عمران خان کو کچھ بھی کہہ لیں‘ اُنہوں نے پاکستانی سیاست کی کشتِ ویراں میں ایسے ایسے اچھوتے اور نادرِ روزگار عجوبے کاشت کیے ہیں‘ اور مسلسل کرتے چلے جا رہے ہیں‘ کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ''سیاسی‘‘ کہلانے والی کوئی دوسری جماعت اُن کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں چاہوں تو ایسے ان گنت عجوبوں کی فہرست مرتب کر سکتا ہوں لیکن کالم کی تنگ دامانی مانع ہے۔ سو میں فوجی تنصیبات پر منظم حملوں سے لے کر مسجد نبوی میں عین روضۂ رسولﷺ کے سامنے پاکستانی وفد کو مغلظات سنانے اور طفلانِ بازار کی طرح مریم اورنگزیب کا پیچھا کرنے یا پھر لندن میں قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ کرنے تک کے واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک ایسے بے مثل ہنر کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو اُسے دوسری تمام جماعتوں سے ممتاز ومنفرد بنا دیتا ہے۔
اس ہنر کی معجزہ کاری یہ ہے کہ کس طرح بے مہریٔ حالات کی رُتوں میں بھی اپنے فدائین کی بُجھتی امیدوں کو زندہ رکھنا ہے۔ کس طرح نامرادی کی بُجھی راکھ سے امید کی چنگاریاں سلگانی ہیں؟ کس طرح تندوتیز ناموافق ہوائوں کے باوجود‘ یاس ونااُمیدی کے چراغوں میں جھوٹ اور فریب کا روغن ڈال کر اُن کی لو کو روشن رکھنا ہے؟ خان صاحب کے فلسفۂ سیاست سے کسبِ فیض کرنے والے قریبی رفقا‘ پارٹی کے قائدین اور اُن کی سپاہِ سوشل میڈیا اس فن پر کمال درجے کی دسترس حاصل کر چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سادہ ومعصوم کارکن ہی نہیں‘ اچھے خاصے پڑھے لکھے‘ ہوش وخرد رکھنے والے خواتین وحضرات بھی آنکھیں بند کرکے‘ جھوٹ اور فریب کے اس کھیل کو الہامی صداقتوں کا درجہ دیتے ہوئے ایمان لے آتے ہیں۔ کسی دشتِ بے اماں کی آتشیں وحشتوں میں بھٹکتے ہوئے بھی وہ یقین کر لیتے ہیں کہ واقعی ہمارے آس پاس ایک چمنستان کھلا ہے جہاں خوش رنگ پروں والے پرندے نغمہ خواں ہیں اور ترنم ریز آبشاروں کی نغمگی دل میں ہلچل پیدا کر رہی ہے۔ ایسے سبز باغ دکھانا‘ ہر کسی کے بس میں نہیں۔ اور ایسے پیروکار بھی ہر کسی کے نصیب میں نہیں جو ایسے والہانہ پن کے ساتھ جھوٹ اور فریب کو دل وجان سے قبول کرلیں اور بار بار کر لیں۔
دس سال قبل‘ جب عمران خان کا قافلۂ انقلاب‘ حضرت علامہ طاہر القادری کی سپاہِ صف شکن کے جلو میں اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر خیمہ زن ہوا تو اُنہوں نے اپنے فدائین کو نویدِ جانفزا دی کہ ''امپائر کی اُنگلی اٹھنے کو ہے‘‘۔ صبح وشام یہ اعلان کرتے ہوئے خان صاحب کے چہرے پر دھنک کے سات رنگ بکھر جاتے تھے۔ مفہوم اس نویدِ جانفزا کا یہ تھا کہ کسی بھی لمحے‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف حالات کی سنگینی کو جواز بنا کر نواز شریف کو بے دخل کرنے والے ہیں اور ہمارے لیے تختِ طائوس بچھنے کو ہے۔ مقدر نے یاوری نہ کی۔ پہلے طاہر القادری اٹھے۔ پھر خان صاحب خود اٹھے۔ امپائر کی اُنگلی نہ اٹھی۔ جاتے جاتے خان صاحب راحیل شریف کی راہ میں بھی کانٹے بو گئے۔
عدم اعتماد کی تحریک کا راستہ روکنے کے لیے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور صدر عارف علوی کے ذریعے آئینِ پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کرائے لیکن بات نہ بنی۔ اپنے پیروکاروں سے کہا ''الیکشن کے لیے تیار ہو جائو‘‘۔ اس آرزو میں‘ شہباز شریف کے حلف اٹھاتے ہی قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہو گئے۔ 'بے ہنری‘ کے ان بانجھ موسموں میں جنرل باجوہ سے دو خفیہ ملاقاتیں کیں۔ باور کرایا کہ میں نے 'میر جعفر اور میر صادق‘ آپ لوگوں کو نہیں‘ نواز اور شہبازکو کہا تھا۔ پھر پیشکش کی کہ میں آپ کو تاحیات آرمی چیف بنا دوں گا۔ بس پی ڈی ایم کی حکومت کو فارغ کرکے مجھے واپس لے آئیں۔ باجوہ صاحب اب اتنا بڑا معرکہ لڑنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ پھر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں۔ انتخابات پھر بھی نہ ہوئے۔ پھر گڈ ٹو سی یو والے جسٹس بندیال میدان میں اترے۔ خان صاحب کی آرزو میں رنگ بھرنے کے لیے الیکشن شیڈول دے دیا۔ کاتبِ تقدیر کا نوشتہ کچھ اور تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت اپنی میعاد پوری کرکے گھر چلی گئی اور 'نگرانوں‘ کا عہدِ نگرانی زلفِ یار کی طرح دراز ہوتا گیا۔ انتخابات بہرحال فروری 2024ء میں ہوئے۔ اس سارے عمل کے دوران پی ٹی آئی کی سپاہ‘ فدائین کے جذبات سے کھیلتی اور کھلونے دے کے بہلاتی رہی۔
9 مئی کی سازش اور دفاعی تنصیبات پر حملوں سے بھی کوئی انقلاب نہ آیا۔ پھر خبر دی گئی کہ قاضی فائز عیسیٰ کو گھر جانے دو۔ جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بنتے ہی نقارہ بجے گا۔ انتخابات کے حوالے سے ہماری پٹیشن سماعت کے لیے لگ جائے گی اور فارم 47 کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت گھر چلی جائے گی۔ لمحۂ موعود آیا تو قومی اُفق پر ایک اور ہی منظر نامہ رقم ہو چکا تھا۔ غالبؔ کا شعر ہے:
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
ناامیدی اُس کی دیکھا چاہیے
تقاضائے وقت کے پیشِ نظر غالبؔ کی روح سے معافی مانگتے ہوئے‘ پہلے مصرع میں ''مرنے‘‘ کی جگہ ''ڈونلڈ‘‘ لگا کے پڑھیے تو مزہ دوچند ہو جائے گا۔
منحصر ''ڈونلڈ‘‘ پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اُس کی دیکھا چاہیے
آج امریکہ میں صدارتی انتخابات کا دن ہے۔ اگلے ایک دو دنوں میں فتح وشکست کا فیصلہ ہو جائے گا لیکن پی ٹی آئی کی سینئر قیادت سے لے کر نونہالانِ سوشل میڈیا تک نے یہ مژدہ جانفزا سُنا دیا ہے کہ اُدھر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں داخل ہوا‘ ادھر اڈیالہ جیل کا درِ زنداں کھلا۔ ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر میں آئے گا تو اُس کا سٹاف انتخابی منشور اور ایجنڈے کے نمایاں نکات پر مشتمل دستاویز پیش کرے گا۔ ٹرمپ‘ یوکرین جنگ کے خاتمے‘ تارکینِ وطن کی بے دخلی‘ ٹیکس اور بیورو کریسی اصلاحات‘ اسرائیل کی مزید مدد اور بین الاقوامی معاملات کی صورت گری جیسے نکات پر سرسری نگاہ ڈالے گا۔ پھر غصّے سے فائل فرش پر پھینکتے ہوئے اے ڈی سی کو حکم دے گا کہ اسلام آباد بات کرائو۔ جارج ڈبلیو بش کی طرح پتھر کے زمانے میں دھکیل دینے کی دھمکی دے گا۔ امیر البحر کو حکم دے گا کہ میزائل اور بم برسانے والے 75 جنگی طیاروں سے لیس بحری جہاز ''جیرالڈ فورڈ‘‘ کو بحیرہ عرب کی طرف روانہ کر دو۔ ٹرمپ کے یہ اقدامات اسلام آباد میں زلزلہ سا بپا کر دیں گے۔ پاکستان کو‘ عمران کی محبت میں دیوانگی کی حدوں کو چھوتے‘ ٹرمپ کے غیظ وغضب سے بچانے کے لیے تمام ریاستی اداروں کے سربراہ پھولوں کے گلدستے لیے اڈیالہ جیل کے پھاٹک پر صفیں باندھ کر کھڑے ہو جائیں گے۔ کسی سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ہے‘ عمران خان ان لوگوں کو آنکھ بھر کر دیکھیں گے بھی نہیں۔ پروٹوکول کی گاڑیاں سائرن بجاتی‘ فراٹے بھرتی سیدھی وزیراعظم ہائوس آ رکیں گی جہاں گارڈ آف آنر پیش کرنے والا دستہ خوش آمدیدی بگل بجا کر استقبال کرے گا۔
دیکھیے یہ خواب تعبیر پانے میں کتنا وقت لیتا ہے؟ اس دوران پی ٹی آئی کی قیادت ان شاء اللہ ایک نیا پُرفریب خواب تراش لے گی اور ان خوابوں کی عادی ہو جانے والی آنکھیں مقدس سرمے کی طرح اسے اپنے اندر سمیٹ لیں گی۔
ایسا ہی ایک خواب کوئی نصف صدی قبل ہماری آنکھوں میں بھی بسایا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھوں سے نکلا جا رہا تھا اور ہم مغربی پاکستان والے‘ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر ساتویں امریکی بحری بیڑے کی راہ دیکھ رہے تھے جو ہماری مدد کے لیے خلیج بنگال کے نیلگوں پانیوں تک آن پہنچا تھا۔ ہماری آنکھیں پتھرا گئیں۔ ڈھاکہ کی فصیلوں پہ لہراتا سبز ہلالی پرچم دھجیاں ہو گیا لیکن ساتویں بحری بیڑے کو جانے کون سی برمودا تکون نگل گئی۔