"KMK" (space) message & send to 7575

اس بار ضمیر کا ریٹ کیا تھا؟

میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ شاہ جی! یہ ضمیر کیا چیز ہے؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: یہ موم کی ناک ہے جیسے چاہو گھما لو اور جیسے چاہے بنا لو‘ لیکن تمہیں اچانک اس بات کا خیال کیسے آیا ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی! دراصل مجھے ملکی سیاست میں ضمیر کی حرکتوں نے تنگ و پریشان کر رکھا ہے۔ شاہ جی ایکدم سے پریشان ہو کر کہنے لگے خیر تو ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی! میری تو خیر ہے مجھے تو پریشانی اس بات کی ہے کہ حقیقت میں ضمیر ہے کیا چیز؟ خصوصاً ہماری سیاست میں ضمیر نے یہ کیا گھڑمس مچا رکھا ہے؟ ضمیر اور بریف کیس میں کیا فرق ہے اور ان کے درمیان حد فاضل کہاں قائم ہوتی ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: تمہارا سوال غیر واضح ہے براہ کرم پہلے اپنے سوال کی کھل کر وضاحت کرو۔
میں نے کہا: شاہ جی! دور کیوں جائیں؟ صرف سینیٹ الیکشن کو دیکھ لیں۔ حکومت کو سادہ عددی اکثریت کے باوجود قومی اسمبلی سے اپنے امیدوار ے لیے سولہ ووٹ کم ملے ہیں اور وہ ہار گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں حکومت کے مقابلے میں کم ارکان کی حامل پی ڈی ایم کی پارٹیوں کو ان کی گنتی سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور ان کا امیدوار جیت گیا ہے۔ شاہ جی نے قطع کلامی کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ ممکن ہے پی ڈی ایم کا امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار سے بہتر ہو؟ یقین کریں شاہ جی کی اس بات پر میری تو ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے کہا: شاہ جی! قبلہ نہ تو آپ اتنے بھولے اور لاعلم ہیں کہ دونوں امیدواروں کے بارے میں نہ جانتے ہوں اور نہ ہی ان امیدواروں کے درمیان کوئی میرٹ کا مسئلہ درپیش تھا۔ دونوں کی خوبیاں سب پر عیاں تھیں۔ سید یوسف رضا گیلانی کے اوپر ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران کرپشن کی کہانیاں زبان زدعام تھیں۔ لوگ ان کو ایم بی بی ایس کے نام سے یاد کرتے تھے۔ شاہ جی نے حیران ہو کر پوچھا: واقعی؟ میں نے سنی ان سنی کر دی۔ مجھے علم تھا کہ شاہ جی حسب معمول کھچرے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: ان کے ایک بیٹے پر ایفیڈرین کا کوٹہ جاری کروانے اور اس میں مال پانی کمانے کا الزام ہے‘ دوسرے بیٹے کا نام حج سیکنڈل میں تھا۔ ان کے باقی معاملات پر چار حرف بھیجیں‘ لیکن ترک خاتون اول کا ہار تو بصد مشکل ان سے برآمد کروایا گیا‘ اب بھلا مال مسروقہ کی ان کے گھر سے برآمدگی کے بعد جرم میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے‘ لیکن خود اعتمادی کی حد دیکھیں کہ وہ ارکان اسمبلی سے میرٹ، کارکردگی اور ایمان داری کی بنیاد پر ووٹ مانگ رہے تھے۔ دوسری طرف ہر بار آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر عالمی استعمار کے تحصیل دار کے طور پر پاکستانی سیاست میں پیرا شوٹ کے ذریعے اترنے والے ڈاکٹر حفیظ شیخ تھے‘ یعنی نتھو سنگھ اینڈ پریم سنگھ، ون اینڈ دی سیم تھنگ والی بات تھی؛ تاہم دونوں فریقوں کا ضمیر کے بارے میں موقف بڑا مزیدار ہے۔
پی ڈی ایم کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ حکومتی ارکان نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہمارے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دینے سے منحرف ان سولہ ارکان نے ضمیر کی کس آواز پر سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیئے یا ان کے برخوردار کی ہدایات کی روشنی میں اپنے ووٹ ضائع کیے‘ اور کون سے ضمیر کی آواز پر چار دن بعد انہی سولہ ارکان نے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دے دیا؟ خوردبین سے جائزہ لینے کے باوجود مجھے ایسی کوئی ایک بھی معقول وجہ نظر نہیں آئی جو ان سولہ اراکین قومی اسمبلی کے ضمیر کو جگا کر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے پر مائل کر سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ضمیر کو مدِ نظر رکھ کر ووٹ ڈالے جاتے تو گیلانی صاحب کی تو ضمانت ضبط ہو جاتی، اس لئے مجھے ذاتی طور پر ان سولہ ووٹوں کے ضمیر کے بارے میں یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ یہ قابل خرید قسم کا ضمیر تھا جو خفیہ ووٹنگ میں جاگ پڑا اور حکومت کے مخالف امیدوار کو پڑ گیا اور محض تین دن بعد ہی ان کے ضمیر کی ایک بار پھر آنکھ کھل گئی اور وہ قومی اسمبلی میں جا کر عمران خان کے حق میں اپنا ووٹ ڈال آئے۔
اس خفیہ ووٹنگ کے حق میں بھی بہت سے دلائل دیئے جا سکتے ہیں اور مخالفت میں بھی۔ ہر دو طریقہ ہائے کار میں اچھی اور خراب روایات بھی موجود ہیں اور امکانات بھی؛ تاہم میرے خیال میں اس آمریت بھرے جمہوری نظام میں جہاں کوئی بندہ اپنی مرضی سے بات کر کے ذلیل و خوار ہو جائے اور جہاں جمہوریت کے نام لیوا پارٹی لیڈرز اپنے ارکان اسمبلی کو زر خرید نوکروں اور مزارعوں سے زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں‘ اوپر سے میاں نواز شریف کے دور کی فلور کراسنگ والی آئینی ترمیم ان کو اپنی مرضی استعمال کرنے سے روک دے وہاں ارکان اسمبلی کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا کہ وہ خفیہ ووٹ میں اپنے پارٹی لیڈرز کو اپنے عدم اطمینان کا پیغام دے سکیں۔
جس ملک کی جمہوری سیاست میں بڑے نام والا تجربہ کار، پرانا اور نمایاں لیڈر اپنی گود میں کھلائے ہوئے پارٹی لیڈر کے سامنے تابعداری کا مظاہرہ کرنے پر مجبور نظر آئے‘ جہاں ایک نیک نام، معقول اور سینئر رہنما زندگی میں پہلی بار عوامی جلسے کے ذریعے سیاست میں اپنی انٹری ڈالنے والی نوعمر سے سیاست سیکھنے کی خواہش کا اظہار کرے‘ جہاں تیسرے بڑے آئینی عہدے پر فائز رہنے والا سینئر سیاستدان اپنے سے دسواں حصہ سیاسی زندگی والے رہنماؤں کے لئے دروازہ کھول کر مؤدب کھڑا ہو اور اخبار نویسوں کو اپنے نام کے ساتھ ''سردار‘‘ کا لقب نہ پکارنے پر گرم ہو جانے والا سینئر سیاستدان اپنے بیٹوں کے ہم عمر کے سامنے ہاتھ باندھ کر مؤدب کھڑا ہو بھلا وہاں کس کی جرأت ہے کہ وہ اپنے پارٹی لیڈر کی پالیسیوں سے کھل کر اختلاف کر سکے؟
سینیٹ میں شو آف ہینڈز اور سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے انتخاب کی صورتوں میں ایک فرق تو صاف نظر آتا ہے کہ اگر شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخاب ہو تو امیدوار سارا پیسہ ٹکٹ کے خریدنے پر لگائے گا اور ظاہر ہے یہ پیسہ ٹکٹ دینے والا وصول کرے گا اور سیکرٹ بیلٹ کی صورت میں امیدوار اپنے ووٹ خریدنے کے لئے خرچہ کرے گا۔ اگر ووٹروں کے حساب سے دیکھا جائے تو سیکرٹ بیلٹ بہترین طریقہ ہے جس میں ووٹر کی یعنی ارکان اسمبلی کی جیب گرم ہوتی ہے۔ اگر پارٹی لیڈر اور امیدوار سے پوچھا جائے تو شو آف ہینڈز بہترین طریقہ انتخاب ہے کہ اس میں سارا معاملہ صرف دو لوگوں کے درمیان طے ہو جائے گا اور ٹکٹ دینے والا بھی خوش ہو گا اور ٹکٹ لینے والا بھی کہ ایسی صورت میں ایک شخص سے معاملات طے کر کے وہ بے فکر جائے گا اور خرچہ بھی مقابلتاً بہت کم ہو گا۔ سینیٹ کی ٹکٹوں کی اکثریت پہلے بھی ارب پتی لوگوں کو ملتی تھی اور آئندہ بھی انہی کو ملتی رہے گی۔ تاج حیدر ٹائپ لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہے گی۔
لوٹا بننے والے سولہ ارکان اسمبلی قومی اسمبلی کے بارے میں لوگ اپنی اپنی جگہ پر اندازے لگا رہے ہیں مگر یہ صرف اندازے ہیں؛ تاہم یہ بات لازمی نہیں کہ سب نے پیسے ہی پکڑے ہوں۔ ممکن ہے کہ منہ پر بات نہ کر سکنے والے ہمت سے عاری ایک دو ارکان اسمبلی نے مؤرخہ تین مارچ کو یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے ہوں؛ تاہم بقول ہمارے دوست خان صاحب کے، ووٹ ضائع کرنے والوں کا ریٹ تھوڑا کم تھا اور ووٹ بیچنے والوں کا ریٹ بھی زیادہ تھا اور آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کا وعدہ بھی تھا۔ اس بار ضمیر کا ریٹ اڑھائی سے پانچ کروڑ روپے تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں