اقبال … کیا ہم بھول جائیں گے؟

علامہ اقبال کو رخصت ہوئے 87 برس ہوچلے۔ لیکن کیا دلوں میں چراغِ آرزو جلانے‘ جہدِ مسلسل کا عزم عطا کرنے‘ خودی‘ خود آگاہی اور خودشناسی کا درس دینے‘ حاضرو موجود کی قید سے آزاد ہوکر نئے جہانوں کی تلاش وجستجو کی لگن اُبھارنے‘ غلامی کی شبِ سیاہ میں سحرتراشی کا جنوں بخشنے اور ''لاہور سے تابخاکِ بخارا وسمرقند‘‘ اک ولولۂ تازہ دینے والی زندہ وجاوداں شاعری کے نقوش بھی گردوغبارِ وقت کی نذر ہوجائیں گے؟ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور کینیڈا کی عالی مرتبت درس گاہوں سے فیض یاب ہونے والے 'اَبنائے اشرافیہ‘ اور پٹرول بموں سے کھیلنے والے 'طفلانِ خود معاملہ‘ سے صرفِ نظر کرلیجے‘ پاکستان کے اداروں سے کسبِ علم کرنے والے‘ مشرقی تہذیب وروایات کے حامل‘ متوسط گھرانوں کے نوجوان بھی اقبال سے شناسا ہیں نہ اُس کی شاعری سے۔ اس المیے کا ماتم پھر سہی۔
آج جی چاہتا ہے کہ علامہ کی شاعری کے اُس مشکبو پہلو کی ہلکی سی جھلک دیکھی جائے جو حضورِ اکرم حضرت محمدﷺ سے بے کراں محبت کی خوشبو میں گندھا ہے اور جسے پڑھتے ہوئے دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش سا پیدا ہوجاتا ہے۔ دس گیارہ سال پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں چار مصرعوں پر مشتمل علامہ کی ایک رباعی یا قطعے کا ذکر کیا تھا
تُو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر
(اے اللہ تعالی! تو دونوں جہانوں سے غنی اور بے نیاز ہے اور میں ایک بے سروساماں فقیر۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تُو روزِقیامت میرے گناہوں کے عذر قبول کرلے اور بخش دے اور اگر تو میرا نامۂ اعمال دیکھنا ضروری خیال کرے تو بھلے دیکھ لے لیکن میرے حضور‘ محمد مصطفیﷺ کی نگاہوں سے چھپا کر دیکھنا)
وفات سے کوئی ایک برس قبل‘ فروری 1937ء میں‘ ڈیرہ غازی خان کے ایک سکول ٹیچر‘ ماسٹر محمد رمضان عطائی کی دردمندانہ خواہش پر علامہ نے یہ رباعی اُنہیں عطا کر دی۔ اپنے ایک خط میں لکھا '' جنابِ من‘ میں ایک مدت سے صاحبِ فراش ہوں۔ خط وکتابت سے معذور ہوں۔ باقی‘ شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آ گئی ہے‘ اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ رمضان عطائی نے کبھی یہ رباعی اپنے نام سے مشہور نہ کی بلکہ پوری داستان اپنی ڈائری میں لکھ کر محفوظ کردی۔ علامہ نے یہ رباعی اپنی کتاب ''ارمغانِ حجاز‘‘ کے مسودے سے خارج کردی۔ آج بھی یہ علامہ کی کسی کتاب میں شامل نہیں۔ 'ارمغان حجاز‘ کیلئے علامہ نے اسی مضمون کی ایک اور رباعی کہی؛
بہ پایاں چوں رسد ایں عالمِ پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضورِ خواجہ مارا
حسابِ من ز چشمِ او نہاں گیر
(جب یہ عالمِ پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور حشر بپا ہو۔ جس روز ہر پوشیدہ تقدیر‘ ہر چھپی ہوئی بات ظاہر ہوجائے‘ تو اے خدا! مجھے میرے حضورﷺ کے سامنے رسوا نہ کرنا‘ میرا نامۂ اعمال آپﷺ کی نگاہوں سے چھپا لینا)
''رموزِ بے خودی‘‘ کی ایک فارسی نظم میں علامہ نے اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ عنفوانِ شباب کے دن تھے۔ ایک بھکاری ان کے دروازے پر پیہم صدا لگا رہا تھا اور ٹلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ غصے میں آکر نوجوان اقبال نے اُسے لاٹھی دے ماری۔ فقیر نے اب تک بھیک مانگ کر جو کچھ سمیٹا تھا‘ سب زمین پر بکھر گیا۔ علامہ کے والد‘ شیخ نور محمد یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اُن کے ہونٹوں سے ایک آہِ جگر سوز نکلی۔ بہت مضطرب ہوئے۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھ سے ٹپکا اور بولے کہ کل میدانِ حشر میں جب رسول اللہﷺ کی ساری امت جمع ہو گی اور حضورﷺ مجھ سے سوال کریں گے کہ
حق جوانے مسلمے با تُو سپرد
کو نصیبے از دبِستانم نبرد
از تُو ایں یک کارِ آساں ہم نہ شد
یعنی آں انبارِ گل‘ آدم نہ شد
(حضو رﷺ فرمائیں گے '' اللہ تعالی نے ایک مسلم نوجوان تیرے حوالے کیا تھا لیکن اُس نوجوان نے میرے ادب گاہِ اخلاقیات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ تُو اتنا آسان سا کام بھی نہ کرسکا کہ مٹی کے ایک تودے کو آدمی بناسکتا‘‘)
اندکے اندیش و یاد آر اے پِسر
اجتماعِ اُمّت خیر البشر
باز ایں ریشِ سفیدِ من نگر
لرزۂ بیم و اُمید من نگر
بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رُسوا مکن
غنچہِ ای از شاخسارِ مصطفیؐ
گُل شو از بادِ بہارِمصطفیؐ
فطرتِ مسلم سراپا شفقت است
درجہاں دست وزُبانش رحمت است
از مقامِ اُو اگر دُور ایستی
از میان معشر ما نیستی
(سو بیٹا تھوڑی دیر کیلئے سوچ اور رسول اللہﷺ کی اُمّت کے اجتماعِ عظیم کو تصور میں لا۔ پھر میری اس سفید داڑھی کو دیکھ۔ مجھ پر نظر ڈال کہ کس طرح میں امید اور ناامیدی کے خیال سے لرز رہا ہوں۔ اپنے باپ پر نازیبا ظلم نہ کر۔ آقاﷺ کے سامنے اُس کے غلام کو رسوا نہ کر۔ خود پر نظر کر کہ تو گلستانِ مصطفی کا ایک غنچہ ہے۔ بادِ بہارِ مصطفی سے کھِل کر پورا پھول بن جا۔ مسلمان کی فطرت تو سراپا شفقت ومحبت ہے۔ ساری دنیا کیلئے اُس کا ہاتھ اور اُس کی زبان رحمت ہے۔ اگر تُو میرے حضورﷺ کے مقام اور اسوۂ حسنہ سے دُور ہے تو ہمارے قبیلے سے بھی نہیں ہو)
1905ء میں حصولِ تعلیم کیلئے بحری جہاز سے لندن جاتے ہوئے‘ اٹھائیس سالہ محمد اقبال نے عدن کی بندرگاہ کے نواح سے 'ایڈیٹر وطن‘ مولانا انشاء اللہ خان کو جو خط لکھا‘ اُسے اقبال شناس اہلِ فکر 'نثری نعت‘ قرار دیتے ہیں۔ اقبال نے لکھا: ''اب ساحل قریب آتا جاتا ہے۔ چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحلِ عرب کے تصور نے جو ذوق وشوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے‘ اُس کی داستان کیا عرض کروں۔ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں۔ اے عرب کی مقدس سرزمین! تجھ کو مبارک ہو۔ تم ایک پتھر تھیں‘ جس کو دنیا کے معماروں نے ردّ کر دیا تھا۔ مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا فسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کے تہذیب وتمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے۔ اور تیرے کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بدکردار جسم کی خاک تیرے بیابانوں میں اُڑتی پھرے اور یہی آوارگی میرے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش تیرے صحرائوں میں لُٹ جائوں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر‘ تیری دھوپ میں جلتا ہوا اور پائوں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا‘ اُس پاک سرزمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں اذانِ بلال کی عاشقانہ آواز گونجی تھی‘‘۔
اٹھائیس سال کا نوجوان‘ تب نہ اقبال بنا تھا نہ علامہ‘ نہ سَر نہ فلسفی‘ نہ شاعرِ مشرق نہ مصورِ پاکستان‘ لیکن عشقِ رسولﷺ کی مشکبو تمازت اُس کے ہر قطرہِ خوں میں سلگ رہی تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں