"KMK" (space) message & send to 7575

احمقانہ تشدد سے لے کر گجھی مارتک

جب آپ کسی بڑے آدمی کو‘ اپنے پسندیدہ شخص کو یا اپنے آئیڈیل کو پہلی بار ملتے ہیں تو آپ بھلے سے میری طرح سن‘ مہینہ اور تاریخ بھول جائیں مگر اس پہلی ملاقات کی جزئیات‘ یادیں اور کیفیت کبھی نہیں بھول پاتے‘ لیکن اس بات کی امید رکھنا کہ اس بڑے آدمی کو بھی وہ پہلی ملاقات یاد ہو گی‘ سوائے حماقت کے اور کچھ بھی نہیں۔ جب دن میں ان گنت چاہنے والے محبت اور عقیدت سے مل رہے ہوں تو پھر ایسے میں یاد رکھنا کسی بھی انسان کیلئے ممکن نہیں۔ ہاں مرحوم پروفیسر سید اقبال عباس نقوی جیسی حیران کن یادداشت ایک انگریزی جملے کے مطابق اللہ تعالیٰ صرف ''ون ان اے ملین‘‘ کو ہی نصیب کرتا ہے۔
مجھے ایاز امیر سے اپنی ملاقات ماہ و سن سے ہٹ کرایسے یاد ہے کہ جیسے کل کی بات ہو اور یہ منظر نامہ میں جب چاہتا ہوں یادوں کے دریچے کھول کر دیکھ لیتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں عشروں بعد آج بھی اپنی وہ بچگانہ خوشی محسوس کر سکتا ہوں جو مجھے اس پہلی ملاقات میں محسوس ہوئی تھی۔ میں ایسی خوشی کو بچگانہ خوشی اس لئے کہتا ہوں کہ کسی لوبھ‘ لالچ‘مقصد یا بناوٹ کے بغیر محسوس کی جانے والی خوشی بچوں کا نصیب ہوتی ہے۔ جب ایسی خوشی آپ کو ملے تو اس سے بچوں کی طرح لطف اندوز ہونا چاہئے اور میں نے اس خوشی کو تب بھی بچوں کی طرح ہی انجوائے کیا تھا۔
برادرِ عزیز رو ٔف کلاسرا کو تب ملتان سے یوں سمجھیں کہ دھکا دے کر اسلام آباد بھیجا گیا تھا۔ وہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ ایک پنجابی محاورہ کے مطابق کسی نے ''کُبے‘‘ (کبڑے) کو کمر پر لات ماری اور اس کا سارا ''کُب‘‘ نکل گیا۔ رو ٔف کلاسرا کی خفتہ صلاحیتوں کو بڑا میدان میسر آیا تو کھل کر سامنے آئیں۔ ملتان تو اس جیسے شخص کیلئے ایسا تھا کہ کسی اولمپک لیول کے کھلاڑی کو کسی کلب لیول کی ٹیم کے ساتھ باندھ دیا جائے۔ رو ٔف ان دنوں نیا نیا اسلام آباد آیا تھا اور زیرو پوائنٹ کے ساتھ ڈان کے دفتر میں بیٹھا کرتا تھا۔ زیرو پوائنٹ اسلام آباد کا ایسا پوائنٹ ہے کہ کوئی آوارہ گرد اور سیلانی آدمی اس مقام سے گزرے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ سو جب بھی ادھر سے گزرتا رؤف سے ملنے کیلئے ڈان کے دفتر کا چکر لگا لیتا۔ انگریزی صحافت کے بہت بڑے نام ضیا الدین صاحب سے ادھر ہی ملاقات ہوئی۔ میرا اس دفتر میں رو ٔف کے پاس دوسرا یا شاید تیسرا چکر تھا۔ یہ عصر کے بعد کا وقت تھا جب سفید کاٹن کے کلف لگے سوٹ میں مونچھوں کو اپنے خاص انداز میں تاو ٔ دیے ایاز امیر دفتر کے مرکزی داخلی دروازے سے اندر آئے۔ میں نے رو ٔف کو آہستہ سے کہا: رو ٔف! ایاز امیر صاحب آئے ہیں۔ رو ٔف نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر ان کی طرف چل پڑا۔ خوشی سے میرا برا حال تھا۔
ٹاٹوں والے سکول سے پرائمری کرنے والا یہ طالب علم جب سرکاری ہائی سکول میں پہنچا تو صرف گھر میں پڑھائی گئی اے بی سی کے ساتھ جملے بنانے کی تھوڑی بہت شد بد تھی ‘تاہم چھٹی کلاس میں علی اور نسیمہ والی کتاب اتنی مشکل لگتی تھی کہ اس افتاد نے باقی ساری عمر اس عاجز کے تعلقات انگریزی سے اس حد تک خراب کر دیے کہ آج تک بحال نہیں ہو سکے‘ مگرایسے میں بھی یہ عالم تھا کہ خواہ باقاعدگی سے نہ سہی‘ مگر مہینے میں ایک آدھ بار ایاز امیر اور اردشیرکاؤس جی کے کالم سے جی بہلا لیتے تھے۔ یہ اور بات کہ اس دوران بارہا ڈکشنری دیکھنا پڑتی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ انگریزی سے انتہائی کشیدہ اور ابتر تعلقات کو جو تھوڑا بہت بہتر کیا اس میں ان دونوں حضرات کا بہت ہاتھ ہے۔
مجھے تب یہ بڑا عجیب سا لگ رہا تھا کہ میں ان کو یہ کہوں کہ آپ کالم بہت اچھا لکھتے ہیں۔ یہ جملہ دن میں سینکڑوں بار تو سنتے ہی ہوں گے۔ اب بھلا اس جملے کی ان کیلئے کیا اہمیت باقی بچی ہو گی؟ رو ٔف نے ان سے میرا تعارف کروایا۔ میں تب خبریں میں کالم لکھا کرتا تھا۔ تعارف کے بعد میں نے ہنس کر ایاز امیر صاحب سے کہا کہ آپ کے کالم کے طفیل مجھ نالائق کے تعلقات انگریزی سے تھوڑے بہت بہتر ہوئے ہیں۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایاز امیر صاحب ہنس پڑے اور ہمارے دل کی کلی کھل گئی۔
پھر یوں ہوا کہ ایاز امیر کا انگریزی کالم پہلے پہل اردو میں ترجمہ ہو کر اردو اخبارات میں آنا شروع ہوا تو اس کو ترجمہ کرتے ہوئے ڈکشنری اور لغت وغیرہ کے استعمال کی ذمہ داری اس کالم کے مترجم کے ذمہ آن ٹھہری اور ہم اس مشقت سے بچ گئے۔ پھر یوں ہوا کہ انگریزی ایک شاندار کالم نگار سے محروم ہوئی توہم جیسوں کی آسانی کے ساتھ ساتھ اردو صحافت کو ایک نہایت شاندار بلکہ تابدار کالم نگار مل گیا۔ کسی لاگ لپٹ‘ مصلحت اور منافقت سے یکسر پاک۔ ان موضوعات پر کھل کر لکھنے والا جو اردو میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً شجر ممنوعہ تھے۔ لکھنے کاایسا سلیقہ کہ کہیں پکڑ بھی نہ آئے اور بات ساری کی ساری سو فیصد اور مکمل سمجھ میں آ جائے۔ نازک موضوعات پر ایسے لکھیں کہ ایک طرف تو آبگینوں کو بھی ٹھیس نہ لگے اور دوسری طرف مکمل تباہی کر کے رکھ دیں۔ قلم سے ایسی بمباری کریں کہ اپنی یادش بخیر والی کپتانی کے زمانے کی آرٹلری کی کارکردگی کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیں۔ اور اس پر ٹی وی پروگرامز میں ان کی مدلل‘ سیدھی اور غنیم کے قلب میں جا کر لگنے والی گفتگو۔ ہمارے ہاں بھلا ایسی باتوں کو تادیر برداشت کرنے کی روایت کہاں ہے؟
چلیں یہ تو سمجھ آتا ہے کہ ایاز امیر کو برداشت کرنا حوصلے والوں کا کام ہے لیکن اس قسم کے فیصلے کرنے والوں کو کسی نے یہ عقل نہیں دی کہ ہر شخص کیلئے ایک ہی دوا کارگر نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض اوقات توایسے شخص کیلئے کوئی دوا بھی کارگر نہیں ہوتی۔ ایسے لاعلاج مریض کو تو ڈاکٹر بھی اللہ کے سہارے چھوڑ دیتے ہیں۔ میں بعض اوقات حیران ہوتا ہوں کہ اس قسم کے فیصلہ کرنے والے بزرجمہرسب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا فیصلہ کیسے کر لیتے ہیں؟ اگر ان میں معمولی سی سمجھ بوجھ ہو تو انہیں اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس قدر ایقان (conviction)کے حامل شخص کو جو زندگی کی سات دہائیاں اپنی مرضی سے طے شدہ اصولوں اور قاعدوں پر گزار چکا ہو۔ اپنی بے لچک طبیعت اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کر سکنے کی 'عادت ِبد‘ کے سبب صوبائی اسمبلی اور بعد ازاں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو چکا ہو‘ جو طالبان کے سیلابِ بلا کے سامنے پوری اسمبلی میں کھڑا ہونے اور بولنے والا واحد شخص ٹھہرا ہو‘ جس کیلئے لوبھ اور لالچ بے وقعت ہو چکے ہوں اور جس کی رگوں میں پوٹھوہاری جنگجو کا خون دوڑ رہا ہو بھلا اس کے ساتھ اس قسم کے سلوک کا کوئی ایسا نتیجہ نکل سکتا ہے جس کی وہ امید لگائے بیٹھے ہیں؟
ویسے تو اپنے مخالف (مخالف سے مراد ذاتی مخالف نہیں بلکہ اصولی بنیادوں پر مخالفت کرنے والے) صحافیوں کو اس قسم کے ہتھکنڈوں سے دبانے کی‘ ان کے نظریات تبدیل کرنے کی اور اپنی مرضی مطابق لائن اختیار کرنے کیلئے جاری اس قسم کی حرکات کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس میں نظریے اور ہر نکتہ نظر والا صحافی شامل ہے‘ تاہم اگر وہ اپنا دل اتنا بڑا کرنے سے عاری ہیں تو کم از کم اتناہی سیکھ لیں کہ ان کی کون سی دوا کس مریض پر اثر کرتی ہے اور کون سا مریض لاعلاج ہے۔ ورنہ نتیجہ سامنے ہے۔ ایاز امیر کی چوٹیں تو اب تک یقیناًٹھیک بھی ہو چکی ہوں گی مگر اب وہ جو چوٹیں لگائیں گے ان کی درد اور شدت پرطاقتوروں کو تادیر ٹکور کرنی پڑے گی۔ جسمانی اور گجھی مار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں