"KMK" (space) message & send to 7575

گدھ کہاں چلے گئے؟

ممکن ہے میرا گمان غلط ہی ہو کہ میرے کئی قارئین گدھ جیسے بدصورت‘ بدسیرت‘ بداطوار اور مردار خور پرندے پر کالم لکھنے پر برا منائیں گے لیکن جس معاشرے میں چاروں طرف گدھ نما مردار خور انسان نہ صرف یہ کہ پھر رہے ہوں بلکہ معاشرے میں خاصے باعزت بھی تصور کیے جاتے ہوں‘ بھلا وہاں قدرت کی طرف سے صفائی پر مامور اس بے ضرر پرندے پر کالم لکھنے میں کیا حرج ہے جو اب تقریباً تقریباً ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
میں ایک عرصہ سے پاکستان میں تیزی سے ختم ہوتے ہوئے گدھوں پر کالم لکھنا چاہ رہا تھا لیکن بیڑہ غرق ہو اس روزمرہ کی سیاست کا جو اس قسم کے بہت سے کالموں کو کھا گئی اور اس نے ڈکار تک نہیں مارا۔ ممکن ہے کہ یہ کالم پھرکسی سیاسی واقعے کی بھینٹ چڑھ جاتا لیکن گزشتہ چند روز سے جس طرح میں سیاست سے اپنی جان چھڑوائے بیٹھا تھا‘ اس میں قدرتی ماحول اور سماجی مسائل سے متعلق کالم لکھنے کے تسلسل نے ایک بار پھر اس موضوع کی یاد تازہ کردی اور یاد بھی اس طرح تازہ ہوئی کہ گزشتہ روز میرے بڑے نواسے سیفان نے فون پر باتیں کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے گیٹر لینڈ والے Vulture (گدھ) یاد ہیں؟
چند ماہ قبل میں اس کے ساتھ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں واقع ایک وائلڈ لائف پارک‘ جس کا نام گیٹر لینڈ (Gatorland) ہے‘ گیا تھا۔ ایک سو ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا یہ وائلڈ لائف پارک اوون گڈون نے 1949ء میں بنایا تھا۔ اس پارک کی نمایاں خصوصیت ہزاروں کی تعداد میں مگرمچھ ہیں۔ اسے پارک والوں نے ''دنیا بھر کے مگرمچھوں کا صدر مقام‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ اس پارک میں مگرمچھوں اور گھڑیالوں کی افزائشِ نسل بھی کی جاتی ہے اور اس میں مختلف اقسام اور ہر عمر کے مگرمچھ ہیں۔ اس پارک میں بویا (Buaya) نامی نایاب سفید مگرمچھ بھی ہے جو عالمی شہرت کا حامل ہے‘ لیکن یہ تو اس پارک کے بارے میں عمومی معلومات تھیں‘ اصل بات یہ تھی کہ جب میں گیٹر لینڈ ایکسپریس پر سوار ہونے کے لیے اس کے درمیانی سٹیشن پر مختلف پنجروں کے درمیان سے گزر کر اونچے واچ ٹاور کی طرف جا رہا تھا تو مجھے اچانک ہی ایک جگہ پر درجنوں سیاہ رنگ کے گدھ نظر آئے۔ تھوڑا آگے مزید گدھوں کا جھنڈ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ دو مختلف اقسام کے گدھ تھے۔ چند گدھوں کا سر گنجا اور گردن سمیت سرخ رنگ کا تھا جبکہ زیادہ تر گدھ ایسے تھے جن کا سارا جسم‘ گردن اور سر سیاہ رنگ کا تھا۔ سرخ سر اور گردن والے ٹرکی گدھ جبکہ دوسرے سیاہ گدھ تھے۔ میں نے ایک عرصے کے بعد گدھ اس طرح کھلی فضا میں اور اتنی زیادہ تعداد میں دیکھے۔ وگرنہ گدھ کو پاکستان میں دیکھے تو اب شاید کئی سال ہو چکے تھے۔
میں نے پہلی بار گدھ ابا جی کے ساتھ ایک بار سکوٹر پر ملتان کی نواحی بستی نو میں پروفیسر یعقوب صاحب کی وفات پر جاتے ہوئے دیکھے تھے۔ تب میری عمر شاید پانچ‘ چھ سال ہو گی۔ ابا جی سکوٹر چلا رہے تھے‘ پچھلی سیٹ پر چچا مظفر بیٹھے تھے اور میں آگے ہینڈل پکڑ کر کھڑا ہوا تھا۔ درجنوں گدھ ایک مرے ہوئے جانور‘ جو شاید گائے یا بھینس تھی‘ کو نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ ابا جی نے بتایاکہ یہ گدھ ہیں اور مرے ہوئے جانوروں کو کھانے والے کو مردار خور کہتے ہیں۔ یہ میرا گدھوں سے پہلا تعارف تھا۔ دوسری بار میں ابا جی کے ہمراہ ایمرسن کالج کے سابقہ پرنسپل میاں محمود صاحب کے ساتھ لاہور جا رہا تھا تو راستے میں سڑک کے کنارے دو تین جگہوں پر مردہ جانوروں کے گرد گدھوں کو دیکھا۔ ایک جانور سڑک کے بیچوں بیچ مرا پڑا تھا اور گدھ اسے کھا رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے گاڑی کو اپنی طرف آتے دیکھا انہوں نے سڑک پر دوڑنا شروع کردیا۔ اسی دوران انہوں نے پر پھڑپھڑائے اور وہ آہستہ آہستہ زمین سے بلند ہو کر ہوا میں اڑنے لگ گئے۔ چھ سات سال کے بچے کے لیے یہ ایک حیرت ناک منظر تھا۔ ابا جی نے بتایا کہ زیادہ وزنی ہونے کی وجہ سے یہ بغیر بھاگے اڑ نہیں سکتا۔ اسے اڑنے سے پہلے ایک خاص رفتار میں مومنیٹم بنانا پڑتا ہے اور دوڑنے کے بعد ہی اڑ سکتا ہے‘ بالکل ویسے ہی جیسے پرواز سے پہلے ہوائی جہاز رن وے پر دوڑتا ہے۔اس کے بعد میں نے گدھوں کے بارے میں معلومات لیں تو علم ہوا کہ یہ بڑا عجیب و غریب پرندہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے بہت سی حیرت ناک خصوصیات عطا کر رکھی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ یہ پرندہ باقی پرندوں کے برعکس گھنٹوں زمین سے اٹھنے والی گرم ہوا کی لہروں کے اوپر اپنے پروں کو ہلائے بغیر‘ محض پر پھیلا کر گھنٹوں پرواز کر سکتا ہے۔ یہ صرف تین فٹ سائز کے مردار جانور کو سات کلو میٹر دور سے دیکھ سکتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد پرندہ ہے جو مردار کی بُو ایک میل سے محسوس کر سکتا ہے۔ جب گدھ کسی مردار کو دیکھ لیں تو وہ اس کے اوپر فضا میں گول گول چکر لگاتے ہیں جس سے اردگرد اُڑنے والے گدھوں کو خبر ہو جاتی ہے کہ ادھر مردار جانور موجود ہے۔ اللہ نے اسے مردار کے جسم کے اندر سے گوشت اور انتڑیاں نکالنے کے دوران آسانی فراہم کرنے کے لیے گنجا سر اور بغیر پروں کے گردن دی ہے جس کے باعث یہ مردہ جانور کو اندر تک سے صاف کر دیتا ہے‘ جبکہ اس کی طاقتور اور مڑی ہوئی چونچ ہڈیوں سے گوشت اتارنے کے لیے بہت موزوں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کا واحد جاندار ہے جو مردار گوشت کو نہ صرف مکمل طور پر ہضم کر لیتا ہے بلکہ اس کے فضلے میں مردار جانور کے گوشت میں موجود تمام زہریلے مواد ختم ہو جاتے ہیں۔
گدھ کالونی بنا کر رہتے ہیں اور ایشیا میں گدھوں کی سب سے بڑی کالونی ملتان کے نزدیکی قصبے سلارواہن میں تھی جہاں کبھی ان کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں میں تھی۔ اب اس جگہ (تین سال قبل) محض ساٹھ‘ ستر کے قریب گدھ موجود تھے۔ نگرپارکر اور اسلام کوٹ (تھرپارکر) میں ان کی تعداد تین چار سو کے لگ بھگ ہے۔ چھانگا مانگا میں تیس کے قریب گدھ موجود ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں یہ تعداد پچانوے فیصد کم ہوئی ہے۔ گدھوں کے خاتمے کی سائنسی وجہ یہ ہے کہ دودھ دینے والے جانوروں میں دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والے انجکشن Diclofenec کے اثرات جانور میں مرنے کے بعد بھی موجود رہتے ہیں اور ایسے جانور کا مردہ گوشت کھا کر گدھ چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے؛ تاہم ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جہاں ہم لوگ گدھوں کے لیے مردہ جانور ہی نہ چھوڑیں تو بھلا وہاں یہ مردار خور پرندہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اور سچ بھی یہی ہے کہ گدھ تقریباً اس ملک میں ناپید ہو چکے ہیں مگر عشروں سے اب کہیں مردار گائے یا بھینس دکھائی نہیں دی تو اب یہ مردہ جانور کہاں جاتے ہیں؟ ظاہر ہے‘ یہ ہمیں کھلائے جا رہے ہیں۔ جب سے یہ کام انسانوں نے سنبھالا ہے‘ گدھ رخصت ہو گئے ہیں۔ ان کے رخصت ہوتے ہی قدرت کا قائم کردہ ماحولیاتی توازن خراب ہو گیا ہے لیکن کیا کریں؟ جس ملک میں لوگ بھوک سے خود کشیاں کر رہے ہوں اور حکمرانوں کو زندوں کی فکر نہ ہو تو ایسے میں بھلا مردار خور پرندے کی کنزرویشن کی بات کرنا کہاں مناسب ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں