انتخابات : چند نظریاتی مباحث

پاکستان میں سال 2013ء کو اس لیے خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ اس سال گیارہ مئی کو عام انتخابات ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ مقرر کی تو قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ کوئی کہتا تھا طالبان الیکشن نہیں ہونے دیں گے، کوئی کہتا تھا فوج نہیں ہونے دے گی۔ بہرحال ملک کی سیاسی جماعتوں نے جوش و خروش کے ساتھ انتخابی مہم چلانا شروع کردی۔ افواج کے سربراہ نے کہیں کہہ دیا اسلام کو پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس فقرے پر چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔جو سوال اٹھائے گئے ان میں ایک تھا ’’نظریہ پاکستان کیا ہے؟‘‘ دبستان اقبال کی طرف سے میاں اقبال اور میں نے اس کی وضاحت کی جو دو ایک اخباروں میں شائع بھی ہوئی۔ دو تین برس قبل میرے بیٹے ولید نے اپنی مرضی سے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ گیارہ مئی کے انتخابات میں اس نے بھی اپنی جماعت کے ٹکٹ پر لاہور سے قومی اسمبلی کے ایک حلقہ سے انتخاب لڑا۔ میں نے اس کی بیوی نوریہ سے کہا: ’’بیٹی! ولید جوان ہے، دیانتدار ہے، محنتی ہے، قانونی پریکٹس بھی اس کی خوب چل رہی ہے، تین چھوٹے بچوں کا باپ ہے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس کا اس نئے اور اجنبی میدان میں کودنا مناسب ہے؟ ‘‘ان کا جواب تھا: ’’ابو جان! اس جیسے جوان آگے نہ آئے تو تبدیلی کیسے آئے گی، ملک کے حالات کیسے بہتر ہوں گے؟‘‘ خیر نوریہ اور ولید کی والدہ ناصر ہ نے اس کی انتخابی مہم کے ہر مرحلہ پر اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہر طرف ’’تبدیلی تبدیلی‘‘ کا شور مچا تھا۔ تبدیلی واقعی اس حد تک تو ضرور آئی کہ طالبان کی دہشت گردی کے خطرات کے باوجود لوگوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ ڈالے اور انتخابات میں حصہ لیا لیکن ولید ہار گیا۔ جیتنے والوں نے جشن منائے اور ہارنے والوں نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے دھرنوں کے میلے لگائے۔ میں اس دن سے سوچ رہا ہوں پاکستان میں ہم جیسے لوگ ہارتے کیوں ہیں اور جیتنے والے کون ہوتے ہیں؟ محترمہ فاطمہ جناح ہاریں، میں ہارا، ولید ہار گیا۔ بالغ جمہوری سوچ تو واقعی یہی ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ بانیان پاکستان یا کسی بھی معروف شخصیت سے کسی قسم کی موروثی وابستگی کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ اپنی شہرت اور عوامی خدمات کے بل پر عوام کا سامنا کرنا چاہیے لیکن جو لوگ جیتتے ہیں‘ اُن کی یہ سوچ نہیں۔ یہ لوگ موروثیت کی بنا پر اپنے بیٹے بیٹیوں کو آئندہ کی سیاسی قیادت کی خاطر باقاعدہ تیار کرتے ہیں۔ عام جمہوری طریقہ سے جو الیکشن جیتتے ہیں وہ کون ہیں؟ وہ وہی لوگ ہیں جن کا تعلق ’’اشرافیہ‘‘ سے ہے۔ اب پاکستان کی ’’اشرافیہ‘‘ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟ ظاہر ہے، دیہات سے جاگیردار اور ان کے چٹے بٹے یا شہروں سے صنعت کار اور ان کے حواری، یعنی جو سرمایہ سے سرمایہ بنانا جانتے ہیں اور سیاست کو کاروبار یا تجارت سمجھ کر اپناتے ہیں۔ اصلی تبدیلی آنے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ ہم یعنی مسلم عوام یا بقول اقبال ہجومِ مسلمین، اپنی تاریخ میں ’’سلطانیٔ آمران عسکری‘‘ سے نجات پا کر اب’’سلطانی ٔ اشرافیہ‘‘ کی گرفت میں آچکے ہیں اور وہ جمہوری نظام جسے اقبال اسلام کا اصل پیغام سمجھتے ہوئے ’’سلطانیٔ جمہور‘‘ کا نام دیتے ہیں، شاید خاص مدت کے بعد دیکھنے میں آئے۔ پس ابھی تو جیتنے کی نہیں بلکہ جو ’’نقشِ کہن‘‘ نظر آتے ہیں اسے مٹاتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک اور اہم سوال جو اٹھایا جاتا ہے وہ ہے ،کیا پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؟ نہیں! ایک نیوکلیئر ریاست ناکام کیسے ہوسکتی ہے؟ البتہ بیمار ریاست ضرور ہے۔ اسے پیدا ہوتے ہی مختلف قسم کی بیماریاں لاحق ہوگئی تھیں۔ ان بیماریوں کی نوعیت جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی۔ جسمانی بیماریاں توابتدا میں روٹی کپڑا اور مکان کے فقدان کی صورت میں ظاہر ہوئیں لیکن اب چلتے چلتے پانی، بجلی اور گیس کے بحرانوں کا اضافہ ہوگیا۔ اگر ماضی میں نہیں تو کیا حال یا مستقبل میں وجود میں آنے والی وہی پرانی یا آزمائی ہوئی دیہاتی یا شہری ’’اشرافیہ‘‘ پر مشتمل حکومتیں ان بیماریوں کا علاج کرسکنے کے قابل ہوسکیں گی؟ اس سوال کا جواب بظاہر تو ہاں میں نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ماضی میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ لہٰذا آئندہ بھی یہی توقع ہے کہ ایک کے ناکام ہونے پر دوسرا اس پر کیچڑ اچھالے گا اور پاکستان کی جسمانی بیماریاں آبادی کے بڑھتے چلے جانے کے سبب یونہی لاعلاج ہوتی چلی جائیں گی۔ بہرحال ہر قوم کی اپنی جسمانی بیماریاں ہیں جو حکومت اب بنی ہے اس کا دعویٰ تو یہی ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ خدا کرے ایسا ہو! ورنہ ایسے وعدے محض طفل تسلیاں ہیں۔ جہاں تک روحانی بیماریوں کا تعلق ہے، ان سے مراد پاکستان میں اسلام کی مختلف تعبیریں ہیں جن پر عمل کرنے والے آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ایک قسم تو انتہا پسندوں کی ہے۔ یہ روایت یا تقلید پرست لوگ پاکستان میں رائج جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔ اپنی طرز کی شریعت نافذ کرنے کے درپے ہیں۔ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں اور ننھے بچوں کو مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر ٹیکے لگانے والی کارکن خواتین کو قتل کرتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ مطالبات منوانے کی خاطر معصوم لوگوں کو مارنے سے گریز نہیں کرتے اس لیے ’’دہشت گرد‘‘ کہلاتے ہیں۔ دراصل ان کی لڑائی تو امریکنوں کے ساتھ ہے مگر وہ بدلہ پاکستانی مسلمانوں سے لیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق پاکستان امریکہ یا مغرب کے تابع ہے ۔کیا اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن ہے؟ دوسری قسم ان مسلمانوں کی ہے جو غلط یا صحیح طور پر اپنے آپ کو علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے پرستاروں میں سمجھتے ہوئے ’’اجتہادی‘‘ سوچ پر ایمان رکھتے ہیں۔ جمہوریت، آئین، حقوق بشر کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے حق میں ہیں۔ مزید سمجھتے ہیں کہ شریعت کی تعبیر وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق کی جاسکتی ہے لیکن حالات کو جوں کا توں رکھنے کے قائل ہیں۔ میں انہیں کس نام سے پکاروں؟ تیسری قسم میں وہ مسلمان یا ان کی سیاسی جماعتیں آتی ہیں جو اپنے آپ کو ’’سیکولر‘‘ یا ’’لبرل‘‘ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ’’لادین‘‘یا ’’لامذہب‘‘ مت سمجھو، ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے، اس کا ریاست یا اس کے آئین سے کوئی تعلق نہ ہونا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ تو درست معلوم ہوتی ہے مگر ’’دہشت گردوں‘‘ کے نزدیک یہ لوگ امریکہ کے دوست ہونے کے سبب اسلام کے دشمن اور واجب القتل ہیں اور ’’منافقوں‘‘ کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ان کی فکر کی نوعیت محض علمی یا ادبی ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ حالیہ انتخابات جیت کر حکومت بنانے والی ’’اشرافیہ‘‘ پاکستان کے جسمانی امراض کا علاج عوام کی توقع کے مطابق جلد نہیں کرسکے گی بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی موجودہ نوجوان نسل جو صحیح معنوں میں تبدیلی چاہتی ہے اور ’’نئے پاکستان‘‘ کو وجود میں لانے کی خواہشمند ہے، وہ بھی اقتدار میں آجائے تو اسی ’’اشرافیہ‘‘ کا روپ اختیار کرلے گی جو ہماری سیاسی اسٹیج پر پرانے یا آزمائے ہوئے اداکاروں کی مانند آتے جاتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’نئی حکومت‘‘ دہشت گردوں یا طالبان کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعہ مفاہمت بھی کرے گی اور پاکستان کی روحانی بیماریوں کا علاج بھی؛ حالانکہ ایسی کوششیں پہلے بھی کی گئیں مگر کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا۔ بات دراصل یہ ہے کہ میدان جنگ میں جیتنے والے‘ ہارنے والوں کے ساتھ جب مفاہمت کرتے ہیں تو اپنی شرائط یا مطالبات ان سے منواتے ہیں۔ دہشت گرد یا طالبان غدار ہیں، سرکش ہیں یا ہمارے دشمن ہیں؟ جو کچھ بھی ہوں، سب سے پہلی شرط تو ان کا ہتھیار ڈالنا ہے۔ پھر اگر غدار قرار دیئے جائیں تو مقدمہ چلانے کے بعد سزا کے مستحق ہیں اور اگر سرکش یا دشمن ہیں تو ان کے ساتھ پاکستان کی اپنی شرائط پر ہی مفاہمت ہوسکتی ہے۔ مگر پاکستان کی نئی حکومت کس حیثیت سے دہشت گردوں یا طالبان کے ساتھ مفاہمت کرنے نکلی ہے؟ ہارنے والے فریق کی مانند یا جیتنے والے فریق کی طرح؟ ایک دوسرے کے مطالبات تسلیم کرنے پر مفاہمت تبھی ہوسکنے کا امکان ہے جب دونوں فریق برابر ہوں یا ایک جیسے ہوں۔ مگر یہاں تو صورت مختلف ہے۔ کبھی وہ فریق مفاہمت چاہتا ہے اور کبھی اپنی پیشکش واپس لے لیتا ہے مگر وہ فریق ہے کون؟ کیونکہ اب دہشت گرد بھی کئی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ نئی حکومت دہشت گردوں کے کس گروہ یا گروہوں کے ساتھ بات چیت کا ارادہ رکھتی ہے؟ کون کس کے مطالبات مانے گا؟ پھر اگر امریکہ اور مغرب ایسی گفت و شنید کے حق میں نہیں اور امریکہ اپنے ڈرون حملے ان پر جاری رکھنے پر مصر ہے تو کیا نئی حکومت ان ممالک کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کی جرأت رکھتی ہے؟ میں شاید اب بوڑھا ہوجانے کے باعث ایسی ناامیدی اور مایوسی کی باتیں کررہا ہوں، ایک پاکستانی مسلمان کی حیثیت سے مجھے یہی یقین کرنا اور کہنا چاہیے کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔ اللہ سب ٹھیک کردے گا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں