مخاصمت کی صلیب پہ لٹکی مفاہمت اور مزاحمت!

پی ٹی آئی پر عجب وقت آن پڑا ہے۔ لق ودق صحرا میں بگُولے کی طرح رقص کرتے اور گھمن گھیریاں کھاتے ہوئے اُسے کچھ اندازہ نہیں کہ وہ کس کیفیتِ وجد میں ہے اور اُس کے گردوپیش کیا ہو رہا ہے۔ باگ کسی اور کے ہاتھ میں ہے‘ رکاب میں پائوں کسی اور کا ہے‘ کاٹھی پر کوئی اور سوار ہے اور چابک کوئی اور لہرا رہا ہے۔ قائدین کے طورپر اڈیالہ جیل کے آس پاس منڈلاتے‘ قیدی نمبر804 سے ملاقاتیں کرتے‘ میڈیا سے ہم کلام ہوتے‘ عدالتوں میں نوع بہ نوع عرضیاں گزارتے اور خود کو مختارِ کُل کے طور پر باور کراتے بیشتر چہرے وہ ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں میں اُبھرے اور عمران خان کی اشیر باد سے پارٹی کے 'دیرینہ نشینوں‘ کی صفوں کو چیرتے‘ دھکّم پیل کرتے‘ صفِ اول کی سنہری مسندوں پر آ بیٹھے ہیں۔ بیرسٹر علی گوہر2022ء میں پی ٹی آئی میں آئے اور اگلے ہی برس دسمبر2023ء میں قائم مقام چیئر مین بن کر خان صاحب کی کرسی پر آ بیٹھے۔ 2023ء میں تحریکِ انصاف کا حصہ بننے والے سلمان اکرم راجہ‘ اگلے سال‘ 7 ستمبر2024ء کو سیکرٹر ی جنرل کی مسندِ جلیلہ پر براجمان ہوگئے۔ 2023ء میں مشرف بہ تحریکِ انصاف ہونے والے شیخ وقاص اکرم آج پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات یعنی نفسِ ناطقہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر بپا تلاطم کا واحد سبب قدیم وجدید کی سوکنوں جیسی سوکنانہ لڑائیاں نہیں‘ جوتیوں میں دال بٹنے کے درجنوں اسباب اور بھی ہیں۔ درودیوار ہلادینے والے بھونچال کا مرکز‘ جسے ایپی سینٹر (Epicenter) کہتے ہیں‘ اڈیالہ جیل میں ہے۔ اعظم سواتی کی بہار آفریں گُل افشانی ہو یا راجہ سلمان اکرم‘ علیمہ خان اور دیگر کی سنگ باری‘ امریکی ڈاکٹروں کی مفاہمتی کاوشیں ہوں یا اُنہی ڈاکٹروں کی طرف سے امریکی کانگرس مین‘ جو وِلسن (Joe Wilson) کے پاکستان مخالف بل کی پشت پناہی‘ فوج سے معاملات طے کرنے کیلئے منت سماجت ہو یا سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز کے ذریعے بازاری مغلظات‘ سَر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے‘ اسٹیبلشمنٹ کے در پر پڑے رہنے اور مسلسل آوازیں لگانے کی حکمتِ عملی ہو یا عارف علوی جیسے نابغے کے ذریعے امریکی میڈیا میں پاک فوج کی وردی نوچنے جیسی مکروہ حرکات‘ ان سب کے پیچھے صرف ایک ہی کردار ہے۔
اعظم سواتی‘ یکایک رونما ہوئے‘ قرآن ہاتھ میں لیا اورفرمایا ''دسمبر2022ء میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد عمران خان نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں (عمران خان) آرمی چیف سے بات کرنا چاتاہوں۔ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور کہا کہ میں (اعظم سواتی) فوجی قیادت سے رابطہ کروں۔ عمران خان سے مشاورت کے بعد میں نے جنرل عاصم منیر کے ایک استاد کے ذریعے رابطے کی کوشش کی‘ پھر عاصم منیر کے ایک قریبی دوست اور عارف علوی کے ذریعے کوشش کی لیکن کوئی دروازہ نہیں کھلا۔ اب میں نے پھر خان سے ملاقات کی اور کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ میں ڈاکٹر علوی کے ذریعے اور دوسرے لوگوں کو شامل کرکے‘ بات چیت کیلئے دروازہ کھولوں۔ خان صاحب نے کہاکہ بالکل تمہیں اجازت ہے۔ اگر یہ بات چیت کرتے ہیں تو میں پہلے دن کی طرح تیار ہوں‘‘۔
یہ اس عاصم منیر کی بات ہو رہی ہے جس کی تقرری کا راستہ روکنے کیلئے خان صاحب نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ اس حساس معاملے کو کوچہ وبازار کا موضوع بنایا۔ اُن کی استعداد اور اہلیت پر اُنگلیاں اٹھائیں۔ فیض حمید کے ذریعے نادرا کے ریکارڈ میں نقب لگائی اور ایک دوست ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور آخری چارۂ کار کے طورپر اسلام آباد پر چڑھائی کر دی۔ اب اعظم سواتی کی قرآن بہ دست گواہی یہ ہے کہ خان صاحب تو معافی تلافی کیلئے اُسی دن‘ سر کے بل چلتے ہوئے کوچۂ رقیب میں جاپہنچے تھے جس دن سید عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی تھی۔ تب سے آج تک‘ پیہم دستکیں دینے کے باوجود کوئی دروازہ نہیں کھل رہا۔ کوئی نیند سے بوجھل آواز میں یہ تک نہیں پوچھ رہا ''کون ہے؟‘‘
اپریل 2022ء کے بعد جنرل باجوہ کو امریکی ایجنٹ‘ سازشی‘ رجیم چینج کا مرکزی کردار‘ جانور‘ میر جعفر‘ میر صادق اور جانے کیا کیا کچھ کہا لیکن صرف چار ماہ بعد عمران خان‘ دست بستہ‘ سربہ زانو‘ جنرل باجوہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ کہا سنا معاف کرنے کی عرضی گزاری۔ اقتدار ملنے کے عوض تاحیات توسیع کی پیشکش کی لیکن سوکھے دھانوں پر پانی کی ایک بوندبھی نہ پڑی۔
امریکہ میں مقیم ڈاکٹروں کا سہ رکنی وفد‘ پُراسراریت کی چادراوڑھے آیا اور افواہوں کی دبیز دھند میں لپٹا واپس چلاگیا۔ اُن کی یہ کاوش بے ثمر رہی۔ ان ڈاکٹر صاحبان کا تعلق امریکہ میں قائم کی جانے والی تنظیم ''پاکستان فرسٹ گلوبل‘‘ سے ہے جسے وہاں پی ٹی آئی کا ترجمان اور فولادی مورچہ خیال کیا جاتا ہے۔ کانگرس مین جو وِلسن کے فتنہ ساماں 'پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ بل‘ کی قوتِ محرکہ یہی تنظیم ہے۔ اس بل کی شق 3 کا عنوان ہے:
"Determination Regarding General Asim Munir"
(جنرل عاصم منیر کے بارے میں تعیّن کرنا)
یہ شق کہتی ہے ''اس قانون کے نفاذ کی تاریخ سے 180 دن کے اندر اندر وزیر خارجہ‘ وزیر خزانہ سے مل کر‘ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف عاصم منیر پر گلوبل میگنسٹکی‘ ہیومن رائٹس اکائونٹیبلٹی ایکٹ (USC 1010) کے تحت پابندیاں عائد کردیں گے‘‘۔
ایک طرف ایسے متعفن قانون کو امریکی کانگرس میں لانے کی مکروہات اور دوسری طرف پاکستان آ کر عمران خان پر عنایات کیلئے دربار میں عاجزانہ مناجات جیسے تضادات‘ صرف پی ٹی آئی کا خاصہ ہیں اور ان سب کی نمودوپرورش خود عمران خان کی کارگہِ فکر میں ہوتی ہے۔ صبح وشام ریاستی اداروں پر تبریٰ کرنے والا سوشل میڈیا اور بیرونِ ملک بیٹھے یوٹیوبرز‘ خان صاحب کا اثاثۂ خاص ہیں۔ اُن کی سرگرمیاں اور سرمستیاں خان صاحب کیلئے سامانِ نشاط ہیں۔ وہ کبھی اُن سے اظہارِ لاتعلقی نہیں کریں گے۔ خود اُن کا اپنا ایکس اکائونٹ اسی طرح بارود خانہ بنا رہے گا۔
عمران خان کا یہ گھائو بھرنے میں نہیں آ رہا کہ اپریل 2022ء میں‘ ایوان نے عدم اعتماد کا ڈول ڈالا تو فوج اُن کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ زخم بھرنے پہ آتا بھی ہے تو وہ شدتِ جذبات میں اُسے کھرچ ڈالتے ہیں یا ڈالروں کی دلدل میں گلے گلے تک دھنس جانے والے یوٹیوبرز اس پر کند نشتر چلانے لگتے ہیں۔ اس زخم سے مسلسل ''مخاصمت‘‘ کی ٹیسیں اُٹھتی رہتی ہیں۔ اعلان کے مطابق اعظم سواتی‘ کل (بدھ) کو ایک اہم غیرسیاسی شخصیت کے حضور حاضری کیلئے ایسا گلدستہ تیار کر رہے ہیں جس کا حاشیہ‘ امن‘ دوستی اور خیرسگالی کی مظہر‘ زیتون کی ہری بھری شاخوں سے آراستہ ہوگا۔ عارف علوی‘ پاکستان کی صورتِ حال کو غزہ سے بدتر ثابت کرنے اور پاکستانی فوج کو منہ بھر بھر کے کوسنے سنانے کے بعد جلد وطن واپس آ کر فوج کے ساتھ رہ ورسمِ عاشقانہ کا نیا مرحلہ شروع کریں گے۔ اس دوران میں امریکی ڈاکٹروں کا سہ رکنی ''امن وفد‘‘ امریکہ پہنچ کر جو وِلسن بل کی منظوری کیلئے ولولۂ تازہ کے ساتھ سرگرم ہوچکا ہوگا۔
بے سمتی‘ بے حکمتی اور بے ہنری کے لق ودق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتی اور گھمن گھیریاں کھاتی پی ٹی آئی کو اُس وقت تک قرار نہیں آئے گا جب تک اُس کی مفاہمت اور مزاحمت کی کوششیں‘ پاکستان اور پاکستانی اداروں سے مخاصمت کی صلیب پہ لٹکی رہیں گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں