بجٹ منظوری کی مشق آخری مرحلے میں ہے۔ یکم جولائی سے نئے مالی سال کا میزانیہ روبہ عمل آ جائے گا۔ عام آدمی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ صنعتی و تجارتی سرگرمیوں پر کیا گزرے گی‘ نیم جاں معیشت کس قدر توانا ہو گی‘ بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے ہم اپنے ماحول میں کتنی کشش پیدا کر سکیں گے‘ محصولات میں کتنا اضافہ ہو گا‘ داخلی اور خارجی قرضوں پر انحصار کس قدر بڑھے گا یا کم ہو گا‘ روزگار کے کس قدر مواقع پیدا ہوں گے‘ تعلیم وصحت جیسے شعبوں میں کس قدر بہتری آئے گی‘ مہنگائی کس قدر قابو میں رہے گی اور مجموعی طور پر پاکستان‘ گزرے مالی سال کی نسبت کس قدر بہتر دکھائی دے گا‘ ان تمام باتوں کا انحصار گونا گوں عوامل پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے مشکل حالات میں ملک کی کمان سنبھالی اور اس حقیقت کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی احوال و کوائف میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ وزیراعظم کو داخلی اور خارجی سطح پر اثر و رسوخ رکھنے والے اداروں کا بھرپور تعاون بھی حاصل رہا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور حکومت کے درمیان گہرے تعاون اور اشتراکِ عمل کی صورت‘ باجوہ عمران گٹھ جوڑ سے قطعی مختلف رہی۔ اس کے ثمرات مختلف شعبوں میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہ سب کچھ ایسے حالات کے باوصف ہوا جنہیں کسی طور پر بھی سازگار نہیں کہا جا سکتا۔ جیل میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف کے سربراہ پُرسکون پانیوں میں جوار بھاٹا اٹھانے کی کوشش کرتے رہے۔ آئی ایم ایف کو خطوط لکھتے اور 'ڈوزیئر‘ پیش کرتے رہے کہ پاکستان کو کوئی پائی پیسہ نہ دو۔ بین الاقوامی طور پر اُس کے دفاتر کے باہر مظاہرے منظم کراتے رہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر امریکی اور برطانوی پارلیمانوں تک‘ ہر مؤثر فورم کو پاکستان کے خلاف اُکساتے رہے‘ زور دار اپیلیں کرتے رہے کہ سمندر پار پاکستانی وطنِ عزیز کی تجوری میں کچھ نہ ڈالیں تاکہ زرِمبادلہ کے حوالے سے ہمارا سب سے بڑا سرچشمہ‘ خشک ہو جائے۔ خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت کے بل بوتے پر ہیجان پیدا کرنے اور طوفان اٹھانے کے منصوبے بناتے رہے۔ قفس کی سختیِ دیوار و در اعصاب پر اثر انداز ہونے لگی تو 'آر یا پار‘ کے انداز میں بھرپور عوامی احتجاج کیلئے فائنل کال دے ڈالی۔ پاکستان اس اعتبار سے خوش بخت نکلا کہ خان صاحب کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہ ہوا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہوتے ہوئے اقتصادی اشتراک و تعاون کا سفر جاری رکھا۔ سمندر پار پاکستانیوں نے سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے ترسیلاتِ زر میں ریکارڈ اضافہ کیا جو جلد 40ارب ڈالر سالانہ کو پہنچنے والا ہے۔
نومبر 2024ء کی فائنل کال‘ مضحکہ خیز تماشا بن کر ہزیمت کی شرمناک داستان رقم کر گئی۔ عوام نے اپیل کو نظر انداز کردیا۔ انقلاب‘ اڈیالا جیل کے پہلے حفاظتی جنگلے سے سر پھوڑتے ہوئے بے دم ہو گیا۔
گزشتہ مالی سال کے دوران دنیا بھی مضطرب رہی۔ روس یوکرین جنگ جاری رہی۔ غزہ کا قتلِ عام نہ رُک سکا۔ اسرائیل 'آدم بو آدم بو‘ پکارتا ہوا دیوِ استبداد کی طرح ایران پر چڑھ دوڑا۔ سیاستدانوں اور ایٹمی سائنسدانوں کی ایک فہرست مرتب کی اور ان سب کو قتل کر ڈالا۔ ایران کے پاس کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ بھی اپنی استعداد کے مطابق اسرائیل کو سبق سکھانے کی کوشش کرتا جو اُس نے کی اور بہت سے اندازوں سے کہیں بہتر کی۔ توقع کے عین مطابق امریکہ بھی اسرائیل کی بھرپور سیاسی‘ سفارتی اور اقتصادی مدد کے بعد اُس کے اہداف کے حصول کیلئے اس جنگ میں شامل ہو گیا۔ یہ بارود خانہ کب ٹھنڈا پڑتا ہے‘ کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اسی برس بھارت نے خطے میں بالا دستی کے دیرینہ خواب کو تعبیر دینے کیلئے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی پہلگام کے حوالے سے بھارت کا بیانیہ تسلیم نہیں کیا۔ خود بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھتی رہیں کہ کوئی ثبوت تو لاؤ لیکن مودی اپنے سر پر فتح کی کلغی سجانے کیلئے‘ پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر چکا تھا‘ سو وہ سات مئی کو چڑھ دوڑا۔ فتح کی کلغی تو نہ سجی لیکن عبرتناک ''شکست کا سیاہ داغ‘‘ ہمیشہ کیلئے اُس کے ماتھے پر چپک گیا۔ اس چار روزہ جنگ نے پاکستان کو سرخرو کیا اور اس کیلئے نئے امکانات کے دریچے کھول دیے۔
اندرونی اور بیرونی ارتعاش کے باوجود‘ استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ اقتصادی صورتحال کی بہتری اور عوامی ترقی و خوشحالی کے ہدف کے حصول میں‘ مکمل نہ سہی‘ حکومت نے جزوی کامیابیاں ضرور حاصل کیں۔ کم از کم پستی کی طرف لڑھکنے اور زوال پذیری کا راستہ ضرور روک دیا۔
آمدن اور اخراجات کے تخمینوں کی روشنی میں آنے والے بارہ مہینوں کیلئے ایک میزانیہ ضرور ترتیب دیا جا سکتا ہے لیکن داخلی صورتحال کیا کروٹ لیتی ہے اور خارجی سطح پر کیا نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں؟ اُن کا زائچہ مرتب کرنا مشکل ہے۔ ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں نے ہمارے پڑوس میں‘ ہماری سرحدی لکیر کے اُس طرف آتش کدہ دہکا دیا ہے۔ ایک بڑی جنگ ہمارے گھر کے ساتھ والے گھر کو لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اسرائیل کو بھارت کی شکل میں ایک نیا کارندہ بھی مل گیا ہے جو اس کشمکش میں کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ نریندر مودی نے ایران پر حملوں کی رسمی مذمت بھی نہیں کی۔ ایران دشمنی کے حوالے سے اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ 'پاکستان دشمنی‘ کی قدر مشترک بھی رکھتا ہے۔ سو وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان چوکنا رہے اور اپنے دوستوں کو بھی اس صورتِ حال سے پوری طرح باخبر رکھے۔ شرمناک شکست کے بعد بھارت اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ مودی شدید داخلی دباؤ میں ہے۔ خارجہ محاذ پر بھی اُسے پسپائی کا سامنا ہے۔ اُس کے اعصاب پر بڑھتا ہوا دباؤ خبث میں گندھے اس کے باطن میں کسی نئی مہم جوئی کی چنگاری سلگا سکتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک‘ ایٹمی قوت کے حصول کی جدوجہد میں ہر سیاسی راہنما اور ہر فوجی ڈکٹیٹر نے اپنا حصہ ڈالا۔ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا کٹھن راستہ‘ بھارتی ایٹمی پروگرام کے تناظر میں چُنا۔ نواز شریف نے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکے بھی بھارتی دھماکوں کے ردّعمل میں کیے۔ 27برس قبل ایٹمی دھماکوں کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا موجود تھیں۔ حالیہ بھارتی جارحیت کے بعد تاریخ بہ آواز بلند پکار رہی ہے کہ ہمارے رہنماؤں نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ آج ہمیں بھارتی عزائم کے سبب اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ بھی کرنا پڑا ہے اور اس بارے میں قوم متفق ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ میزانیہ‘ اعداد و شمار پر مبنی متوقع آمدنی اور اخراجات کا منصوبہ ہے۔ اس کی تکمیل اور کامیابی کا انحصار گرد و پیش کے حالات و واقعات پہ ہے جن کا زائچہ کوئی جوتشی نہیں بنا سکتا ہے۔ میزانیے اور زائچے کے اس رشتۂ باہم پر مکمل نگہداری اور مؤثر حکمت عملی ہی ہمارا اصل امتحان ہو گا۔ آمدن اور اخراجات میں توازن کی طرح آج کی دنیا میں دوستوں اور دشمنوں کا تعین اور اعتدال و توازن قائم رکھنا بھی اہم ہے۔
خطے میں نہایت تیزی کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی تبدیلیاں ایک بڑے ریکٹر سکیل کے زلزلے کی طرح‘ ملکوں کے باہمی تعلقات کو اُتھل پتھل کر رہی ہیں۔ ایسے میں کسی جنگ میں براہِ راست ملوث ہوئے بغیر‘ اپنے دامن کو آگ کے بھڑکتے شعلوں سے بچاتے ہوئے‘ دانشمندانہ اور حکیمانہ راستہ تراشنا تقاضائے وقت ٹھہرا ہے۔ اگر ہم تنی رسّی پر ہولے ہولے قدم دھرتے‘ کڑی آزمائش کا یہ کڑا وقت گزارنے میں کامیاب ہو گئے تو داخلی استحکام‘ معیشت کی استواری اور ترقی و خوشحالی کے ارفع اہداف کا سفر بھی آسان ہو جائے گا اور اگر خدانخواستہ ذرا سا بھی توازن بگڑا تو سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔