"KMK" (space) message & send to 7575

شہد کی مکھیاں کبھی دیوالیہ نہیں ہوتیں

گِدھوں پر کالم لکھا تو شہد کی مکھیاں یاد آ گئیں۔ اور یہ یاد آنا بھی ایسے ہوا کہ گِدھوں پر لکھتے ہوئے بانو قدسیہ آپا کا ناول راجہ گِدھ بہت یاد آیا۔ یہ ناول خریدا تو تین بار مگر پڑھا بارہا۔ بانو آپا نے اس شاندار ناول میں گِدھ کی مردار خوری کو جس طرح انسان پر منطبق کیا ہے اور رزقِ حرام کے انسانی زندگی پر اثرات کا جو تھیسس پیش کیا ہے‘ وہ دل کو چھو لیتا ہے۔ گِدھوں سے راجہ گِدھ کا خیال آیا اور راجہ گِدھ سے بانو آپا کا ایک نہایت ہی شاندار اور لازوال ناولٹ ''موم کی گلیاں‘‘ یاد آ گیا۔ یہ بھی انسان اور شہد کی مکھیوں کی مشترک عادات و خصائل کے گرد گھومتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کی زندگی کے حوالے سے ایسی باریک بینی سے لکھا گیا ناولٹ شاید دنیا بھر کے ادب میں دوسرا کہیں نہ پایا جاتا ہو۔ ایک بار میں نے اشفاق صاحب سے اس ناولٹ کے بارے میں بات کی تو بتانے لگے کہ مالی مشکلات کے دنوں میں جب وہ اپنا رسالہ ''داستان گو‘‘ نکال رہے تھے تو اس میں بانو قدسیہ ''میر شکاری‘‘ کے نام سے شکاریات پر بھی لکھتی رہتی تھیں۔ موم کی گلیاں انہی دنوں میں لکھا گیا ناولٹ تھا۔
برسوں پہلے کاروان بک سنٹر ملتان کے چچا عمر خان مرحوم سے بانو آپا کا ناول راجہ گِدھ خریدنے گیا تو ان کی کتاب ''چہار چمن‘‘ بھی خرید لی۔ اس میں ان کے چار ناولٹ پُروا‘ ایک دن‘ شہرِ بے مثال اور موم کی گلیاں شامل تھے۔ چند سال ہوئے اس کتاب کی جلد ٹوٹ گئی تو میں نے اپنی طرف سے ایک اچھے جلد ساز سے بنوائی مگر اس جلد کی کوالٹی نے مجھے بہت مایوس کیا۔ کسی زمانے میں ابا جی مرحوم کے پاس ایمرسن کالج کی لائبریری میں ایک گونگا جلد ساز ایسی کمال کی جلد بندی کرتا تھا کہ جی خوش ہو جاتا تھا مگر اب ویسی کاریگری دیکھنے کو بھی نہیں ملتی۔
قارئین! بات کہاں کی کہاں نکل گئی مگر مجھے یقین ہے کہ آپ اب تک میری اس خرابی کے عادی ہو چکے ہوں گے۔ ویسے بھی اگر زندگی سے یادیں نکال دی جائیں تو بھلا باقی کیا بچتا ہے؟
شوکت گجر میرا مطلب ہے شوکت علی انجم نے اینٹامالوجی (Entomology) یعنی علم الحشرات میں ایم ایس سی کی ہوئی ہے۔ اس دوران اس نے ایک مضمون (Apiculture) یعنی مگس بانی بھی پڑھا۔ یہ شہد کی مکھیوں سے متعلق ہے۔ ایک روز اس سے شہد کی اقسام اور اس کی افادیت کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی تو میں نے سنے سنائے روایتی تصور کے مطابق اسے بتایا کہ چھوٹی مکھی کا شہد دراصل بڑی مکھی‘ جسے ہم پنجابی میں ''ڈومنا‘‘ کہتے ہیں‘ سے بہت زیادہ بہتر اور زیادہ افادیت کا حامل ہے‘ میری بات سن کر شوکت ہنس کر کہنے لگا کہ اس معاملے میں بھی تمہارا خیال تمہارے دیگر بہت سے خیالات کی طرح خام اور غلط ہے۔ بلکہ تمہارا ہی کیا‘ ہمارے ننانوے فیصد پڑھے لکھے لوگوں کا خیال شہد کے بارے میں ایک غلط تصور پر قائم ہے۔ شہد کی چھوٹی مکھی جس کا بائی نومیل نام Apis Zonataہے‘ شہد کی بڑی مکھی یعنی Apis Dorsataکے مقابلے میں کہیں کمتر درجے کا شہد بناتی ہے۔ اس بات پر شہد کی مکھیوں پر گفتگو شروع ہو گئی۔ شوکت کہنے لگا: یہ جو چھوٹی مکھی ہے‘ یہ اپنے نزدیک گھوم پھر کر جھاڑیوں‘ پھولوں‘ درختوں اور پودوں سے شہد اکٹھا کرتی ہے یعنی جیسا ملے ویسا اکٹھا کر لیا۔ دوسری طرف ڈومنا ایک دن میں لگ بھگ اسی کلو میٹر کے قریب اُڑ کر اپنی پسند کے پھول‘ کلیاں‘ پھل اور پودے تلاش کر کے ان میں سے نیکٹر اور پولن اکٹھا کرتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ مکھیاں اس اسی کلو میٹر کے سفر میں اپنا چھتہ بھول نہیں جاتیں؟ شوکت ہنسا اور کہنے لگا کہ اگر میں شہد کی مکھیوں کے کام کرنے کا طریقہ اور ان کے آپس میں تقسیم کار کے نظام کی تفصیل بتاؤں تو تم حیران رہ جاؤ گے۔ یہ شہد کی مکھیاں تمہاری طرح ایسے ہی منہ اٹھا کر نہیں چل پڑتیں۔ چھتے میں سے پہلے مکھیوں کا ایک ہراول دستہ‘ جو مکھیوں کے ورکرز گروپ سے تعلق رکھتا ہے‘ پھل پھول کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ یہ مکھیاں اس تلاش کے دوران دن بھر میں اسی کلو میٹر تک کا سفر کرتی ہیں۔ تم نے پوچھا کہ یہ واپس کیسے آتی ہیں؟ یہ مکھیاں چھتے سے چلتے وقت اپنے جسم سے ایک مخصوص خوشبو فضا میں چھوڑتی جاتی ہیں اور پھر اسی خوشبو کی مدد سے واپس چھتے تک پہنچتی ہیں۔ جب یہ مکھیاں شہد کی تیاری میں استعمال ہونے والے پھولوں کا کوئی ذخیرہ دیکھ لیتی ہیں تو واپس اپنے چھتے میں آ جاتی ہیں اور ورکرز مکھیوں کو بتاتی ہیں کہ انہیں نیکٹر اور پولن کے حصول کیلئے پھول مل گئے ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا یہ مکھیاں آپس میں بات چیت کرتی ہیں؟ شوکت کہنے لگا: ورکر مکھیاں واپس آ کر دوسری ورکرز مکھیوں کو جنہیں Foragers کہتے ہیں‘ کو ڈانس کے ذریعے بتاتی ہیں کہ انہیں مطلوبہ پھل پھول مل گئے ہیں۔ میں نے کہا: لو نویں سنو! اب مکھیاں ڈانس بھی کرنے لگ گئی ہیں۔ شوکت کہنے لگا: اس ڈانس کو waggle dance کہا جاتا ہے اور مکھیاں اسے آٹھ کے ہندسے کی شکل میں ڈانس کرکے دوسری مکھیوں کو سمجھاتی ہیں۔ اس ڈانس میں مختلف حرکات‘ رفتار اور آٹھ کے سائز کے ذریعے پھولوں کی مقدار‘ معیار اور دوسری ضروری اطلاعات فراہم کرتی ہیں۔ پھر ورکر مکھیوں کی فوریجر قسم ان پھولوں سے نیکٹر اور پولن اکٹھا کر کے چھتے میں لاتی ہے اور اسے چھتے میں بنے ہوئے خانے میں رکھ کر اس کا منہ بند کر دیتی ہے۔ اس نیکٹر اور پولن یعنی امرت اور زرگل میں Fermentation یعنی خمیر اٹھتا ہے اور یہ شہد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ شہد کی مکھی کی کالونی یعنی چھتے میں سب سے اہم اور حیران کن کردار ملکہ مکھی کا ہے۔ صرف یہی مکھی ایسے انڈے دیتی ہے جو بار آور ہوتے ہیں۔ سارا چھتہ اور اس کی آبادی صرف ملکہ کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ ملکہ سے جنسی ملاپ کیلئے چھتے میں ڈرون یعنی نکھٹو ہوتے ہیں جو ملکہ کی چھتے سے پرواز کے دوران اس سے ملاپ کرتے ہیں۔ ملکہ واپس آ کر شش پہلو خانوں میں انڈے دیتی ہے۔ چھتے اور مکھیوں کی نسل کی بقا کی خاطر ورکرز مکھیاں ان انڈوں سے نکلنے والے لارووں میں سے چند کو نئی ملکہ کے طور پر تیار کرنے کیلئے انہیں رائل جیلی کھلاتے ہیں۔ ملکہ مکھی ان متوقع ملکاؤں کی زندگی کی دشمن ہوتی ہے اور انہیں تلاش کر کے مار دیتی ہے۔ دوسری طرف Honey Bee Keeper انہیں ملکہ سے بچانے میں لگی رہتی ہیں۔ اقتدار‘ جانشینی اور بقائے حکمرانی کی اس جنگ میں بچ جانے والی نئی ملکہ مکھی اس چھتے سے اپنے ساتھ وفادار مکھیوں کا ایک جتھہ لے کر نئے چھتے کے قیام کیلئے روانہ ہو جاتی ہے۔ چھتے کا اقتدار تقسیم ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا آ رہا ہے اور سدا چلتا رہے گا۔
میں نے کہا: اقتدار سے محبت‘ متوقع لیڈر شپ کو ختم کرنے کی جبلت اور اقتدار کی خاطر چھتے کو تقسیم کرنے کی عادت کے معاملے میں ہم لوگ ابھی تک شہد کی مکھیوں کی حیوانی جبلت سے آگے نہیں نکل سکے اور اپنے سیاسی حریفوں کو ہر ممکن طریقے سے ختم کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ شوکت کہنے لگا: شہد کی مکھیوں کی زندگی کی کہانی حقیقت میں بہت انسپائرنگ ہے‘ بقیہ تفصیل کبھی پھر سہی‘ تاہم شہد کی مکھیاں تقسیم کار پر بڑی سختی سے عمل کرتی ہیں۔ چھتے کا چوکیدار کبھی ملکہ بننے کی اور نکھٹو کبھی فوریجر بننے کی حماقت نہیں کرتے‘ یہی وجہ ہے کہ انسان ان کے چھتے سے شہد نکالتا رہتا ہے مگر لٹنے پٹنے کے باوجود شہد کی مکھیوں کو نہ تو دیوالیہ پن کا خدشہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کبھی دیوالیہ ہوتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں