"KMK" (space) message & send to 7575

مستقبل کا تعلیمی منظر نامہ

اس ملک کی کلہم اشرافیہ کو تھانیدار بننے کا شوق ہے۔ وہ مقتدر حلقے ہوں‘ بیوروکریسی ہو‘ عوامی نمائندے ہوں‘ وزیر و مشیر ہوں‘ حکمران ہوں‘ وزیراعظم ہو یا صدرِ مملکت‘ اسے بہرحال تھانیدار بننے کا شوق ہے حتیٰ کہ شوقِ تھانیداری کا یہ عالم ہے کہ آئی جی پولیس کی بھی یہی خواہش ہے کہ کاش وہ تھانیدار ہو۔ اس تھانیداری سے مراد طاقت اور اختیارات کے آخری حد تک استعمال کی خواہش ہے جس میں اس سے کوئی پوچھ تاچھ نہ ہو‘ کوئی رکاوٹ نہ ہو اور کوئی حد نہ ہو۔
جب ہمارے سیاستدان حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں ان کو اداروں کی خود مختاری‘ آزادی اور کسی پابندی کے بغیر کام کرنے کی چھوٹ دینے کی بڑی باتیں کرنی آتی ہیں؛ تاہم جیسے ہی وہ اقتدار میں آتے ہیں وہ انہی اداروں کو اپنی مرضی اور منشا کے تابع کرنے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں جن کو مزید آزادی اور خود مختاری دینے کے وہ دعوے کرتے ہیں۔ خدانخواستہ میری ان چند سطروں کا مخاطب صرف عمران خان نہیں بلکہ اس کے مخاطب ہمارے سارے حکمران ہیں۔ خواہ وہ نیپرا ہو‘پیمرا ہو‘ اوگرا ہو یا اب ایچ ای سی ہو‘ حکمران ہمیشہ خود مختار اداروں کو کسی نہ کسی بہانے سے‘ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے قبضۂ قدرت میں لانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ پہلے کون سا ادارہ بخوبی چلا رہے ہیں جو ان کو مزید اداروں کو اپنی تولیت میں لانے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کارروائی کا ہدف ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) ہے اور حکمران اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے والی اس باڈی کو مکمل طور پر اپنے زیرِ نگرانی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل اس کو فتح کرنے کی کوشش عمران خان کے زمانے میں ہوئی۔ تب حالیہ حکمرانوں نے خان صاحب کی حکومت کی اس کوشش پر شور و غوغا کیا تھا۔ اب جیسے ہی خود حکمرانی نصیب ہوئی ہے‘ وہ اس ادارے کو فتح کرنے چل پڑے ہیں۔
کسی زمانے میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) پاکستان کی سرکاری جامعات کی ریگولیٹری اتھارٹی تھی۔ 1974ء میں قائم ہونے والے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو مزید بااختیار اور سرکاری کنٹرول سے آزاد کرنے کے لیے 2002ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) میں تبدیل کر دیا گیا اور مزید یہ کہ اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس 2002ء کے تحت ایک مکمل خود مختار ریگولیٹری اتھارٹی جیسے اختیارات دے دیے گئے۔ یہ کام ڈاکٹر عطا الرحمن نے سرانجام دیا اور انہیں اس کمیشن کا پہلا چیئرمین مقرر کر دیا گیا۔ معاملات کسی حد تک ٹھیک سمت چلتے رہے تاوقتیکہ عمران خان صاحب کی حکومت نے مارچ 2021ء میں اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر طارق جاوید بنوری کو ایک حکم نامے کے ذریعے ادارے کی سربراہی سے فارغ کر دیا۔ ڈاکٹر طارق بنوری کو مئی 2018ء میں شاہد خاقان عباسی کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں اس ادارے کی سربراہی سونپی گئی تھی۔ یاد رہے کہ چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مدتِ ملازمت کا دورانیہ چارسال ہے۔ اس حساب سے ڈاکٹر طارق بنوری اٹھائیس مئی 2022ء تک اس ادارے کے سربراہ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے حقدار تھے مگر انہیں مارچ 2021ء کو فارغ کر دیا گیا۔ تاہم خان صاحب کی حکومت کے دیگر اسی نوعیت کے افراتفری قسم کے احکامات کی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس حکم نامے کو بھی منسوخ کر کے ڈاکٹر طارق بنوری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا۔ 2022ء میں وہ اپنی چار سالہ مدت مکمل کر کے رخصت ہوئے اور ان کی جگہ پر ان سے پہلے اسی عہدے پر کام کرنے والے ڈاکٹر مختار احمد کو تعینات کر دیا گیا۔ اب موجودہ حکمرانوں کو تھانیداری کے شوق کے زیر اثر اس ادارے کو وفاقی محکمۂ تعلیم کے زیر اختیار کرنے کا شوق چڑھا ہے اور اس کا ترمیمی مسودہ اپنی منظوری کے آخری مراحل میں ہے۔
پاکستان میں سکولز اور کالجز پہلے ہی سرکاری کنٹرول میں ہیں اور سرکاری افسروں کی نااہلی اور سیاسی مداخلت نے تمام سرکاری تعلیمی اداروں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ کسی سرکاری کالج یا سکول کا کوئی حال نہیں۔ تعلیمی معیار سے لے کر انتظامی معاملات تک‘ سب کچھ دگرگوں ہے۔ کالجوں کا یہ عالم ہے کہ کبھی سرکاری کالج داخلے کے لیے طلبہ کی پہلی ترجیح ہوتے تھے اور اب یہ عالم ہے کہ سرکاری کالجوں میں صرف وہی طلبہ داخلہ لیتے ہیں جو پرائیویٹ اداروں کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں۔ کبھی بورڈ میں پوزیشن لینے والے سرکاری کالجوں میں داخلہ لیتے تھے‘ اب سب کچھ الٹ ہو چکا ہے۔ داخلوں میں پہلی ترجیح پرائیویٹ کالجز ہیں اور بورڈ میں سب پوزیشن ہولڈرز بھی پرائیویٹ کالجز کے طالب علم ہیں۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ سے آدھی سے بھی کم تنخواہ لینے والے اور سرکاری کالجوں میں نوکری کے حصول میں ناکام رہنے والے اور ان کالجوں میں ملازمت کرنے والے اساتذہ اپنے سے کہیں قابل اور لائق فائق لوگوں سے بہتر نتائج دے رہے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی صرف دو وجوہات ہیں‘ پہلی انتظامی نالائقی اور نااہلی اور دوسری سیاسی مداخلت۔ سفارشی کلچر نے سرکاری تعلیمی اداروں کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔
ابھی یونیورسٹیوں میں معاملہ خرابی کی اس حد تک نہیں پہنچا اور پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیاں اب بھی داخلوں کے لیے طلبہ کی پہلی ترجیح ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ابھی جامعات میں سرکاری اور سیاسی مداخلت اس درجے پر نہیں پہنچی لیکن حالات جس طرف جا رہے ہیں وہ اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ ایچ ای سی کو وفاقی محکمۂ تعلیم کے وزیر اور سیکرٹری کے زیر انتظام کرنے سے اس میں بیوروکریسی کی نالائقی اور سیاسی مداخلت کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ جامعات کا بھی اسی طرح بیڑہ غرق ہو جائے گا جس طرح سرکاری سکولوں اور کالجوں کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔
گزشتہ سال کیے جانے والے سیاسی فیصلے کا نتیجہ اس سال سامنے آ گیا ہے۔ سابقہ بیوروکریٹ اور حالیہ سیاستدان شفقت محمود نے میٹرک کے امتحانات کے بعد کورونا کے باعث سکولوں کی بندش کا حل یہ نکالا کہ بچوں کو تھوک کے حساب سے نمبر دے کر پاس کرنے کے ذریعے شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ نمبروں میں اس سخاوت اور بندر بانٹ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مردان کے تعلیمی بورڈ نے میٹرک کے چار طلبہ کو گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر دے کر دنیا میں میٹرک کے نتائج کا ریکارڈ توڑ دیا۔ پھر تو بس مقابلہ شروع ہو گیا اور ملتان بورڈ نے اپنے چھ سو سے زائد طلبہ کو گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر دے کر پاکستان میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی اور دنیا بھر میں ایک ایسا ریکارڈ قائم کیا جو ہماری زندگی میں ٹوٹنا ممکن ہی نہیں۔
گزشتہ سال میٹرک میں گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر لینے والی اور دنیائے تعلیم میں ریکارڈ قائم کرنے والی اس کھیپ نے اس سال گیارھویں جماعت کے امتحان میں سینتیس فیصد نتیجے کے ساتھ تعلیم معکوس کا ایک اور ریکارڈ قائم کرتے ہوئے جناب شفقت محمود کوشرمندہ کروایا ہے۔
خدارا! تعلیم کو مذاق مت بنائیں وگرنہ ہم جو پہلے ہی اپنے تعلیمی انحطاط میں کافی آگے جا رہے ہیں‘ آنے والے دنوں میں اس ملک کے پہلے سے برباد شدہ تعلیمی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں