"KMK" (space) message & send to 7575

نوٹیفکیشن ! زندہ باد

حکومت پنجاب کے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ المعروف ایس اینڈ جی اے ڈی (کیبنٹ ونگ) نے مورخہ 29 مارچ 2021ء کو ایک نوٹیفکیشن نمبر (S.P) So (Cab-1) 2-4/2021 جاری کیا۔ اس نوٹیفکیشن نے وہ بلی تھیلے سے نکال باہر کی ہے جو ایک عرصے سے ہم جنوبی پنجاب والوں کو غچہ دے رہی تھی کہ یہاں ایک عدد خود مختار سب سیکرٹریٹ بن چکا ہے۔ حکومتی چمچے اور خوشامدی سیاستدانوں کے علاوہ وسیب کے سارے عوامی نمائندے اور منتخب ارکان اسمبلی جھوٹ اور افترا کے دفتر کھولے بیٹھے تھے اور عوام کے علاوہ خود اپنے آپ کو بھی مسلسل دھوکہ دے رہے تھے کہ یہاں ایک عدد سیکرٹریٹ بن چکا ہے اور اب عوامی مسائل یہیں وسیب میں حل ہو جایا کریں گے۔ جنوبی پنجاب میں ایک عدد سیکرٹریٹ بنانے کیلئے مورخہ گیارہ ستمبر 2020ء کو جو ایک عدد نوٹیفکیشن نمبرSO(Cab-I)2-4/2020(S.P)جاری ہوا تھا‘ اب وہ سارے کا سارا نوٹیفکیشن ہی واپس لے لیا گیا ہے یعنی سارا قصہ ہی سرے سے صاف کر دیا گیا ہے۔ لئو جی ہُن مزے کرو۔
ہمارے وسیب کے نمائندے‘ جن کے سرخیل ہمارے پیارے شاہ محمود قریشی ہیں‘اور ان کے حالیہ سب سے بڑے اسسٹنٹ ڈاکٹر اختر ملک اس سیکرٹریٹ کے قیام پر نمبر ٹانکنے میں لگے رہے اور اس کا سارا کریڈٹ سمیٹنے کے چکروں میں رہے جبکہ ہم لوگ تب بھی یہی کہہ رہے تھے کہ یہ ساری کارروائی وسیب کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور الیکشن 2018ء میں اس علاقے کے لوگوں سے علیحدہ صوبے کے وعدے پر ''اٹیرے‘‘ گئے ووٹوں کے زور پر سمیٹی گئی کامیابی کے بعد اس علاقے کے لوگوں کو بتدریج دھوکہ دیا گیا اور پہلے صوبے کا وعدہ کیا‘ پھر اسے نیچے لاتے ہوئے ایک عددسیکرٹریٹ کا لالی پاپ دیا گیا اور دکھاوے کیلئے ایک لولا لنگڑا سب سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں کئی ماہ تو اس چکر میں گنوا دیئے گئے کہ یہ کہاں بنے گا؟ ملتان میں یا بہاولپور میں؟ پھر اس سیکرٹریٹ کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا اور کچھ دفاتر ملتان اور کچھ بہاولپور میں بنا دیے گئے۔ عملہ لایا گیا ‘ لاہور سے افسر ٹرانسفر کیے گئے‘ ان کو الاؤنس دیئے گئے‘ انہیں رہائشی سہولتیں دی گئیں‘ لشتم پشتم بنائے گئے اس سیکرٹریٹ کیلئے دفاتر موجود نہیں تھے‘ اِدھر اُدھر کے کئی سرکاری دفاتر خالی کروائے گئے‘ کئی پرائیویٹ کوٹھیاں کرائے پر لی گئیں‘ فرنیچر خریدا گیا‘ نئی گاڑیوں کی خرید پر پابندی کے باعث درجنوں گاڑیاں رینٹ اے کار والوں سے لے کر بخشی گئیں‘ افسران کو ملتان سے لاہور ٹی اے ڈی کی مد میں خطیر رقم دی گئی۔ ٹرانسفر کے موقع پر رہائش گاہ اور سامان شفٹ کرنے پر سرکاری خزانہ استعمال کیا گیا۔ بلامبالغہ کروڑوں روپے کا خرچہ ہوا اور بعد میں کیا ہوا؟ ایسی اُٹھان اور ایسی مراجعت؟ لیکن حیرانی ہے اس علاقے کے منتخب نمائندوں پر کہ ان کے منہ کو تالے لگے ہوئے ہیں‘ ضمیر سوئے ہوئے ہیں اور وہ کسی صورت بھی ذاتی مفادات سے اوپر جا کر نہیں سوچ رہے۔ یہ ذاتی مفادات کیا ہیں؟ اسمبلی کی ممبری ہے‘ اس سے وابستہ سرکاری فوائد ہیں اور سب سے بڑھ کر اس ممبری کے ساتھ جڑے ہوئے وہ فوائد ہیں جن کے طفیل سب کی معاشرتی اور معاشی کلاس تبدیل ہو گئی ہے۔ ہر کام میں نقد پیسے وصول کرنے والے‘ تھانے کچہری میں ٹاؤٹ کے فرائض سرانجام دینے والے اور سرکاری ٹھیکوں میں ٹھیکے داروں سے کمیشن مارنے والے اب معززین شہر ہیں اور ہمارے نمائندے ہیں۔
اس عاجز نے گزشتہ ماہ کی اکیس تاریخ کو کالم بعنوان ''وزیراعلیٰ کا حلقہ پٹوار‘‘ لکھا تھا اور اس میں بتایا تھا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے پندرہ محکموں کے سیکرٹریز کومکمل سیکرٹری سے اب سپیشل سیکرٹری بنا دیا گیا ہے۔ عملی طور پر اب وہ انتظامی افسر نہیں بلکہ تقریباً تقریباً آفس سپرنٹنڈنٹ بن گئے ہیں ‘ ان کے ہاتھ میں نہ اب کوئی اختیارات ہیں اور نہ ہی کوئی طاقت۔ سب کچھ واپس لاہور چلا گیا ہے؛ البتہ ان افسروں کی تنخواہوں میں جو اضافہ ہوا تھا‘ گریڈز میں جو ترقیاں ہوئی تھیں‘ دفتروں پر جو خرچہ ہوا تھا‘ ان کی رہائشی اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات پر جو رقم خرچ ہوئی ہے اور ہو رہی ہے‘ وہ اسی طرح حسبِ سابق جاری رہے گی۔ دوسرے لفظوں میں کسی کام نہ کرنے کے عوض سیکرٹریٹ کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر کے یہ لولا لنگڑا سیکرٹریٹ بنایا گیا اور پھر محض ساڑھے چھ ماہ میں یہ دفتر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لپیٹ دیا گیا۔
مئی‘ جون 2020ء میں پٹرولیم کمپنیوں نے آٹھ روپے قیمت کم کرنے پر سارے ملک میں پٹرول کی سپلائی روک دی تھی اور ایک ماہ تک ملک کے بائیس کروڑ عوام کویرغمال بنا کر مبلغ پچیس روپے قیمت بڑھنے پر پٹرول کی سپلائی شروع کر کے بلامبالغہ اربوں روپے بٹور لئے تھے اور اب نو دس ماہ بعد دو بندے تبدیل کر دیے گئے ہیں جبکہ وزیراعظم کے مشیر ندیم بابرکے بارے میں اب بھی حکمران پارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور صرف انکوائری کوشفاف اور غیر جانبدار رکھنے کیلئے ان سے استعفا لیا گیا ہے۔ ممکن ہے وہ دوبارہ اپنے عہدے پر آ جائیں۔ ندیم بابر کی مبینہ لوٹ مار کا تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اتنا جانتا ہوں کہ ان کا اس عہدے پر تقرر بذاتِ خود اخلاقی اور قانونی طور پر سو فیصد غلط تھا کیونکہ موصوف کا یہ عہدہ Conflict of interest یعنی ''مفادات کے ٹکراؤ‘‘ کے زمرے میں آتا تھا اور دنیا بھر میں ایسے کسی بھی شخص کو اس قسم کے عہدوں سے فوری طور پر فارغ کر دیا جاتا ہے۔ عوام کے جیب سے اس پٹرول بحران کے دوران اربوں روپے نکال لئے گئے‘ انکوائری ہورہی ہے۔ آٹے کے بحران کے دوران اربوں روپے لوٹ لئے گئے‘ انکوائری چل رہی ہے۔ چینی کے سکینڈل میں اربوں روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا‘ انکوائری جاری ہے۔ انکوائریاں تو چل رہی ہیں لیکن اگر عوام سے لوٹا گیا پیسہ متاثرین کو واپس نہیں مل سکتا تو پھرایسی انکوائریوں کا کیا فائدہ؟
اب کورونا ویکسین کے ذریعے مجبور‘ اور ہلاکت خیز بیماری سے خوفزدہ عوام کو ٹیکے کے زور پر ٹیکہ لگا کر لوٹا جا رہا ہے۔ روسی سپوتنک ویکسین بھارت میں آج بھی سات سو تیس بھارتی روپے (ایک ہزار پانچ سو بیس پاکستانی روپے) میں دستیاب ہے۔ غضب خدا کا جو ویکسین بھارت میں ڈیڑھ ہزار پاکستانی روپوں میں مل رہی ہے وہ یہاں 8449 روپے سے زائد میں بیچنے کی اجازت دے کرقانونی طور پر لوٹ مار کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مبینہ طور پر اس درآمد اورفروخت میں جناب وزیراعظم کی بغل میں بیٹھے ہوئے ڈاکٹر شہباز گل نے چھکا لگایا ہے۔ موصوف نے زندگی بھر ایسے کسی ''جیک پاٹ‘‘ کی توقع بھی نہیں کی ہو گی جو ان کا بیٹھے بٹھائے لگ گیا ہے۔ لوگوں کا خیال ہو گا کہ موصوف میڈیکل ڈاکٹر ہوں گے‘ لیکن وہ میڈیکل نہیں‘ بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈاکٹرہیں اور زندگی کے پہلے ہی بزنس میں ممکنہ طور پر ریکارڈ توڑ منافع کمانے والے ہیں۔ اب اے پی جی نامی کمپنی کو‘جو مذکورہ طور پر وزیراعظم کی آنکھ کے اسی تارے کی کمپنی بتائی جاتی ہے‘ منافع کے نام پر قانونی لوٹ مار کیلئے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ جب یہ ڈاکٹر صاحب اپنا بریف کیس اٹھا کر امریکہ جا چکے ہوں گے پھر وزیراعظم انکوائری کا حکم دیں گے؛ تاہم تب ڈریپ کا وہ نوٹیفکیشن پیش کر دیا جائے گا جس کی رو سے حکومت وقت نے ویکسین امپورٹ کرنے والی کمپنی کو یہ ویکسین 8449 روپے پر فروخت کرنے کی سرکاری طور پر اجازت دی تھی۔ ظاہر ہے اس نوٹیفکیشن کے ہوتے ہوئے کسی فرد یا کمپنی کو کیسے مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ ہمیں تو ان نوٹیفکیشنوں نے مار ڈالا ہے‘ چاہے وہ جنوبی پنجاب والا نوٹیفکیشن ہو یا ویکسین کی قیمت والا۔ نوٹیفکیشن! زندہ باد۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں