بازار بنا دیا گیا۔ تب مارچ 2019ء میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے اُس وقت اس آلائش کو ٹھکانے لگایا جب ثاقب نثار گھر سدھار چکے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، جسٹس بابر ستار اُن دنوں صحافت میں تھے۔ 9 مارچ 2019ء کو اُن کا ایک کالم ''Righting Wrongs‘‘ (غلطیوں کی تصحیح) دی نیوز میں شائع ہوا تھا۔ میرے پیش نظر سوال صرف یہ ہے کہ کیا برسوں بعد کسی غلطی کی درستی انصاف کے سارے تقاضے پورے کر دیتی ہے؟ جب عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ کچھ ججوں نے بدنیتی سے کام لیا، اپنا حلف توڑا، دبائو یا لالچ میں آئے تو کیا ''غلطیوں کی درستی‘‘ کا تقاضا یہ نہیں کہ اُنہیں بھی کٹہرے میں لایا جائے؟ باز پرس کی جائے؟ اور کم ازکم اُن کی پنشن اور مراعات سلب کر لی جائیں؟ کیا قاضی فائز عیسیٰ کی عدلیہ ایسا کر سکتی ہے؟