"KMK" (space) message & send to 7575

پولٹری بحران، جی ایم او ٹیکنالوجی اور اس کا مستقبل… (آخری)

ابھی چند روز گزرے ایک کام سے ملتان انڈسٹریل اسٹیٹ جانا ہوا۔ انڈسٹریل اسٹیٹ اور شیر شاہ روڈ کے درمیان ریلوے لائن پر پھاٹک ہے جس پر ان دنوں فلائی اوور بن رہا ہے‘ مجبوراً عسکریہ بائی پاس سے گندے نالے والی سڑک کا راستہ اختیار کیا۔ یہ گندا نالا آدھے شہر کے گٹروں اور سیوریج کی گندگی لے کر جاتا ہے۔ اس نالے کے ساتھ عشروں سے سبزی کاشت ہو رہی ہے اور ان سارے کھیتوں کی آبیاری اسی غلیظ اور بیماریوں سے بھرے ہوئے قدرتی کھاد سے بھرپور گاڑھے سیال سے ہوتی ہے۔ ہم ملتان کے باسی اسی تازہ سبزی سے مستفید ہوتے ہیں۔
سارے محکمے‘ ساری انتظامیہ اور صحت کے ادارے اس طرفہ تماشے کو عشروں سے دیکھ رہے ہیں۔ عوام کی صحت کے ساتھ مسلسل کھلواڑ جاری ہے مگر سب کچھ جوں کا توں چل رہا ہے۔ گزشتہ سال ادھر سے گزرا تو چند صفائی پسند کاشتکار اپنی گاجریں منڈی لے جانے سے قبل اسی بہتی گنگا میں دھو کر پاک صاف کر رہے تھے۔ اس سال اتفاقاً دوبارہ اسی موسم میں گزرا تو اس علاقے کے کاشتکار گاجروں کو اسی خلوص اور دلجمعی کے ساتھ اس گٹر والے پانی میں دھو دھلا کر صاف کر رہے تھے۔ نہ کسی کو فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے اور نہ ہی پانی کی Contamination ہی کوئی پرابلم ہے۔ نہ انسانی صحت کا خیال ہے اور نہ ہی مضر صحت سبزیوں کی کاشت اور ان کی دھلائی ہی کسی کو دکھائی دے رہی ہے۔ فی الوقت سارا زور کراچی کی بندرگاہ پر کھڑے ہوئے سویابین سے لدے ہوئے جہازوں میں موجود سویابین کے جی ایم او ہونے سے ہے۔
میں مانتا ہوں کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں ہے مگر دوسری غلطی کے ساتھ ساتھ پہلی غلطی کی درستی پر بھی توجہ دی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میں نہ تو حیاتیاتی سائنس کا کوئی ماہر ہوں اور نہ ہی فوڈ ٹیکنالوجسٹ ہوں کہ جی ایم او کے مضر صحت یا بے ضرر ہونے کے بارے میں کوئی فتویٰ جاری کروں یا تبصرہ کروں‘ مگر کامن سینس کے ذریعے صرف اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ اگر امریکہ بہادر یہی جی ایم او سویابین اپنی مرغیوں کی خوراک میں ڈال رہا ہے اور جی ایم او مکئی سے جانوروں کی خوراک تیار کرکے خود استعمال کر رہا ہے اور اسی سویابین سے حاصل کردہ خوردنی تیل استعمال کر رہا ہے تو مجھے جی ایم او ٹیکنالوجی کے انسانی صحت کے لیے اس حد تک خطرناک ہونے کے بارے میں رتی برابر یقین نہیں جس کا اعلان ہمارے ماہرین کر رہے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ہم سے کہیں زیادہ انسانی صحت اور زندگی کا حفاظتی سٹینڈرڈ متعین کرنے والے امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ اسے اپنے ہاں استعمال نہ کر رہے ہوتے۔
مغرب کا انسانی زندگیوں کے بارے میں دہرا معیار کسی سے پوشیدہ یا چھپا ہوا نہیں ہے۔ جب انسانی جان کی حرمت کا معاملہ آئے تو مغرب کے نزدیک اسرائیلی یہودی اور فلسطینی مسلمان کا خون قطعاً برابر نہیں۔ کسی اسرائیلی یہودی کی جان کو محض نقصان کا شبہ ہو تو اس شبہے کو زائل کرنے کے لیے آٹھ دس فلسطینی مسلمانوں کو گولی مار دی جائے یا ان کے درجن بھر گھر مسمار کر دیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اگر عراق کے پاس تباہی والے ہتھیاروں کی موجودگی کا شوشہ چھوڑ کر لاکھوں عراقی مار دیے جائیں تو بھی جائز ہے اور نائن الیون کا بہانہ بنا کر افغانستان پر بموں کی بارش کر دی جائے تو بھی ان کو رتی برابر شرمندگی نہیں اور یہی وہ منافقت ہے جو انسانی زندگی کی حرمت کے بارے میں ان کے دہرے معیار کو واضح کرتی ہے‘ لہٰذا امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ اگر اپنی پیدا کردہ جی ایم او مکئی اور سویابین صرف ہم جیسے غریب غربا ممالک کو‘ افریقہ کے کالوں اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کو دے رہے ہوتے لیکن خود استعمال نہ کر رہے ہوتے تو مجھے صرف شک ہی نہیں بلکہ یقین ہوتا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے کہ گورے خود تو یہ چیز استعمال نہیں کر رہے مگر ہمیں فروخت کر رہے ہیں‘ مگر ایسا نہیں ہے۔ چلیں امریکہ میں کاشت ہونے والی جی ایم او مکئی‘ سویابین اور برسیم تو پولٹری فیڈ اور حیوانی چارے میں استعمال ہو رہی ہے مگر جی ایم او آلو‘ چقندر‘ حلوہ کدو اور کپاس وغیرہ تو براہِ راست انسانی استعمال میں آ رہی ہیں آخر وہ لوگ اس پر پابندی کیوں نہیں لگا رہے؟ اس کی وجہ میرے نزدیک محض یہ ہے کہ جی ایم او ٹیکنالوجی سے منسوب کہانیوں میں کم از کم وہ حقیقت ہرگز نہیں جو جی ایم او کے مخالفین نے مشہور کر رکھی ہیں۔ میں جی ایم او ٹیکنالوجی کو بالکل کلین چٹ بھی نہیں دے رہا۔ اس میں کچھ ضرر رسانی کا امکان قرینِ قیاس ہے مگر میرے خیال میں یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ہمارے استعمال میں آنے والی ادویات کے چند سائیڈ ایفکٹس بھی ہوتے ہیں۔ یہ سائیڈ ایفکٹس دراصل ضمنی اثرات ہوتے ہیں جو زیادہ فائدہ بہم پہنچانے والی ادویات کے ساتھ ہمیں ایک پیکیج ڈیل کے تحت قبول کرنا پڑتے ہیں۔ ہم ان جزوی نقصانات کے انتباہ کے باوجود یہ ادویات استعمال کرتے ہیں۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے فصلوں‘ پھلوں‘ سبزیوں‘ اناج اور چارے کی پیداوار کو روایتی طریقہ سے ہٹ کر جدید سائنسی طریقوں سے بڑھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔
1960ء کے لگ بھگ ہماری گندم کی فی ایکڑ پیداوار دس من سے بھی کم تھی مگر آبادی کے پیش نظر یہ ہمارے لیے کافی تھی۔ 1966ء میں گندم کی قسم 591آئی اور یہ پیداوار بارہ من ہو گئی۔ 1972ء میں میکسی پاک کے باعث گندم کی پیداوار میں انقلاب آیا اور فی ایکڑ پیداوار پچیس من تک پہنچ گئی اور اب نومبر میں کاشتہ گندم کی اوسط پیداوار چالیس من سے زیادہ ہو چکی ہے‘ مگر آبادی میں بے تحاشا اضافے کے سبب ملک گندم کی کمی کا شکار ہے۔ یہی حال ہماری کپاس کا ہے۔ دیسی کپاس کی پیداوار پانچ چھ من فی ایکڑ تھی۔ بعد میں AC-134 کے طفیل یہ پیداوار پندرہ من اور پھر بیاب 78 کی آمد سے چالیس من تک پہنچ گئی۔ معاملہ دیسی سے نکل کر نئی ورائٹیوں سے ہوتا ہوا ہائبرڈ اور پھر جی ایم او تک پہنچ چکا ہے۔ ہمیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ دو عشرے قبل ہمارے ادارے اور ماہرین بی ٹی کاٹن کے خلاف تقریریں کیا کرتے تھے اور اخبارات میں اس کپاس کے خلاف اشتہار چھپا کرتے تھے کہ کاشت کرنے والے کو سزا دی جائے گی۔ تب آسٹریلیا سے چوری شدہ Bollgard-I بیج سے پرائیویٹ افراد نے پاکستان میں بی ٹی کاٹن بنالی۔ ایک وقت تھا اس ملک میں بی ٹی کاٹن کی کاشت جرم تھا اور آج یہ عالم ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی کپاس کا نوے فیصد بی ٹی کاٹن پر مشتمل ہے جو جی ایم او ہے۔ کیا لطیفہ ہے کہ ملک میں جی ایم او فصلات کی کاشت‘ پیداوار اور اس کی حامل پراڈکٹس کی درآمد ممنوع ہے۔ اس لیے ہم پولٹری فیڈ کے لیے جی ایم او سویابین ملک میں نہیں آنے دیتے جبکہ ملک میں جی ایم او کپاس لگا رہے ہیں جس کے بنولے سے حاصل کردہ تیل ہم کھا رہے ہیں‘ اس کی کھل سے مویشیوں کی خوراک بنا رہے ہیں اور اس کپاس کے کپڑے ہم پہن رہے ہیں اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے فیصلہ سازوں کو کئی سال تک جی ایم او سویابین درآمد کرنے کے بعد خیال آتا ہے کہ یہ مضرِ صحت ہے اور وہ فرسودہ قوانین کو تبدیل کرنے کے بجائے دھنیا پی کر سو جاتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم بلیم گیم سے نکل کر اس سلسلے میں ترقی یافتہ ممالک کی پیروی کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق زرعی منصوبہ بندی اور اسی حساب سے قانون سازی کریں تاکہ مستقبل کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو سکیں۔ آئینی ذمہ داریوں کے تناظر میں بھلا پارلیمنٹ کا اور کیا کام ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں