کابل انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج!

بہت سے دوسرے معاملات کی طرح‘ پاک افغان کشیدگی کا معاملہ بھی اتنا سادہ ومعصوم نہیں رہا کہ قطر اور استنبول کی دو چار ملاقاتوں کی ہتھیلی پر کوئی سرسوں جمائی جا سکے۔ دنیا پھر ایک سرد جنگ کی طرف لوٹ چکی ہے جہاں باہم جنگ آزما گروہ بھی واضح دکھائی نہیں دیتے‘ ان کے اہداف ومقاصد بھی ڈھکے چھپے ہیں اور جو اپنی اپنی حدودِ توفیق کے مطابق‘ ہر کہیں اپنی تخریب گاہیں بنائے بیٹھے ہیں اور کچھ نئی چراگاہوں کی تلاش میں ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ موجودہ افغان انتظامیہ کا تنازع محض چند اختلافات تک محدود نہیں۔ کم وبیش سترہ اٹھارہ برس پرانے‘ بازوئے شمشیر زَن کو‘ جسے وہ اپنی حقیقی سپاہ خیال کرتی ہے‘ بہ یک جنبش قلم‘ صفِ دشمناں میں دھکیل دینا‘ کم ازکم اس کی نظر میں خسارے کا سودا ہے۔ طالبان آسانی سے آمادہ نہیں ہوں گے کہ معتبر دوستوں کی ٹھوس ضمانت پر بھی اپنے اسلحہ خانہ کے سب سے مؤثر اور ہلاکت آفرین ہتھیار سے دستبردار ہوکر خود کو کلی طور پر غیرمسلح کر لیں۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی معیشت اور کئی دیگر پہلوؤں کا دار ومدار بھی پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ کردار پر ہے جو اُن کی تجوری کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔
حالیہ مذاکرات کے دوران‘ افغان رجیم کا یہ مؤقف ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا کہ ''یہ پاکستان کا داخلی معاملہ ہے‘ وہ خود اسے کیوں حل نہیں کر لیتا؟ ہم پر اس کی ذمہ داری کیوں ڈالتا ہے؟‘‘ یہ بات برسوں سے دہرائی جا رہی ہے۔ بلاشبہ ایک اعتبار سے یہ ہمارا داخلی معاملہ تھا اور رہا‘ اس لیے کہ اس نے اسی سرزمین سے جنم لیا‘ یہیں پروان چڑھا اور یہاں ہی فتنہ وفساد کے جوہر دکھائے۔ لیکن کیا 2007ء سے آج تک‘ گزشتہ اٹھارہ برس میں کچھ نہیں بدلا کہ اسی بے مایہ و بے مصرف دلیل کو دہرایا جاتا ہے جس کا منترا آج بھی افغان رجیم پڑھ رہی ہے؟
بہت کچھ جاننے اور سمجھنے‘ حقائق کی گہرائیوں تک نگاہ رکھنے نیز طالبان اور تحریکِ طالبان کی باہمی گرمجوشی کے تمام پہلوؤں سے آگاہی کے باوجود‘ پاکستان نے اسے اپنے مسئلے کی نگاہ سے دیکھنے اور اپنی حکمت عملی کے ذریعے حل کرنے کی بیسیوں کوششیں کیں۔ درجنوں آپریشن کیے۔ بیسیوں چھوٹی بڑی کارروائیاں کیں۔ ہزاروں شہیدوں کا لہو دیا۔ اس سب کچھ میں اگر افغان رجیم کا کوئی حصہ تھا بھی تو انتہائی منفی حد تک‘ یعنی بجھی چنگاریوں پر تیل چھڑکتے رہے۔ یہ سلسلہ تخلیقِ ٹی ٹی پی کے فوراً بعد 2007ء میں ہی جاری ہوگیا تھا جو مالاکنڈ‘ سوات اور نواحی علاقوں سے ہوتا ہوا بڑے کلین اَپ آپریشن کی شکل اختیار کرگیا۔ اسی دوران جنوری میں جنوبی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں 'راہِ نجات‘ کے نام سے آپریشن جاری رہا۔ دسمبر 2014ء کی خونخوار واردات کی ذمہ داری قبول کر لیے جانے کے بعد بھی‘ افغانستان حکومت کو براہِ راست چیلنج کرنے کی ضد کے بغیر پاکستان کی پارلیمنٹ نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جو ظاہر ہے ''سرپرستانِ عالی مرتبت‘‘ کی وجہ سے ناکام رہا اور پھر بات 'ضربِ عضب‘ جیسے بڑے آپریشن تک جا پہنچی۔
دس سال قبل شروع ہو نے والا آپریشن 'ردالفساد‘ ہنوز کسی نہ کسی نوع جاری ہے۔ کہیں کہیں بات چیت کے دریچے کھلتے رہے۔ سیز فائر کی کرنیں بھی پھوٹتی رہیں۔ برف پگھلنے کے آثار بھی دکھائی دیتے رہے لیکن معاملہ یہ تھا کہ مسئلے کی جڑ وہیں کی وہیں تھی۔
پاکستان کو اپنا معاملہ گھر کے اندر سے ٹھیک کرنے کی نصیحت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ آپریشن ہم نے خود کیے۔ اپنے سرمائے سے کیے۔ اپنے لہو سے کیے۔ کوئی 2600 کلومیٹر طویل افغانستان سرحد پر حفاظتی باڑ بھی ہم نے لگوائی جس پر دو ارب روپے کے سرمائے کا بوجھ لگ بھگ پاکستان نے اٹھایا۔ یہ بھی مت بھولیے کہ سانحۂ آرمی پبلک سکول کے بعد بھی پارلیمنٹ اور قومی جذبات کے ترجمان 'نیشنل ایکشن پلان‘ کے 23 نکات میں ہم نے 99 فیصد ذمہ داریوں کا بوجھ خود ہی اٹھایا تھا اور اندرونی طور پر اس کا ردّعمل بھی برداشت کیا۔ ایک قومی ایجنڈا سیٹ کیا‘ قتل کے الزام میں بڑی سزائیں دیں‘ فوجی عدالتوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے آئینی ترمیم کی‘ نئے ادارے بنائے‘ کڑے قوانین اور ضابطے نافذ کیے‘ میڈیا پر قدغنیں لگائیں۔ گویا سبھی کچھ اپنے سر لے لیا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہم کتنا کچھ کر پائے مگر اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ پاکستان نے بھرپور 'اندرونی‘ کوششیں بھی کر ڈالیں جن کے بارآور نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ افغان رجیم انہیں زندہ رکھنے کے درپے تھی اور انہیں دانہ‘ پانی‘ پناہ سب کچھ دے رہی تھی۔ گویا سینۂ شمشیر سے باہر تھا دَم شمشیر کا۔
اب یہ لوگ کہہ رہے ہیں ''پاکستان خود کیوں کچھ نہیں کر لیتا؟‘‘ تنگ آ کر پاکستان نے کچھ کیا ہے تو افغان انتظامیہ نے ہاہاکار مچا دی ہے۔ اتنی سی بات نہیں بتائی جا رہی کہ چلیں آپ (افغان حکومت) کی تو ہمارے ساتھ جنگ بندی ہو گئی ہے‘ جو آپ کی چھتوں منڈیروں پر بیٹھے توپیں داغ رہے ہیں‘ ان سے آپ کا اب رشتہ وتعلق کیا ہے؟ اگر نہیں ہے تو پاکستان کو کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتا ہے یا پھر پاکستان ہی کی طرح آپ بھی ان کے خلاف سرگرم ہو جائیں۔ نہ معزز مہمانوں کو زحمت دیں نہ سفارتکاری کا بھرم گنوائیں۔
قومی بیانیے کے صرف ایک نکتے کے بارے میں افغان انتظامیہ سے مدد مانگی گئی تھی اور وہ تھا کہ ''پاکستان میں افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور واپسی کے عمل کو منظم کیا جائے‘‘۔ ان سے یہ کام بھی نہ ہو پایا۔ الٹا اسے بھی ہماری فردِ جرم بنا ڈالا۔ تو اب پاکستان جانے اور وہ جانیں‘ جو پاکستان سے جنگ آزما ہیں۔ جو روز ہمارے لوگوں کی لاشیں گرا رہے ہیں‘ روز ہمارے گھر ماتم کدے بنا رہے ہیں۔ یہ بھیانک کھیل گرم جوش میزبانی اور بے سمت سفارتکاری سے ذرا آگے کا ہے۔ معاملہ ایک نازک موڑ تک پہنچ چکا ہے۔ کیا کابل قیادت اس کی اہلیت رکھتی ہے؟
اگر پاکستان اتنا کچھ کر لینے اور اتنے گہرے زخم کھا لینے کے بعد اپنے عوام‘ اپنی سرزمین کے تقدس اور اپنی قومی سلامتی کے لیے ایسے سرکش گروہوں کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر روکتا یا ان کی سرکوبی کرتا ہے جو افغانستان کی سرزمین میں پناہ لیے بیٹھے ہیں تو اس پر کابل کو جزبز ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بہتر ہوگا کہ موجودہ مذاکرات میں جو بھی ثالثی نظام وضع ہو‘ اس پر مؤثر عمل درآمد کے نکتے کو سب سے باعمل بنایا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ کوشش بھی ماضی کی کئی کوششوں کی طرح بے سود ٹھہرے گی۔
پاکستان بہرحال ایک نہایت مثبت‘ تعمیری‘ نتیجہ خیز اور بامعنی مذاکرات چاہتا ہے جو محض لیپا پوتی تک محدود نہ رہیں بلکہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاون ثابت ہوں۔ اس ضمن میں قطر اور ترکیہ کی کوششیں نہایت قابلِ احترام ہیں لیکن جب تک یہ چشمہ کابل کے سنگ زاروں سے نہیں پھوٹے گا‘ بات آگے نہیں بڑھے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں