"KMK" (space) message & send to 7575

ایک نامکمل کالم

گزشتہ کالم کے ساتھ بھی وہی ہوا‘ جو اکثر ہوتا ہے۔ شروع کسی اور حساب سے ہوا اور چلا کہیں اور گیا۔ شروع ہوا تھا لاہور اور گوجرانوالہ کے کھانوں کے حوالے سے اور چلا کہیں اور گیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ نہ میں بسیارخور ہوں اور نہ ہی پیٹو۔ ہاں‘ البتہ کھانوں کا شوقین ضرور ہوں اور اس کی وجہ بڑی قدرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زبان اور یہ جو Taste Buds دئیے ہیں تو اس کی منشا ء یہی تھی کہ انسان ذائقے سے روشناس ہو۔ میرے مالک نے انسان کو جنت کے حصول کی خواہش کو بڑھاوا دینے کے لیے مزیدار پھلوں اور دودھ و شہد کی نہروں کا ذکر کیا ہے تو اس سے یہ بات مقصود الٰہی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ نے بندے کو جن بے شمار کھانے کی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے‘ اس سے لطف اندوز ہونا اور ان نعمتوں کے خالق کا شکر ادا کرنا بھی مشیت کا حصہ ہے۔
گوجرانوالہ میں غنی کے پائے‘ اللہ رکھے کے تکے اور چڑے‘ لیکن لاہور کی کیا بات ہے؟ بچپن سے لاہور اور لذیذ کھانے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ شادباغ میں تایا نواز مرحوم کے گھر اتوار کو اہتمام کے ساتھ صادق کے ہاں سے حلوہ پوڑی تو خیر آتی ہی تھی‘ ابا جی کے ساتھ لوہاری دروازے کے باہر ہوٹل نعمت کدہ میں کھانا۔ چوبرجی کے پاس خان بابا ہوٹل کا قورمہ اور نیلے گنبد میں غلام رسول کے چنے‘ پھر ذرا خود ہوش سنبھالی تو کھانوں کی دریافت کا سلسلہ ذاتی طور پر شروع کیا۔ بیڈن روڈ پر کیفے کیری ہوم کی ماش کی دال دریافت کی۔ اس ذائقے والی دال کہیں اور نصیب نہ ہوئی۔ آخری بار دو عشرے پہلے ملک افتخار محمود صاحب نے رنگ محل میں عینک محل کے اندر ملک ستار مرحوم کے دفتر میں کھلائی تھی۔ ایک عرصہ ہوا اس دال کی طلب دل میں لیے بیٹھا ہوں۔ ایک بار کیفے کیری ہوم گیا تو اس روز یہ دال ان کے مینو میں نہیں تھی۔ بعد میں کیفے کیری ہوم کے مالکان میں سے ایک منیب صاحب کا فون آیا اور وہ کہنے لگے کہ آپ آنے سے ایک دو دن قبل بتا دیں تو آپ کو وہی دال پیش کی جا سکتی ہے‘ لیکن یہ ایک دو دن پہلے بتانے والی شرط ایسی ہے کہ پوری نہیں ہو پاتی۔
چار دن ہوئے کئی ماہ بعد ایک دن کے لیے لاہور جانا ہوا۔ آغا نثار کو فون کیا کہ آؤ چلو غلام رسول کے پاس چلتے ہیں اور چنے کھاتے ہیں۔ آج ہفتہ ہے اور مٹن ہوگا۔ آغا بھی بلا کا چٹورا ہے۔ فوراً تیار ہو کر آ گیا۔ حاجی صاحب نے دور سے دیکھا اور حسب ِمعمول تپاک سے اٹھ کر حال چال پوچھا۔ باقی کچھ بتانے کی ضرورت نہیں تھی۔ حاجی صاحب کو یاد ہے کہ چنوں میں کیسی بوٹی ڈالنی ہے اور گھی کتنا ڈالنا ہے۔ شکر ہے‘ اس بار وہ خود اٹھ کر کھانے کے کمرے میں نہیں آئے‘ جووہ محبت میں اکثر کرتے ہیں۔ اس دکان پر آنا بھی عشروں سے چل رہا ہے‘ جب حاجی صاحب یہاں نہیں‘ نیلے گنبد کے عین سامنے فٹ پاتھ پر ہوتے تھے۔ کبھی ابا جی کے ساتھ چنے کھانے آتا تھا۔ اب بیٹے کے ساتھ جاتا ہوں۔ یہاں سے فارغ ہو کر ''دنیا ‘‘کے دفتر آیا اور ندیم نثار کے دفتر میں لاہوری کھانوں پر گفتگو شروع ہو گئی۔ وقار الدین بھی وہیں آ گئے۔ طے پایا کہ اگلی بار لاہور آیا تو غلام رسول کے چنے کھائے جائیں گے۔ ادائیگی کے بارے میں مَیں نے کہا کہ حاجی صاحب ‘جس سے پیسے لے لیں وہی دے گا۔ وقار الدین نے انکار کر دیا کہ یہ شرط میچ فکسنگ کے مترادف ہے‘ ہمیں پتا ہے حاجی صاحب کس سے پیسے لیں گے‘ لہٰذا طے پایا کہ چنے دفتر منگوائے جائیں گے۔
حاجی سراجدین کا امرتسری ہریسہ۔ برسوں پہلے ا یک روز میں بچوں کے ہمراہ گوالمنڈی گیا۔ بچوں سے پوچھا: کیا کھانا ہے؟ جواب ملا: برگر۔ بڑا دکھ ہوا۔ میں اور میری اہلیہ امرتسری ہریسے کے لیے دکان کے اندر چلے گئے۔ تب وہاں فیملیز کے بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا۔ اندر ایک طرف دیگچیاں‘ دیگچے اور برتنوں کا ڈھیر تھا۔ اس کے پاس بٹھایا گیا۔ میں نے اور میری بیگم نے ہریسہ کھاتے ہوئے تینوں بیٹیوں سے کہا کہ وہ اسے چکھ لیں‘ مزا آئے تو ٹھیک‘ ورنہ انہیں یہاں سے جا کر کہیں برگر کھلا دیں گے۔ تینوں نے ڈرتے ڈرتے نان کے ساتھ رتی برابر ہریسہ لگایا اور پیشگی منہ بناتے ہوئے نوالا منہ میں ڈالا۔ ایک نوالے نے کرشمہ دکھایا۔ اب یہ عالم ہے کہ میں امریکہ اور آسٹریلیا جاتے ہوئے نسبت روڈ سے ہریسہ لیتا ہوں۔ شاہ جمال میں الفیصل والوں سے اسے ٹن کے ڈبوں میں پیک کرواتا ہوں اور امریکہ یا آسٹریلیا لے جاتا ہوں۔ یہ پیکنگ ایک سال تک اسے محفوظ رکھتی ہے۔
ایک زمانہ تھا ‘جب میں نیشنل ہوٹل ایبٹ روڈ میں ٹھہرا کرتا تھا۔ ہوٹل کے مالک سخاوت سے ذاتی دوستی سی ہو گئی تھی۔ تب رات کو بچوں سمیت لکشمی کے دال چاول کھانا لاہور آمد کا لازمی حصہ ہوتا تھا۔ طباق کا سٹیم روسٹ آج بھی ذائقے میں سب سے جدا ہے۔ ہال روڈ اور مال روڈ کے درمیان ایک بغلی گلی میں چنے‘ مسجد شہداء کے دروازے کے سامنے ریڑھی والے چکڑ چھولے‘ خان بابا کا قورمہ اور قیمے والے نان۔ مال روڈ اور میکلوڈ روڈ کے مقام اتصال پر بڑی سی پرانی بلڈنگ کے اندر واقع پیراڈائز ریسٹورنٹ کا مرغ مسلم‘ مٹن جوائنٹس اور قیمہ مٹر۔ ایبٹ روڈ کے شاہی مرغ چنے‘ رائل پارک کی حلیم‘ گمٹی بازار والے جاوید کی لسی اور پھجے کے پائے۔ پھجے کے پائے سے مراد اصلی والا پھجا ہے‘ نہ کہ فلاں عرف پھجا یا فلاں عرف پھجا۔ شنید ہے کہ تھانہ ٹبی والے جب بھی کسی تماش بین کو پکڑتے ا ور وہاں اس کی موجودگی کے بارے میں دریافت کرتے تھے تو جواب ملتا تھاکہ وہ یہاں پھجے کے پائے کھانے آیا تھا۔
امریکہ یا آسٹریلیا جاتے ہوئے میرے بیگز صرف اور صرف کھانے کی چیزوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہریسے کے ٹن‘ خلیفہ کی ختائیاں‘ امرتسری کا پتیسہ‘ نعمت خانے کا مختلف قسم کا پتیسہ اور منور کا ملتانی سوہن حلوہ۔ مخدوم عالی کے پاس سوہن حلوے کی اس دکان سے اب بھی بہت عمدہ سوہن حلوہ ملتا ہے۔ اول الذکر تینوں چیزیں ‘یعنی خلیفہ کی ختائیاں موچی دروازے کے اندر چوہٹہ مفتی باقر نزد نثار حویلی سے منگوائی جاتی ہیں۔ یہ مشکل کام یا میاں ایاز کے سپرد ہوتاہے یا آغاز نثار کے۔ مغل پورہ کے نعمت خانے کا پتیسہ میاں ایاز ملتان بھجواتا ہے۔ امرتسری کا پتیسہ بیڈن روڈ سے آتا ہے۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کمرشل ہو کر اپنا ذائقہ کھو چکی ہیں‘ مثلاً: لالہ موسیٰ والی میاں جی کی دال۔ پرانے ہوٹل میں مکھیوں بھرے ماحول میں جو دال کھاتے تھے‘ وہ اب ان کے ایئرکنڈیشنڈ ریسٹورنٹ میں نہیں ملتی۔
سردیوں میں تیسری چوتھی اتوار کی صبح میں‘ اسد اور شاہ جی حرم گیٹ کے اندر صابن والی گلی میں جاتے ہیں اور مغز اور پائے کھاتے ہیں۔ تلاشِ بسیار کے بعد یہاں زاہد نان شاپ پر پائے تلاش کیے ہیں‘ جو قدرے بہتر ہیں۔ پھجے والی بات تو دور رہی‘ لاہور میں درجنوں دکانوں پر اس سے بہتر پائے ملتے ہیں ‘لیکن وہ فارسی کہاوت ہے کہ ''گندم نہ گر بہم رسد‘ بھوسہ غنیمت است‘‘ ۔سو ‘ملتان میں اسی گزارہ چلاتے ہیں۔ یہ غالباً ملتان والوں کی ڈش ہی نہیں۔ ملتان میں سوتری وٹ والے چنے بھی عجب چیز ہیں۔ موٹے چنے بغیر گھی کے بنتے ہیں۔ سوتری وٹ کے علاقے سے صبح سویرے بلامبالغہ ایک سو سے زائد رہڑی والے نکلتے ہیں اور پورے ملتان میں پھیل جاتے ہیں۔ لکڑی کے پہیوں والی رہڑھیاں سوتری وٹ والوں کی خاص نشانی ہے‘ لیکن پورے ملتان میں شاید ایک جگہ پر بھی لاہوری چھوٹے دیسی چنے نہیں ملتے۔
سردیاں زیادہ دور نہیں۔ دو اڑھائی ماہ بعد آغا نثار ہر پندرہ روز بعد ایک درجن باقر خانیاں بھجوانا شروع کر دے گا‘ جو میں صبح کشمیری چائے میں ڈال کر اپنا ناشتہ بناؤں گا۔ یہ ناشتہ پوری سردیاں بلاناغہ چلے گا۔ مجھے دراصل یہی ناشتہ بنانا آتا ہے۔ گوالمنڈی اور ریلوے روڈ کے درمیان الٹے ہاتھ پر ایک گلی ہے‘ جس میں باقر خانیوں کے دو تنور ہیں۔ ان میں سے ایک تنور سے یہ باقر خانیاں آتی ہیں۔ آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں‘ لیکن میرا گمان ہے کہ یہ دنیا کی بہترین باقر خانیوں میں سے ایک ہیں۔ 
قارئین! ایک کالم میں لاہور کے کھانوں کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن سے بھی آگے کی چیز ہے۔ فی الحال اسی ایک نامکمل کالم پر اکتفا کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں