"KMK" (space) message & send to 7575

ٹھاہسوں نہ ٹھاہسوں‘ بھین بھراتاں راہسوں

عثمان بزدار بظاہر اپنی جگہ پر پکے کھڑے ہیں۔ بظاہر اس لیے کہا ہے کہ فی الحال ان کی تمام تر بری انتظامی صلاحیتوں‘ جسے انگریزی میں Governance Bad کہتے ہیں‘ کے باوجود حالات ان کے حق میں ہیں۔ حالات میں سب سے بڑھ کر تو عمران خان بذات خود ان کے حق میں ہیں اور یوں سمجھیں کہ حالات کا اسی فیصد تو صرف یہی ایک حمایت بن جاتی ہے۔ باقی بیس فیصد وہ حالات ہیں جو عثمان بزدار کے لیے ناگزیر نظر آتے ہیں۔ ناگزیر اس طرح کہ بقول شاہ جی‘ اگر عثمان بزدار کی جگہ کسی اور کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیا گیا تو اسے اعتماد کا ووٹ لینے میں از حد مشکل پیش آئے گی۔ یہ ''از حد مشکل‘‘ والا لفظ بھی صرف اس لیے استعمال کیا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہے اور پاکستانی سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے وگرنہ یہ کام صرف مشکل نہیں بلکہ قریب قریب ناممکن نظر آتا ہے کہ عثمان بزدار کو رخصت کر کے کوئی اور وزیراعلیٰ نامزد کیا جائے اور اسے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ مل سکے۔
میں نے کہا :شاہ جی! حالات تو وہی ہیں۔ کوئی پی ٹی آئی کا رکنِ اسمبلی فی الحال کہیں نہیں کھسکا اور سب کے سب ارکانِ اسمبلی اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ حکومت کو تین سو اکہتر ارکان پر مشتمل موجودہ اسمبلی میں ایک سو اکانوے ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اس میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد ایک سو اکیاسی اور دس مسلم لیگ ق کے ارکان شامل ہیں اور اپوزیشن کو ایک سو چوہتر ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح حکومتی بنچوں کو سترہ ارکان کی سبقت حاصل ہے۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کو اپنے کسی بھی نئے نامزد کردہ وزیراعلیٰ کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا کس طرح مشکل ہے؟ شاہ جی ہنسنے لگ گئے۔ جب یہ شاہ جی ہنستے ہیں تو ان کی ہنسی میں باقاعدہ تاؤ دلانے والا اور تمسخر اڑانے والا تاثر واضح ہوتا ہے۔ اچھے بھلے ٹھنڈے ٹھار بندے کو تاؤ دلانا شاہ جی کا خاص وصف ہے۔ تاہم میں نے گرمی کھانے کے بجائے الٹا شاہ جی کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور کہا: شاہ جی! آپ یہ کھچروں والی ہنسی تب ہنستے ہیں جب آپ کے پاس کوئی کام کی دلیل یا ثبوت نہیں ہوتا۔ آپ کچی بات کرتے ہیں اور جب آگے سے بات نہیں بنتی آپ تمسخرانہ ہنسی ہنسنے لگ جاتے ہیں۔ شاہ جی کی ہنسی کو بریک لگ گئی اور وہ تاؤ دلانے کے بجائے تاؤ کھا گئے۔ جب شاہ جی تاؤ کھا جائیں تو پھر وہ باقاعدہ جلالی سید بن جاتے ہیں‘ سو شاہ جی یکدم سیریس ہو گئے اور کہنے لگے: تمہیں سیاست کا کیا پتا ہے؟ تم اس خطے کی سیاسی حرکیات کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تمہیں پاکستانی سیاست میں مخلوط حکومت میں شامل تانگہ پارٹیوں کی حرکات کا کیا علم ہے؟ تم ان چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کی چھوٹی چھوٹی حرکتوں سے کتنی واقفیت رکھتے ہو؟ باقی چھوڑو! تم گجرات والے چودھریوں کی سیاست کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تمہیں ان کی اقتدار کے لیے دلی بے تابی اور اس کے لیے لڑائے جانے والے داؤ پیچ کا اندازہ ہے؟ ظاہر ہے تمہیں ان میں سے کسی چیز کا بھی اندازہ نہیں۔ یہ کہہ کر شاہ جی مسکرائے اور کہنے لگے: سمجھ آئی!
میں نے کہا: شاہ جی آپ کی باتیں بے شک سو فیصد ٹھیک ہیں‘ لیکن چودھری مزے میں ہیں۔ مرکز میں ان کے پاس صرف پانچ نشستیں ہیں اور پنجاب میں دس سیٹیں ہیں۔ مرکز میں ایک وزارت اورصوبے میں سپیکر چودھری پرویز الٰہی ہیں اور وہاں بھی ان کے پاس اب ایک وزارت ہے۔ پہلے دو تھیں پھر ایک وزیر کی چھٹی ہو گئی۔ گجرات میں ان کی حکمرانی ہے۔ اسی ماہ ستمبر کی سترہ تاریخ کو ان کے گجرات سے ایم پی اے کے بھائی نے‘ جو چودھری شجاعت حسین کا دست ِراست بھی ہے‘ گجرات کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر خرم شہزاد کو باقاعدہ زدو کوب کیا۔ اس کے ہمراہ آئے ہوئے غنڈوں نے بھی مار پیٹ کی۔ اس سلسلے میں ایک شخص ‘جو چودھری پرویز الٰہی کا کزن اور گجرات سے منتخب ایم این اے کا سیکرٹری تھا‘ گرفتار ہوا اور شام کو رہا ہو گیا۔ ایک زمانہ تھا کہ حاضر ڈیوٹی گورنمنٹ ملازم کو ہاتھ لگانے والے کسی شخص کی ضمانت نہیں ہوتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ ضلع کے منتظم اعلیٰ کو مارنے والے رات حوالات میں گزارنے سے پہلے باعزت رہا ہو کر گھر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ چودھریوں کی زور آوری اور طاقت کا کمال تھا۔ اب بھلا اس سے بڑھ کر اور کیا مل سکتا ہے؟
ویسے بھی چودھری پرویز الٰہی بذاتِ خود عثمان بزدار کے حامی ہیں اور اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے ابھی چند روز قبل ہی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ عثمان بزدار کے ساتھ ہیں۔ شاہ جی پھر مسکرائے اور کہنے لگے: آپ چودھریوں کی سیاست سے مکمل واقف نہیں ہیں۔ چودھری صاحبان اپنی مروت اور تعلقات کو نبھانے کے حوالے سے بڑے مشہور ہیں اور ایمانداری کی بات ہے یہ سچ بھی ہے کہ چودھری صاحبان کے پاس چلے جائیںتو وہ اپنی ذاتی مخالفت کوبھی بعض اوقات پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور گھر چل کر آئے ہوئے کو عموماً انکار نہیںکرتے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے: تم نے مجھے ایک واقعہ خود سنایا تھا کہ کس طرح ایک کالم نویس چودھری پرویزالٰہی کے پاس آیا۔ تب چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ اس کالم نگار نے چودھری پرویز الٰہی سے اپنے بیٹے کے لئے کسی نہایت ہی عمدہ محکمے میں ایک گریڈ اُوپر کی نوکری کے لئے ڈیپوٹیشن کی درخواست کی۔ چودھری پرویز الٰہی مسکرائے اور اس کالم نویس کو مخاطب کر کے کہنے لگے: بھائی جی! آپ نے کل بھی میرے خلاف کالم لکھا تھا اور امید ہے آنے والے کل کو بھی آپ میرے خلاف لکھیں گے۔ آپ میاں نواز شریف کے سپاہی ہیں اور ان کی مدح میں لکھتے رہیں گے ‘لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی دوست چودھریوں کے گھر آئے اور ہم اس کا کام کر سکتے ہوں اور نہ کریں۔ آپ کا بیٹا ہمارا بھتیجا ہے۔ اس کا کام ہو جائے گا۔ اور وہ کام ہو بھی گیا۔ لیکن عثمان بزدار کی حمایت کا اعلان دراصل ایک مکمل سیاسی چال ہے۔
دراصل چودھریوں کی دلی خواہش ہے کہ موجودہ پنجاب حکومت جس حد تک خوار اور خراب ہو سکتی ہے ہو جائے۔ ایک بات تو طے ہے کہ عثمان بزدار صاحب سے اتنا بڑا صوبہ کسی صورت کنٹرول نہیں ہو سکتا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اتنا بڑا صوبہ اب انتظامی طور پر کسی مائی کے لال سے بھی بہ طریقِ احسن کنٹرول نہیں ہو سکتا اور عثمان بزدار سے تو کسی طور بھی نہیں۔ ایک سال میں کل عالم ان کی انتظامی صلاحیتیںدیکھ چکا ہے اور ان کی کارکردگی کا پول سب پر کھل چکا ہے۔ عمران خان صرف اور صرف اپنی ضد نبھا رہے ہیں۔ تم ایک شعر سناتے ہو‘ وہ کیا ہے جس میں ضد نبھانے کا ذکر ہے۔ میں نے کہا وہ فیصل آباد کے نوجوان شاعر عماد اظہر کا شعر ہے ؎
جو تو یہاں ہے تو پھر یہ جہاں مناسب ہے
زمین ٹھیک ہے اور آسماں مناسب ہے
بس ایک ضد کو نبھانا ہے عمر بھر میں نے
وگرنہ تم سے محبت کہاں مناسب ہے
شاہ جی نے واہ واہ کر کے داد دی پھر کہنے لگے: بالکل اسی شعر والا معاملہ ہے۔ لیکن بات ہو رہی تھی چودھری پرویزالٰہی کی‘ وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت پوری طرح خوار ہو جائے اور تبدیلی کی صورت میں ان کے دس ووٹوں کے بغیر نئے وزیراعلیٰ کو کسی صورت اعتماد کا ووٹ نہیں مل سکتا۔ تب وہ اپنی بارگیننگ پاور کا استعمال کریں گے اوراپنا'' لچ تل لیں‘‘ گے۔ تاہم وہ فی الحال بھی مزے میں ہیں۔ سپیکر ہیں اور بیورو کریسی کی ٹرانسفر پوسٹنگ میں دھڑلے سے اپنا سابقہ تجربہ استعمال کر رہے ہیں۔ وزارتِ اعلیٰ مل گئی تو ٹھیک ورنہ سپیکری تو چل رہی ہے۔ عبدالمالک شاکر مرحوم نے ایک واقعہ سنایا کہ رحیم یار خان کا ایک نوجوان اپنی کزن پر فدا تھا اور شادی کرنا چاہتا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ اگر شادی نہ ہوئی تو؟ وہ نوجوان مسکرایا اور سرائیکی میں کہنے لگا: بھائی صیب! ٹھاہسوں نہ ٹھاہسوں‘بھین بھرا تاں راہسوں (بھائی صاحب! ہو گیا تو ہو گیا‘ ورنہ ہم بہن بھائی تو بہرحال رہیں گے ہی) یہی صورتحال چودھری صاحب کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں