"KMK" (space) message & send to 7575

دس ارب درختوں سے لے کر چھانگا مانگا تک

جنگل اور سردی یوں سمجھیں کہ میری کمزوری ہیں۔ کالام سے آگے اوشو کا جنگل، چیڑ اور دیودار کے بلند و بالا، سربفلک درختوں کا گھنا سلسلہ۔ بٹراسی کا جنگل۔ شوگران سے نیچے، کوائی کا جنگل‘ لیکن یہ سب اگر فاصلے کی زد میں آ کر دور ہو جائیں تو کوٹ ادو سے آگے عیسن والا جنگل، لال سوہانرا کا جنگل، چیچا وطنی کا جنگل اور خانیوال کے ساتھ پیرووال کا جنگل، آخرالذکر دونوں جنگل انگریزوں کے لگائے ہوئے مصنوعی جنگل تھے۔ گورے نے چیچا وطنی کے پاس کئی بلاکس پر مشتمل یہ ذخیرہ لگایا۔ مجھے یقین ہے کہ تب یہ ذخیرہ مقامی درختوں پر مشتمل ہو گا۔ شیشم، بیری، کیکر اور پیپل وغیرہ کثرت سے ہوں گے بلکہ میں نے خود اس جنگل میں شیشم اور کیکر کے بے شمار درخت دیکھے ہوئے ہیں۔ دیر سے بڑے ہونے والے یہ درخت عشروں تک اپنی بہار دکھاتے تھے۔ پھر پاکستان بن گیا۔ چھانگا مانگا کا مشہورِ زمانہ وسیع و عریض جنگل، پیرووال کا جنگل اور اسی طرح کے کئی اور چھوٹے مصنوعی جنگل جنہیں ذخیرے کہا جاتا تھا‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چک 323 ج ب سے دو اڑھائی میل کے فاصلے پر واقع ذخیرہ‘ سب کو ٹمبر مافیا کی نظر لگ گئی۔ درخت کٹ کر بک گئے۔ خاص طور پر شیشم کے درخت۔ عشروں پرانے شیشم کی سیاہ لکڑی جو فرنیچر کے لیے لاجواب تھی سب سے زیادہ زد میں آئی اور شیشم کے درخت تو سمجھیں ناپید ہونے کے قریب پہنچ گئے۔
شروع شروع میں تھوڑی شرم اور حیا باقی تھی۔ جنگلات کے افسران بہر حال تھوڑی بہت ضمیر کی خلش محسوس کرتے تھے اور جنگل کو میدان نہیں بننے دیتے تھے۔ انہوں نے اس کا شارٹ کٹ حل نکالا اور شیشم، کیکر وغیرہ کی جگہ پُر کرنے کے لیے سفیدے اور پاپلر جیسے جلد بڑھوتری والے بیکار اور اس سر زمین سے مطابقت نہ رکھنے والے درختوں کو لگانا شروع کر دیا۔ 'نہ کام کے نہ کاج کے اور دشمن اناج کے‘ کے مصداق، یہ درخت سوائے زیرِ زمین پانی کی بربادی کے اور کچھ نہ کر سکے؛ تاہم یہ درخت لگانے سے جنگل کا رقبہ خالی نظر نہیں آتا تھا‘ بھلے کارآمد درجنوں کی جگہ بے کار، فضول اور بلا تحقیق دوسرے ملکوں سے اٹھا کر لائے گئے غیر مقامی درختوں سے سارا ماحول برباد ہو گیا۔ ایک زمانے میں سفیدے اور پاپلر نے تو اپنی جلد بڑھنے کی رفتار کے باعث ہر جگہ پر اپنے جھنڈے گاڑ دئیے تھے۔ اسی طرح اسلام آباد میں جنگلی شہتوت نے پولن الرجی کا وہ دروازہ کھول دیا جو اب کسی طور بند ہونے میں نہیں آ رہا۔ 1960 کے لگ بھگ ہیلی کاپٹروں سے گرائے جانے والے بیجوں کا ثمر اب اہل اسلام آباد اس طرح بھگت رہے ہیں کہ آپ اسلام آباد کو پولن الرجی کیپیٹل آف دی ورلڈ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں پولن کائونٹ چالیس ہزار ذرات فی مکعب میٹر سے زیادہ ہے۔ دنیا کے کسی دارالحکومت میں پولن کائونٹ اس کے عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ یہ درخت‘ جن کا نام Broussonetia papyrifera یا Paper mulberry ہے‘ کے بیج جب ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مارگلہ کی پہاڑیوں پر دھڑا دھڑ پھینکے گئے تھے تب یہ محیرالعقول منصوبہ بنانے والے شہ دماغ دل ہی دل میں اسی طرح اپنے آپ کو ارسطو اور افلاطوں کے ہم پلہ سمجھ رہے ہوں گے جس طرح ملتان میں میٹرو بنا کر شہباز شریف اور ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنا کر اپنے سردار عثمان بزدار فخر و انبساط سے پھولے نہیں سما رہے ہوں گے اور روزانہ رات کو سوتے وقت خود کو ان اعلیٰ منصوبوں کے موجد ہونے کی داد دے کر سوتے ہوں گے۔ احمقانہ حرکتیں کرنا ایک اور بات ہے اور ان پر اینڈنا ایک مختلف بات۔
امریکہ کی کئی ریاستوں میں سبزے اور درختوں کا یہ عالم ہے کہ ہر اس جگہ پر سبزہ اور درخت ہیں جہاں زمین کا دو فٹ ٹکڑا بھی سیمنٹ اور کنکریٹ سے بچا ہوا ہے۔ وہاں میں نے نہیں سنا کہ کسی حکمران نے بلین ٹری نامی کوئی منصوبہ بنایا ہو مگر وہاں واقعتاً بلین ٹری والا ماحول ہے۔ حکمران درختوں کے بارے خود کوئی دعویٰ نہیں کرتے بلکہ درخت اپنا دعویٰ خود ہیں اور یہ ایسا دعویٰ ہے جو منہ سے بولتا ہے۔
سالوں پہلے میں اپنے بچوں کے ساتھ عیسن والا جنگل جاتا تھا۔ ہر سال سردیوں میں۔ مغربی پاکستان کے سابق گورنر نواب مشتاق احمد گورمانی کے داماد بریگیڈیئر غضنفر، جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ میں نامزد ہوئے اور پنجاب کی صوبائی کابینہ میں کئی محکموں کے وزیر بن گئے۔ ان میں جنگلات کی وزارت بھی تھی۔ تب انہوں نے اپنے سسرالی علاقے میں واقع عیسن والا جنگل میں محکمہ جنگلات کی جانب سے ایک ریسٹ ہائوس بنوایا۔ یہ ڈانڈے والا ریسٹ ہائوس کہلاتا تھا۔ یہ دو بیڈ رومز، وسیع لائونج، کچن، برآمدے اور نوکروں کے کوارٹر پر مشتمل صاف ستھرا ریسٹ ہاؤس تھا۔ جب پہلی بار وہاں جانا ہوا تب درخت بھی بے تحاشا تھے اور ریسٹ ہائوس بھی بڑی اچھی کنڈیشن میں تھا۔ پھر سال بہ سال جب بھی گیا، جنگل سے لے کر ریسٹ ہائوس تک، ہر چیز انحطاط کا شکار نظر آئی۔ کبھی اس ریسٹ ہائوس میں ایئر کنڈیشنر، شاندار کراکری، مستعد ملازمین، درختوں کے جھنڈ اور ان میں چہچہاتے ان گنت پرندوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ پہلے ایئر کنڈیشنر غائب ہوا۔ دو سال بعد گیا تو بجلی کٹ چکی تھی۔ اس سے اگلے سال واپڈا والے نادہندگی کی بنا پر ٹرانسفارمر اتار کر لے جا چکے تھے۔ موم بتیاں جلا کر گزارہ کرتے تھے۔ پانی کی موٹر چوری ہو گئی تھی لہٰذا صبح نلکے کے نیچے بیٹھ کر نہانا شروع کر دیا مگر جب جنگل کے درخت میرے سر کے گرتے ہوئے بالوں سے زیادہ تیزی سے کٹنے لگ گئے اور جنگل گنجا ہو گیا تب بھلا میں وہاں جا کر کیا کرتا؟
بلین ٹری منصوبے کی بڑی دھوم مچی تھی۔ ہمارے جنگل کوئی رین فاریسٹ تو ہوتے نہیں جہاں چار مربع میل (2560 ایکڑ) پر مشتمل جنگل میں تقریباً 1500 اقسام کے پھولوں کے پودے، 750 اقسام کے درخت، پرندوں کی چار سو اقسام اور تتلیوں کی 150 اقسام پائی جاتی ہیں۔ صرف ایمیزون کے جنگل میں دنیا بھر کے درختوں، پرندوں اور پھولوں کی دس فیصد اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک ایکڑ میں لگنے والے مختلف درختوں کا حساب لگایا جائے تو ایک ایکڑ میں شیشم کے 700، سفیدے کے 1200، کیکر کے 600 اور پاپلر کے 1200 درخت لگتے ہیں۔ چیڑ کے تقریباً 3000 پودے فی ایکڑ لگائے جاتے ہیں اور ان میں سے آٹھ سو سے نو سو درخت بڑھ کر بلوغت کے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں اور سڑکوں کے کنارے وغیرہ پاپلر اور پہاڑی علاقے میں چیڑ کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ اس حساب سے خیبر پختونخوا کے ایک ارب درختوں کا رقبہ بنایا جائے تو پاپلر کے درختوں کے مطابق یہ رقبہ آٹھ لاکھ تینتیس ہزار ایکڑ اور چیڑ کے حساب سے یہ رقبہ گیارہ لاکھ ایکڑ سے زیادہ بننا چاہیے۔ کیا خیبر پختونخوا میں واقعتاً اتنے مزید رقبے پر شجر کاری ہوئی ہے؟ کیا یہ بات گوگل ارتھ کے ذریعے جیو فینسنگ سے ثابت کی جا سکتی ہے؟
چلیں خیبر پختونخوا کو چھوڑیں۔ ادھر پنجاب میں سوائے لال سوہانرا میں شیشم کے بچے کھچے درخت صرف پرانی نہروں کے کنارے کہیں کہیں بچ گئے ہیں لیکن کب تک؟ چیچا وطنی، پیرو وال، کمالیہ، عیسن والا کا کیا کہوں؟ ادھر عالم یہ ہے کہ 1866 میں تب دنیا کا سب سے بڑا Man made forest یعنی انسانی ہاتھوں کا لگایا گیا جنگل اب اپنے اصل رقبے سے آدھا رہ گیا ہے۔ اس بچے ہوئے آدھے جنگل کا یہ حال ہے کہ اس میں پختہ درختوں یعنی Mature trees کی تعداد کل درختوں کا شاید دس فیصد بھی نہیں ہے۔ دس ارب درختوں کے منصوبے کو گولی ماریں‘ پہلے ان لٹتے اور کٹتے ہوئے جنگلوں کی شکل تو بحال کریں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنی اگلی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں