"KMK" (space) message & send to 7575

برادر بزرگ کی نواسیوں کے نام

برسوں گزرے ایک چھوٹی سی امریکی ریاست میں ایک دوست کے پاس جانا ہوا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ان کے بچوں کو دیکھ کردل صرف خوش نہیں‘ بلکہ بہت زیادہ خوش ہوا۔ ایسے شاندار بچے کہ حسرت ہوئی کہ ایسے بچے میرے ہوتے۔ پابند صوم و صلوٰۃ‘ باریش اور تمیز دار۔ صرف یہی نہیں کہ دینی حوالے سے بہترین ‘بلکہ دنیاوی معاملات کے حوالے سے بھی بہت ہی اچھے۔ تعلیمی میدان میں نہایت اعلیٰ نتائج کے حامل۔ عملی زندگی میں بھی بہت کامیاب۔ غرض کوئی پہلو ایسا نہ تھا‘ جس پر رشک نہ کیا جائے۔ میں نے بچوں کے والد صاحب سے بچوں کی تعریف کی۔ یہ تعریف دوستی کی مروت میں نہ تھی‘ بلکہ دل سے نکلی تھی۔ اگر ان بچوں کی تعریف نہ کی جاتی تو زیادتی ہوتی۔ ساتھ ہی دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ سب کو ایسی نیک اور قابل اولاد عطا کرے۔ میرے منہ سے بچوں کی تعریف سن کر والد صاحب کو ایسی ہی خوشی ہوئی جیسے ہر والد کو اپنے بچوں کی تعریف سن کر ہوتی ہے۔ مجھے کہنے لگے: دیکھیں خالد صاحب! یہ عالمِ کفر ہے۔یہاں بچوں کی تربیت نہایت مشکل کام ہے ‘لیکن اگر توجہ دی جائے اور محنت کی جائے توکچھ مشکل نہیں۔ اب مجھے دیکھیں میں نے اس ملک میں رہتے ہوئے جہاں ہر طرف آزاد خیالی‘ بلکہ عریانی اور فحاشی بکھری پڑی ہے‘ اپنے بچوں کی کیسی شاندار تربیت کی ہے؟ لوگ یہاں کے معاشرے کو‘ نظامِ تعلیم کو‘ طرزِ زندگی کو اور الیکٹرانک میڈیا وغیرہ کو بہت اثر پذیر عوامل سمجھتے ہیں‘ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ سب اپنی کمزوری کے لیے گھڑے ہوئے دلائل ہیں‘ اپنی نالائقی کا جواز ہیں اور اپنے فرض سے کوتاہی کی تاویلات ۔ اگر آپ تربیت میں کوتاہی نہ کریں اور اپنے فرض سے صرفِ نظر نہ کریں تو ممکن ہی نہیں کہ بچے بگڑ سکیں‘ گمراہ ہوں یا بے راہ روی کی طرف مائل ہو جائیں۔ یہ سب تربیت پر منحصر ہے۔ اور الحمد للہ میں نے اپنا یہ فرض پورا کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ تربیت کبھی ضائع نہیں جاتی۔
میں پچھلے چار پانچ منٹ سے ان کی باتیں سن رہاتھا۔ جب انہوںنے اپنی بات مکمل کی میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کا خیال ہے کہ تربیت ہی وہ واحد فیکٹر ہے جو ایسے اچھے بلکہ شاندار نتائج دیتی ہے؟ وہ صاحب کہنے لگے: یہ آپ کے سامنے ہے‘ آپ خود دیکھ لیں۔ میں نے اسی ملک میں جہاں لوگ اپنے بگڑے ہوئے بچوں کا رونا روتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں‘ اپنے بچوں کی کیسی تربیت کی ہے۔ میں نے کہا: اور وہ حضرت نوح علیہ السلام کی تربیت کیا کیا ہوا؟ بچوں نے اپنے پیغمبر باپ کی تربیت اور تعلیم کے باوجود ایمان لانا قبول نہ کیا۔ بیوی تک اس پیغام سے لاتعلق رہی جس سے دیگر لوگ متاثر ہوئے۔ اب بھلا اب بتائیں روئے ارض پر پیغمبر سے زیادہ کسی کی زبان میں تاثیر ہو سکتی ہے؟ پیغمبر سے زیادہ کسی کے پیغام میںاثر ہو سکتا ہے؟ اللہ کے مبعوث کردہ پیغام پر سے زیادہ بہتر تربیت کسی کی ہو سکتی ہے؟ اللہ کی وحی سے بہتر کوئی اورتعلیم ہو سکتی ہے؟ اگر نہیں‘ اور یقینا نہیں! تو پھر بیوی کیوں غرق ہو گئی۔ اولاد کیسے آنکھوں کے سامنے غرقاب ہوئی۔ تربیت میں کیا کمی تھی؟ تعلیم میں کیا کسر باقی رہ گئی تھی؟ بھلا پیغمبر کی صحبت سے بڑھ کر اور کیا صحبت ہو سکتی ہے اور پیغمبر کی تربیت سے بڑھ کر اور کیا تربیت ہو سکتی ہے؟ کیا تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی؟ یقینا ایسا نہیں۔ تو پھر تربیت کہاں گئی؟ میرے دوست کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ ایک دیندار آدمی تھا‘ میری باتوں سے باقاعدہ گھبرایا ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس کے منہ سے صرف ایک لفظ نکلا۔ تو پھر؟ میں نے کہا تربیت ضروری ہے اور اس کی اہمیت سے انکار تو کسی طور ممکن ہی نہیں مگر یہ تب تک نتائج نہیں دیتی جب تک تائیدالٰہی نہ ہو۔ جب تک حکمِ ربی نہ ہو اور جب تک میرے مالک کا کرم اور ہدایت نہ ہو۔
میرا وہ دوست کہنے لگا آپ درست کہہ رہے ہیں۔ میرا رب مجھے معاف کرے۔ میں ذاتی طور پر آپ والی بات پر سو فیصد ایمان رکھتا ہوں کہ تربیت کو اگر تائید الٰہی حاصل نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ بندہ کبھی کبھار خود ستائشی پر اتر آتا ہے اور اپنی کامیابیوں پر اپنی ذاتی محنت کی مہر لگانے لگ جاتا ہے۔ اللہ مجھے معاف کرے اور میری باتوں کو میرا بڑا بول نہ جانے۔ میری تربیت اپنی جگہ لیکن اصل بات میرے مالک کی رحمت اور میری محنت کی قبولیت ہے وگرنہ سب بیکار ہے۔میرے مالک کی رحمت اور قبولیت کا درجہ یقینا افضل ہے لیکن بغیر محنت کے یہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ نیت‘ عمل اور خلوص وہ پہلا قدم ہے جس پر میرا مالک اپنی رحمت اور قبولیت کے دروازے کھولتا ہے۔ اٹلاٹنا کے نواحی قصبے کارلٹن میں رہنے والے برادرِ بزرگ کے گھر پر بھی میرے مالک نے یہی کرم اور فضل کر رکھا ہے۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں اور دس عدد پوتے پوتیاں اور نواسیاں۔ امریکہ میں بھی پردے کا اہتمام اور شعائر اسلام کی پابندی۔ دفتر کے ساتھ ایک ڈیرہ ہے جس میں شاید میں واحد مہمان ہوں جو سال کے سال ٹھہرنے آتا ہے۔ اس ڈیرے میں ایک وسیع لاؤنج ہے جس میں جمعہ کی نماز کا اہتمام ہوتا ہے۔ کارلٹن کے چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے آٹھ دس مسلمان جن میں دو امریکی افریقن بھی شامل ہیں ہر جمعے یہاں آتے ہیں اور باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا یہ عمل اگلی نسل تک جاری ہے۔ اس بار میں کارلٹن گیا تو ان کی فلوریڈا اور کراچی والی دونوں بیٹیاں والد کے پاس آئی ہوئی تھیں۔ گھر میں خوب رونق لگی ہوئی تھی۔ دونوں بیٹیوں کی آٹھ بیٹیاں ہیں ان میں سے دو تو بہت چھوٹی ہیں باقی والی چھ عدد اپنے والدین کی اس تربیت کا مظاہرہ کر رہی تھیں ‘جسے میرے مالک کی رحمت اور تائید حاصل تھی۔
میں صبح کا ناشتہ ڈیرے سے برادرِ بزرگ اعجاز احمد کے گھر آ کرکرتا ہوں۔ برادرِ بزرگ بہت اصرار کرتے ہیں کہ میں ڈیرے کے بجائے گھر میں قیام کروں‘ مگر میرے گھر میں قیام سے پردہ دار خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت میں تھوڑی دقت پیدا ہو جاتی ہے سو میں خود بھی ڈیرے میں قیام سے آسانی محسوس کرتا ہوں۔ صبح ناشتے پر ان کی چھوٹی نواسی عنایا آئی اور کہنے لگی: انکل آج شام کو ہمارا پروگرام ہے آپ نے ضرور آنا ہے۔ میں نے پوچھا کیسا پروگرام؟ عنایا کہنے لگی: مجھے اس پروگرام کا نام نہیں آتا۔ بس پروگرام ہے اور آپ نے آنا ہے۔ میں نے حامی بھر لی۔ شام کوگھر آیا تو عنایا مجھے لے کر لاؤنج میں آ گئی وہاں ساری کزنز نے باقاعدہ پروگرام کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میز‘ کرسیاں‘ مائیک اور سپیکر۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض کراچی سے آئی ہوئی ان کی نواسی نصیبہ یوسف‘ جس کی عمر بارہ سال کے لگ بھگ ہے‘ سرانجام دے رہی تھی۔ تلاوتِ کلام پاک میمونہ ادریس نے کی۔ اس کے بعد پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ زینب ادریس‘ عنایا یوسف اور ہادیہ ادریس اس پروگرام کی مقررین تھیں‘ لیکن نصیبہ اور میمونہ نے بعد میں تقاریر بھی کیں۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوٹی چھوٹی تقاریر‘ قرآن و حدیث کے حوالے سے فکر انگیز گفتگو اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے حوالے سے ایسی باتیں کہ مجھے ان بچیوں کی دین فہمی اور معاملات زندگی کے حوالے سے معلومات پر حیرت بھی ہوئی اور رشک بھی آیا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ ساری باتیں انہوں نے از خود محنت کر کے انٹرنیٹ سے معلوم کی ہیں۔ انہوں نے یہ سب کچھ ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد پرنٹ کیا اور وہاں سے یاد کیا۔ آخر میں اسلامی کوئیز تھا جس میں سب بچیوں نے حصہ لیا اور بڑے بڑے مشکل سوالات کے جواب دیے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ان میں سے کئی سوالات تو ایسے تھے کہ ان کا جواب مجھے بھی نہیں آتا تھا۔
یہ وہ تربیت تھی‘ جسے تائید ِ ربی اور رحمت الٰہی حاصل تھی۔ برادرِ بزرگ خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے انہیں نیک اولاد عطا کی ہے اور اپنا کرم شامل حال رکھا ہے۔ کام کا اختتام اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ہمیں اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس توفیق میں اپنا کرم اور تائید شامل کرے۔یہ کالم عنایا کے نام کیا جا سکتا تھا‘مگر اس سے باقی بچوں کے دل ٹوٹ جاتے۔ سو ‘یہ کالم کارلٹن میں اکٹھی ہونے والی برادرِ بزرگ کی تمام نواسیوں کے نام۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں