استاد داغ دہلوی نے کہا تھا
کس کا یقین کیجئے‘ کس کا یقیں نہ کیجئے
لائے ہیں اُس کی بزم سے یار خبر الگ الگ
کچھ یہی احوال تحریکِ انصاف کا ہے۔ اپنی اپنی بولیاں بولنے والے راہ نمائوں کی رنگا رنگ پھلجھڑیوں سے لوگ لطف اندوز تو ہو سکتے ہیں‘ یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ پی ٹی آئی کا اصل مؤقف کیا ہے؟ اب تو عمران خان اڈیالا جیل میں ہیں لیکن جب وہ بنی گالا یا زمان پارک تھے‘ تو بھی یہی کیفیت تھی۔ آج کل بانیٔ تحریک کے کچھ مقدمات کی سماعت اڈیالا جیل میں لگی عدالتوں میں ہو رہی ہے۔ وکلا اکثر اُدھر کا رُخ کرتے ہیں۔ اگرچہ ان ''سیاہ پوشوں‘‘ میں سے شاید ہی کوئی روایتی معنوں میں ''وکیل‘‘ رہ گیا ہو۔ سب کے سب سیاست کی طلسمی قبائیں پہن چکے ہیں۔ ان کی دلچسپیاں خان صاحب کے مقدمات سنجیدگی سے لڑنے اور ان کی برّیت کا سامان کرنے کے بجائے‘ سیاست میں اپنی جگہ بنانے اور ترقیٔ درجات کی راہیں تلاش کرنے سے ہے۔ بیشتر اسمبلیوں میں آ چکے ہیں اور اب اگلی اُڑان کیلئے دوسروں کے پَر قینچنے میں لگے ہیں۔
یہ ''وکلا‘‘ کالے کوٹ پہنے‘ فائلیں اُٹھائے اڈیالا جاتے‘ کسی مقدمے میں بے دلی کے ساتھ حُجّت تمام کرتے اور پھر ''قانونی مشاورت‘‘ کے نام پر خان صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اپنے سیاسی اہداف کی پرورش و نمو میں لگ جاتے ہیں۔ باہر نکلتے ہیں تو پھاٹک پہ منتظر کیمروں کے سامنے‘ اپنے جذبات و احساسات کو خان صاحب کی ہدایات کا جامہ پہنا کر ارشاداتِ عالیہ کا چمنستان کھِلا دیتے ہیں۔ ایک خبر گوہر علی دیتے ہیں‘ دوسری شیر افضل مروت‘ تیسری لطیف کھوسہ اور چوتھی خان صاحب کی ہمشیرہ علیمہ خان۔ ان خبروں میں ''ہم ابھی خان صاحب سے مل کر آئے ہیں‘‘ کے سوا کچھ بھی ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سرِشام خان صاحب تک رسائی رکھنے والے کورٹ رپورٹرز‘ اپنے چینلز کو پانچویں خبر دیتے ہیں جو عموماً سیاسی آلائشوں سے پاک اور درست ہوتی ہے۔ یہ تمام خبریں بھی ''جواں مرگ‘‘ ہی ٹھہرتی ہیں۔ ایک آدھ دن بعد ایک نئی کہکشاں سج جاتی ہے۔
تین چار دن قبل‘ نو آراستہ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) پارلیمانی پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے تحریکِ انصاف کو پیشکش کی کہ ''آئیں ہم وسیع تر ملکی مفاد اور سیاسی استحکام کیلئے باہم مل بیٹھیں اور وطنِ عزیز کو بحرانوں کی دلدل سے نکالنے کیلئے ذمہ دارانہ کردار ادا کریں‘‘۔ میری اس پیشکش کے ساتھ ہی ایک دبستان سا کھل گیا۔ اُسی شام ''جان اللہ کو دینی ہے‘‘ کی شہرت رکھنے والے‘ پی ٹی آئی کے شعلہ بیاں راہ نما‘ شہریار آفریدی نے ایک ٹی وی شو میں اعلان کیا ''ہم صرف چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بات کریں گے۔ عمران خان تو روزِ اوّل سے مذاکرات چاہتے ہیں۔ مگر دوسری طرف سے ریسپانس نہیں ملا۔اب جلد مذاکرات شروع ہوں گے‘‘۔ اسی دوران سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف‘ شبلی فراز نے میری تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کھڑکی کا پَٹ کوئی بال برابر کھولا اور کہا ''بانی پی ٹی آئی نے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ پہلے مذاکرات کا ماحول پیدا ہو اور ٹی او آرز وضع کیے جائیں‘‘۔ ابھی اس سَرگوشی نما اعلان کی گرہیں کھل رہی تھیں کہ تحریک انصاف کے ترجمان‘ رئوف حسن‘ شہزاد اقبال کے شو میں آئے اور پی ٹی آئی کی پالیسی نہایت دوٹوک‘ حتمی اور واضح انداز میں بیان کر دی۔
رئوف حسن کا کہنا تھا ''عمران خان نے تین جماعتوں کے بارے میں کہہ دیا ہے کہ چونکہ انہوں نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے‘ اس لیے ان سے کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔ یہ جماعتیں ہیں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم۔ حکومت کے لوگ صرف مُہرے ہیں۔ نہ یہ قانونی طریقے سے حکومت میں آئے ہیں‘ نہ یہ ہمیں کچھ دے سکتے ہیں۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی بنائی تھی لیکن اُدھر سے کوئی ردّعمل نہیں آیا۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کسی ڈیل کیلئے نہیں‘ اُنہیں صرف یہ سمجھانے کے لیے کر رہے ہیں کہ وہ سیاست میں دخل نہ دیں۔ انہیں اُن کا آئینی رول یاد دلانا چاہتے ہیں‘‘۔
پارٹی ترجمان کے اس واضح اعلان کے بعد‘ کم ازکم فی الحال‘ پی ٹی آئی نے حکومتی اتحاد سے بات چیت کے دروازے نہ صرف بند بلکہ مقفل کر دیے ہیں۔
پی ٹی آئی کی تاریخ بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ سیاستدانوں سے ہاتھ ملانے یا قومی مسائل پر (چاہے وہ کتنے ہی اہم ہوں) بات چیت کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ راولپنڈی یا اس کی ذیلی بارگاہوں سے رشتہ وتعلق میں وہ آغوشِ مادر کی سی نرمی اور گرمی محسوس کرتی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد کا غوغا اٹھا تو بھی خان صاحب نے رحم طلب نگاہوں سے انہی بارگاہوں کی طرف دیکھا۔ حکومت چلی گئی‘ صرف تین ووٹوں کی اکثریت سے شہباز شریف وزیراعظم بن گئے تو بہترین وقت تھا کہ پی ٹی آئی اسمبلی میں رہتے ہوئے سیاسی دائو پیچ آزماتی۔ خان صاحب نے یہ پسند نہ کیا۔ وہ جنرل باجوہ کو سازشی کہتے رہے۔ میر صادق اور میر جعفر قرار دیتے رہے۔ جانور پکارتے رہے۔ لیکن مدد طلب کرنے دو بار اُنہی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اگرچہ بات نہ بنی لیکن انہوں نے کسی سیاستدان کو منہ لگانا گوارا نہ کیا۔ رئوف حسن کے تازہ انکشاف کی روشنی میں اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان نے معزولی کے بعد جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں انہیں سیاست سے باز رکھنے کیلئے کی ہوں۔ 2014ء کے چار ماہی دھرنوں کے دوران میں بھی ایک شام خان صاحب ہونٹوں پر وسیع وعریض مسکراہٹ سجائے جنرل راحیل شریف کے پاس گئے تھے۔ آج تک یہی سمجھا جا رہا تھا کہ وہ نواز شریف کو منصب سے ہٹانے کیلئے مدد طلب کرنے گئے تھے لیکن پارٹی ترجمان کے تازہ بیان سے لگتا ہے کہ وہ اُس وقت بھی راحیل شریف کو بتانے گئے تھے کہ آپ صرف اپنے آئینی حلف تک محدود رہیں۔ نواز شریف سے ہم خود نبٹ لیں گے۔
مسئلہ مذاکرات نہیں‘ صرف یہ ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ گرداب سے نکلنے کی راہیں تلاش کر رہی ہے۔ اُس کے نزدیک مذاکرات کے معنی پاکستان کے مفادات یا سیاسی استحکام نہیں‘ عمران خان کے مقدمات کا خاتمہ اور رہائی ہے۔ اس کے نزدیک مذاکرات کے معنے پبلک کو معاشی بحران سے نکالنا نہیں‘ کسی نہ کسی طور خان صاحب کو پھر مسندِ اقتدار پر بٹھانا ہے۔ اُس کے نزدیک مذاکرات کے معنی دہشت گردی جیسے مرض پر قابو پانا نہیں‘ 9 مئی کی غارت گری کو عفو و درگزر کا جامۂ زیبا پہنانا ہے۔ پی ٹی آئی بخوبی جانتی ہے کہ یہ خیرات اُسے کس گھر سے ملے گی۔ حکومت مذاکرات کو پاکستان‘ اور پی ٹی آئی‘ عمران کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے این آر او کو ''مذاکرات‘‘ کے ریشمی لبادے میں لپیٹ کر اپنی حیاتِ نو کے جتن کر رہی ہے۔ سو بجا طور پر اُس کی جبینِ نیاز میں اُسی چوکھٹ کیلئے ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں‘ جہاں سے اُس کے زخموں کی چارہ گری ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے اُسے کیا لینا؟ وہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس یہ سمجھانے نہیں جا رہی کہ اپنے آئینی تقاضوں کے مطابق‘ سیاست سے دور رہو‘ یہ التجا کرنے جا رہی ہے کہ باجوہ اور فیض حمید کے ''عہدِ زرّیں‘‘ کی طرح‘ تم بھی لنگرلنگوٹ کَس کر سیاست میں کودو اور موجودہ حکمرانوں کو ''نواز شریف‘‘ بناتے ہوئے‘ ہمیں تختِ طائوس پر بٹھا دو۔ کون سمجھائے کہ اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ 9 مئی حالات میں بہت بڑی جوہری تبدیلی لا چکا ہے۔