"KMK" (space) message & send to 7575

باندر دے ہتھ بندوق

انجم سلیمی کا شعر ہے:
اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یونہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے
دو برس ہوتے ہیں میں نے یہ شعر خود انجم سلیمی کے منہ سے سنا اور اب تک اس کی سرشاری سے مزہ لے رہا ہوں مگر صرف شعر کی حد تک۔ میں جس محبت کو اٹھائے پھر رہا ہوں وہ کم از کم آج کی تاریخ تک تو مصیبت نہیں بنی‘ آگے دیکھیں۔ ویسے بھی محبت اپنا اپنا تجربہ ہے‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے سوشل میڈیا کی حد تک تو یہ شعر ایسا ہے کہ سمجھیں الہامی ہے۔ میں ایک آدھ سال سوشل میڈیا کی محبت میں مبتلا رہا۔ فیس بک اور واٹس ایپ پر بڑا وقت صرف کیا‘ بلکہ صرف نہیں ضائع کیا۔ دیکھا کہ خبریں دراصل خبریں نہیں، خواہشیں ہیں۔ اطلاع دراصل اطلاع نہیں، افواہ ہے۔ تعریف دراصل تعریف نہیں، حق خدمت یا دوستی ہے۔ ا نکشاف دراصل انکشاف نہیں، کردار کشی ہے۔ ہر بات یا دس سے ضرب دی گئی ہے یا پندرہ پر تقسیم کر کے لکھی گئی ہے۔ پورے بارہ مصالحے کی چاٹ موجود ہے‘ جس میں ہر چیز ہے مگر نہ اعتبار ہے اور نہ ہی ا عتدال۔ حرف دراصل حرف نہیں تیر ہیں۔ لفظ بھی لفظ نہیں کارتوس ہیں۔ بس یوں سمجھیں ''باندر دے ہاتھ بندوق‘‘ ہے۔ سو اس مصیبت سے کنارا کر لیا۔ سو راوی چین اور سکھ لکھتا ہے۔
قریبی دوستوں کو پتا ہے کہ میں سوشل میڈیا سے عرصہ ہوا تائب ہو چکا ہوں۔ ٹی وی کبھی مہینوں بعد دیکھتا ہوں۔ ٹوئٹر وغیرہ کو زندگی میں ہاتھ نہیں لگایا۔ سو اپنے اور دوستوں کے بارے میں تمام تر طوفان بدتمیزی سے لاعلم رہتا ہوں‘ تاوقتیکہ کہ کوئی دوست ذکر نہ کر دے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے ایک دو ایسے دوست جو سوشل میڈیا پر بڑے متحرک رہتے ہیں دو دوستوں بارے کی جانے والی بکواس سے آگاہ کر رہے تھے۔ برادر بزرگ ہارون الرشید اور برادر خورد رؤف کلاسرا بارے۔ سچی بات ہے کہ ان سے سن کر بھی تفصیل نہ پوچھی۔ دوستوں بارے، خاص طور پر ان دوستوں بارے جنہیں آپ ایسے جانتے ہوں جیسے اپنے بارے، تو پھر ان سے متعلق منفی باتوں کی نہ تو تفصیل پوچھنے پر دل راضی ہوتا ہے اور نہ ہی کرید مناسب ہے۔ دوستوں بارے صرف حسنِ ظن رکھنا چاہئے اور اِدھر اُدھر کی با توں کے بجائے دل کی سننی چاہئے اور اپنے برسوں کے اس تجربے پر اعتبار کرنا چاہئے جو ان کے ساتھ رہ کر حاصل کیا گیا ہو۔
برادر بزرگ ہارون الرشید نہ سمجھ میں آنے والے دوست ہیں۔ بیک وقت زود رنج بھی اور ایسے وسیع القلب بھی کہ دوستوں کی تو کیا بات، دشمنوں سے بھی درگزر کرلیں۔ دوستوں کے دوست۔ اور دوست بھی کوئی ایسے ویسے؟ دوستوں کی خاطر دشمنیاں مول لے لیں۔ ان پر ہونے والے وار سینے پر جھیل لیں۔ ان کو دی جانے والی گالیاں اپنے کھاتے میں ڈال کر صبر کریں اور کبھی احسان جتانا تو ایک طرف، ذکر بھی نہ کریں۔ ٹی وی پروگرام نے باندھ کر رکھ دیا ہے وگرنہ ہر سال ملتان آتے، دو تین دن لاؤنج میں بیٹھ کر گزار دیتے۔ میری منجھلی بیٹی ہر بار اپنے بارے کچھ پوچھنے کا ارادہ کرتی مگر ان کی سنجیدگی سے گھبرا جاتی۔ میری اہلیہ ان کی پسند نا پسند بارے خواہ مخواہ پریشان رہتی۔ میں نے بارہا کہا کہ ہارون صاحب آدھا گلاس دودھ میں آدھا گلاس پانی ملا کر پینے کو بھی عیاشی بنا لیتے ہیں مگر اس مہمان نواز خاتون کو میری بات پر کبھی اعتبار نہ آیا۔ وہ دوستوں بارے میری بے تکلفی کے سبب میری ماننے کی بجائے اپنی چلاتی تھی۔ لہٰذا سو طرح کے اہتمام کرتی۔ اس کے جانے کے بعد اباجی مرحوم نے میرے گھر آنا کم کر دیا۔ انہیں میری سہولت بھی عزیز تھی اور مشکل کا اندازہ بھی تھا۔ ہارون صاحب نے تو آنا ہی چھوڑ دیا۔ کبھی سردیوں میں اسد یاد کرتا کہ ہارون صاحب نہیں آئے۔ اب وہ بھی اسلام آباد چلا گیا ہے۔
کیا دوست نواز دوست ہیں۔ جس کے ساتھ کھڑے ہو گئے کھڑے ہو گئے۔ تب تو بالکل کندھے سے کندھا ملا کر جب کسی دوست پر مشکل آن پڑی ہو۔ کس کس کا نام لوں؟ اٹھارہ سال تو صرف ''کپتان‘‘ کو اٹھانے، بنانے میں لگا دیئے۔ تب اس کی چومکھی لڑی جب لوگ ان کے اس تیقن کا مذاق اڑاتے تھے کہ کپتان وزیراعظم پاکستان بنے گا۔ آج کپتان وزیراعظم ہے۔ اس کی مردم ناشناسی کا گلہ اپنی جگہ۔ پارٹی کی تنظیم، ٹیم کا انتخاب، ٹکٹوں کی تقسیم اور ہٹ دھرمی پر تمام تر تنقید کے باوجود آج بھی دل کی گہرائی کے اندر اس کی محبت اور اس کی خوبیوں کا برملا اعتراف۔ بھلا کون دوست کر سکتا ہے؟
آج کل حال یہ ہے کہ جو شخص آپ کے سیاسی نظریات سے اختلاف رکھتا ہے یا آپ کے سیاسی مخالف کا کسی بات پر معترف ہے وہ ''لفافہ‘‘ لیتا ہے۔ اعتدال، قوتِ برداشت، تحمل، درگزر اور وسیع القلبی ویسے تو پورے معاشرے میں ہی ختم ہوتی جا رہی ہے مگر سیاست کا تو حال ہی نہ پوچھیں۔ کسی کو یہ حق ہی نہیں کہ وہ کوئی ایسی بات کر سکے یا لکھ سکے جو آپ کو پسند نہیں۔ آپ کے علم کے آگے (خواہ وہ لاعلمی اور گمراہی کا آخری درجہ ہی کیوں نہ ہو) کسی کی رائے، تجربے، تجزیئے یا علم کی کوئی اہمیت نہیں۔ اختلافِ رائے جیسی عمدہ چیز اپنے مقام سے نیچے گر گئی اور اس کی جگہ گالیوں نے لے لی۔ دشنام طرازی ایک نئے ہتھیار کی صورت ہمارے ہاتھ آ گئی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اپنے بارے تمام تر بکواس بازی پر سدا خاموش رہنے والے ہارون الرشید بھی اس معاملے میں اپنے ملال کا اظہار کرنے پر آ گئے ہیں۔ یہ نہ ان کا شیوہ تھا اور نہ مزاج۔ مگر بعض اوقات صبر آخری حد تک آن پہنچتا ہے۔ آخر کو تو ہم انسان ہی ہیں۔
میرے اور رؤف کلاسرا کے بیچ عجیب دوستی ہے۔ ہمارے نظریات میں کم از کم ایک سو اسی ڈگری کا فرق ہے۔ جیومیٹری کے حساب سے فرق اس سے زیادہ ہونا ممکن نہیں، لہٰذا مجبوری ہے۔ ہم کئی معاملات میں ایک دوسرے سے بحث بھی کرتے ہیں اور جھگڑتے بھی ہیں۔ لیکن کبھی دل میں یہ نہیں آیا کہ رؤف کلاسرا بے ایمانی کر رہا ہے، غلط بات پر اڑ رہا ہے یا کج بحثی کر رہا ہے۔ سوچنے والے اپنے ا پنے انداز میں سوچتے ہیں اور میرے مالک نے انسان کو تنوع میں بنایا ہے۔ رنگ، شکل، خیال اور سوچ اپنی اپنی۔ بعض اوقات رؤف اعتدال کی حد عبور کر جاتا ہے مگر یہ مسلسل اس لڑائی کا ردعمل ہے جو وہ میرے اور آپ کے مستقبل کی بہتری کے لیے لڑ رہا ہے۔ ایک پیہم جدوجہد اور بے نتیجہ لڑائی آپ کو ایک اتنہا پر لے جاتی ہے۔ میں یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ کبھی میں بھی ایسا ہی تھا اور مجھے اس پر کبھی بھی شرمندگی نہیں رہی۔ ظلم، زیادتی، ناانصافی، کرپشن، غلط بخشیوں اور عدل و انصاف کی طبقاتی فراہمی پر لڑنا باعث فخر ہے۔ جو بھی اس قافلے کا شریک ہے ہمارا مان ہے۔
جب کبھی کوئی دوست ہارون الرشید بارے کی گئی بکواس کی تفصیل بتانے لگے تو میں اسے روک دیتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے یہ انہیں نہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں ہارون الرشید کو ویسے ہی جانتا ہوں جیسے خود کو۔ یہی حال رؤف کلاسرا کا ہے۔ میں ان کے بارے مالی مفادات کا الزام لگانے پر یوں محسوس کرتا ہوں جیسے یہ الزام ان پر نہیں، مجھ پر لگایا جا رہا ہے۔ ملال اپنی جگہ مگر جس معاشرے میں تحمل، قوت برداشت، اعتدال، اختلاف رائے، درگزر اور مرضی کے خلاف بات سننے کی صلاحیت ختم ہو جائے وہاں یہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔
ہارون الرشید جیسے لکھنے والے غنیمت ہیں۔ اپنی سوچ اور خیال کے حساب سے بھی اور حرف و معانی کے اعتبار سے بھی۔ میں صبح ہارون الرشید کا کالم اس لیے ہرگز نہیں پڑھتا کہ وہ میرے دوست ہیں بلکہ اس لیے کہ خیال کی ندرت سے سوچ کے حسن سے لطف لے سکوں۔ اس لیے کہ موتیوں جیسی اردو سے دل شاد کر سکوں‘ اس گئے گزرے دور میں لکھے جانے والے سچ کا قاری کہلا سکوں۔ بسا اوقات ایسا کہ کالم کے مندرجات سے سو فیصد اختلاف لیکن سرشاری ایسی کہ کئی گھنٹے ہر مدھم شے بھی روشن محسوس ہوئی۔ یہ تب سے ہوا جب سے طبیعت میں اعتدال آیا۔ میرے آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ساری زندگی اعتدال کا روشن باب ہے۔ لیکن ہم وہ بدقسمت ہیں جو سیرت النبیؐ پڑھنے اور سمجھنے کے بجائے سوشل میڈیا پر وقت کا ضیاع کر رہے ہیں۔ اسے ہم نے علم کا شارٹ کٹ سمجھ لیا ہے حالانکہ یہ ''باندر دے ہتھ بندوق‘‘ والا معاملہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں