'جارُوب‘ یعنی جھاڑو‘ فرش پہ بکھری پڑی اشیا میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ سب کچھ سمیٹ کر کسی کونے میں جمع کر دیتا ہے۔ جھاڑو پھیرنے ہی کے انداز میں‘ کسی موضوع کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور ٹھوس مؤقف اختیار کرنے کے بجائے محض پلڑوں کا توازن قائم رکھنے کیلئے عمومی فتویٰ نما بیان جاری کر دینے کو انگریزی میں (Sweeping Statement) کہتے ہیں۔ اس کا مہذب ترجمہ تو ''جارُوب کَش بیانیہ‘‘ ہی ہو سکتا ہے لیکن عام فہم اُردو میں اسے ''جھاڑو پھیر بیانیہ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے بیشتر مبصرین نے اسی ''جھاڑو پھیر‘‘ بیانیے کو اپنا ہنر بنا لیا ہے۔ سو ایک ہی لاٹھی یا ''عصائے دانش‘‘ سے ہانکنے کا چلن عام ہو چلا ہے۔
اصولی طور پر یہ بات سو فیصد درست ہے کہ کسی کے چہرے پر ملک دشمنی یا غداری کی کالک تھوپنا انتہا درجے کی زیادتی بلکہ ظلم ہے۔ اس دلیل کو بھی جواز نہیں بنایا جا سکتا کہ خود عمران خان کس کس کو گلا پھاڑ پھاڑ کر میر جعفر اور میر صادق قرار دیتے اور کس کس طرح سیاسی حریفوں پر بغاوت اور غداری کے مقدمے بنواتے رہے۔ خود مجھ پر بننے والے کرایہ داری کیس کو تو ایک نظیر کی شکل حاصل ہو چکی ہے لیکن کرایہ داری کے علاوہ مجھ پر اکتوبر 2020ء میں بغاوت اور غداری کا ایک مقدمہ بھی قائم ہوا تھا۔ کوئی ڈیڑھ درجن اور مسلم لیگی بھی ایف آئی آر کا حصہ بنائے گئے تھے۔ جرم یہ تھا کہ ہم نے بیرونِ ملک بیٹھے‘ نواز شریف نامی ایک اور ''غدار‘‘ کی وڈیو لنک کے ذریعے تقریر سنی تھی۔ اس سب کچھ کے باوجود ٹھوس شواہد کے بغیر خان صاحب کے قرض کی ادائیگی‘ اُن کی ٹکسال میں ڈھلے سکّوں میں نہیں کی جا سکتی۔
'جارُوب کَش مبصرین‘ قرار دیتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے جو حسین شہید سہروردی‘ محترمہ فاطمہ جناح‘ خان عبدالغفار خان‘ جی ایم سید‘ غوث بخش بزنجو‘ ولی خان‘ عطا اللہ مینگل‘ خیر بخش مری‘ نواب اکبر بگٹی‘ اجمل خٹک‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ یہ محض چند نام ہیں جو یاد آ رہے ہیں ورنہ یہ فہرست بہت طویل ہے۔ خان صاحب کے ساتھ ایک فیصد بھی وہ کچھ نہیں ہو رہا ہے جو عہدِ رفتہ کے ''غداروں‘‘ کے ساتھ ہوتا رہا ہے لیکن کیا اُن ''غداروں‘ میں سے بھی کسی نے وہی کچھ کیا جو خان صاحب نے اقتدار سے باہر اور اقتدار کے اندر رہتے ہوئے کیا اور اب تک کر رہے ہیں؟
خان عبدالغفار خان (باچا خان) کو 'غدارِ اعظم‘ کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ وہ سامراج کے خلاف لڑی جانے والی جنگِ آزادی کے ہراول دستے میں تھے۔ پاکستان بننے سے قبل ساڑھے چودہ برس انگریز کی قید میں رہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے دو ٹوک موقف (وہ جو بھی تھا) کے باعث چوبیس برس زندانوں میں رہے۔ 1948ء میں پہلی گرفتاری ہوئی تو اُن کی جماعت 'خدائی خدمتگار‘ نے 12 اگست 1948ء کو ایک قصبے بابڑا میں احتجاجی جلسہ کیا۔ پولیس نے شدید فائرنگ کی۔ مصدقہ اعداد وشمار جانے کیا ہیں لیکن خدائی خدمت گاروں کے مطابق چھ سو سے زائد افراد لقمۂ اجل ہو گئے۔ خان عبدالقیوم خان نے ''جوابی جلسہ‘‘ کرتے ہوئے کہا کہ ''اسلحہ ختم نہ ہو جاتا تو ایک بھی شخص بچ کر نہ جاتا۔ یہ غدارہیں۔ میں اُن کا نام ونشان تک مٹا دوں گا‘‘۔ پورا صوبہ اشتعال کی آگ میں دھڑ دھڑ جلنے لگا لیکن زنداں سے ''غدار اعظم‘‘ نے پیغام جاری کیا کہ ''میرا فلسفۂ سیاست‘ عدمِ تشدد ہے۔ خبردار! کوئی ہتھیار نہیں اٹھائے گا‘‘۔ بپھرے ہوئے پشتون‘ خون کے گھونٹ پیتے ہوئے گھروں میں بیٹھ گئے۔ باچا خان نے مجموعی طور پر 39 سال قید کاٹی۔ نہ سہولتیں مانگیں‘ نہ کسی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے ترلے کیے‘ نہ اپنے عشاق کو کسی 9 مئی پر اُکسایا‘ نہ عالمی طاقتوں کو پاکستان کی رگِ جاں دبوچنے کی ترغیب دی۔
اسی ''غدارِ اعظم‘‘ کے بیٹے (جو خود بھی ''غدار‘‘ تھا) خان عبدالولی خان نے قومی یکجہتی کا تاثر دینے کیلئے ''متحدہ جمہوری محاذ‘‘ کے پرچم تلے‘ 23 مارچ 1973ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ کیا۔ ہزاروں پشتون جلسے میں شرکت کیلئے آئے۔ مورچہ بند نشانچیوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جلسہ درہم برہم ہو گیا۔ ولی خان درجن بھر لاشیں اٹھا کر واپس چلا گیا۔ اُس نے گھر گھر جاکر ردعمل کا راستہ روکا اور فتنہ وفساد کی آگ نہ بھڑکنے دی۔
''غداروں‘‘ کی صفِ اول میں شامل ایک سرکردہ نام جی ایم سیّد کا بھی ہے جس نے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور پاکستان میں شمولیت کیلئے مرکزی کردار ادا کیا۔ اُس کی انقلابی دانش اور ''سندھو دیش‘‘ کے تصور سے اختلاف کرنے والوں کی کمی نہ تھی لیکن وہ جو بھی تھا‘ کھلی کتاب تھا۔ بغیر کسی مقدمے‘ بغیر کسی عدالتی فیصلے‘ تیس سال قید میں رہا۔ اُس دن بھی قید میں تھا جس دن 91 برس کی عمر پا کر دنیا سے رخصت ہوا۔
کالم کی تنگ دامانی اجازت دیتی تو میں عہدِ رفتہ کے ''جیّد غداروں‘‘ کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف جیسے ''غدارانِ وطن‘‘ کی ''غداریوں‘‘ کی داستان بھی بیان کرتا جن کی روحیں اور جسم چھلنی کر دیے گئے لیکن نہ انہوں نے پلٹ کر تیر برسانے والی کمین گاہوں کی طرف کوئی کنکر پھینکا نہ یہ کہا کہ ''ہم نہیں تو بھلے پاکستان پر ایٹم بم گر جائے‘‘۔ ایک ''نیم غدار‘‘ آصف علی زرداری کا ذکر بھی بے جا نہ ہو گا جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ''پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر عوامی جذبات کا آتش فشاں ٹھنڈا کر دیا تھا۔
ماضی کے سارے ''غدار‘‘ بہت بُرے سہی‘ لیکن سُہروردی سے نواز شریف تک کسی ''غدار‘‘ نے بھی محض اپنے اقتدار اور ذاتی مفاد کیلئے‘ خفیہ دستاویز 'سائفر‘ سے کھیلنے اور پاکستان کے خارجہ تعلقات بگاڑنے کی کوشش نہیں کی‘ کسی نے پاکستان کو دیوالیہ پن کے گڑھے میں دھکیلنے کیلئے عالمی اداروں کو خط نہیں لکھے‘ کسی نے لابنگ فرمز کے ذریعے امریکی کانگریس‘ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں سے پاکستان مخالف قراردادیں منظور نہیں کرائیں‘ کسی نے آرمی چیف کی تقرری کو کوچہ وبازار کا موضوع نہیں بنایا‘ کسی نے اس مقصد کیلئے اسلام آباد پر لشکر کشی نہیں کی‘ کسی نے مسلح افواج میں بغاوت ابھارنے کی سازش نہیں کی‘ کسی نے 9 مئی جیسی غارت گری کا تصور تک نہیں کیا‘ کسی نے اپنے سرکش حواریوں کے ذریعے چند گھنٹوں کے اندر اندر دو سو سے زائد دفاعی تنصیبات پر حملے نہیں کیے‘ کسی نے جی ایچ کیو پر یلغار نہیں کی‘ کسی نے کور کمانڈروں کے گھر نہیں جلائے‘ کسی نے فضائیہ کے اڈوں میں گھس کر طیارے نذرِ آتش نہیں کیے‘ کسی نے شہدا کے مقدس مزاروں کے بخیے نہیں ادھیڑے‘ کسی نے مسلح افواج کے خلاف‘ بھارتی سوچ سے بھی کہیں زیادہ مکروہ پروپیگنڈے کا باضابطہ نظام وضع نہیں کیا‘ کسی نے امریکہ اور کینیڈا میں پاکستان کے چہرے پر کالک کاری کے مراکز قائم نہیں کیے‘ اور کسی کے جانثاروں نے کبھی اس نوع کا جملہ نہیں کہا کہ ''خان نہیں تو پاکستان بھی نہیں‘‘۔
''جھاڑو پھیر مبصرین‘‘ سے صرف اتنی دست بستہ گزارش ہے کہ ''غداروں‘‘ کی صف میں خان صاحب کے منفرد‘ ممتاز اور جداگانہ مقام کو عمومیت کی ''جارُوب کشی‘‘ میں لپیٹ کر ناانصافی نہ کریں۔ تہمتِ بے جا ہی سہی جو اَن گنت دوسری شخصیات پر بھی لگتی رہی‘ لیکن خان صاحب کو گئے گزرے زمانوں کے گئے گزرے 'غداروں‘ جیسا قرار دینا بھی ان کے بلند قدکاٹھ کی کھلی توہین ہے۔