"KMK" (space) message & send to 7575

چودھری پرویز الٰہی کی دوسری وزارتِ اعلیٰ

قارئین میری بات سے اختلاف کر سکتے ہیں تاہم میرے ذاتی مشاہدے کے حساب سے گزشتہ چار عشروں کے دوران پنجاب میں سب سے بہتر حکومت پرویز الٰہی نے کی ہے۔ اگر میں پنجاب میں گڈگورننس‘ اداروں کی فعالیت اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے وزرائے ا علیٰ کی رینکنگ کروں تو میں پرویز الٰہی کو پہلا نمبر دوں گا۔ یہاں تک تحریر پڑھتے ہوئے اگر آپ کو مجھ پر تپ چڑھ رہی ہے تو میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے چودھری پرویز الٰہی کو اپنی رینکنگ میں جو پہلا نمبر دیا ہے وہ ان کے پہلے دورِ حکومت کا ہے۔ ان کا حالیہ دور ِحکومت اس رینکنگ میں نیچے سے دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ پہلا نمبر بہرحال ہمارے عزیز دوست سردار عثمان بزدار کا ہی بنتا ہے۔
چودھری پرویز الٰہی کے پہلے دور کا جائزہ ان کی بطور وزیراعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر لیا ہے تاہم مجھے تب بھی ان کے جنرل پرویز مشرف کو دس بار باوردی صدر بنانے والے بیان سے شدید اختلاف تھا اور یہ گانٹھ نہ صرف اب تک اس عاجز کے دل میں موجود ہے بلکہ تا عمر رہے گی لیکن اس اصولی اختلاف سے قطع نظر ان کا وہ والا دورِ حکومت کم از کم ملتان کے حوالے سے تو بہت ہی روشن تھا۔ ملتان میں کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے نہ صرف یہ کہ سارا جنوبی پنجاب مستفید ہو رہا ہے بلکہ کے پی میں سے ڈیرہ اسماعیل خاں‘ بنوں اور قبائلی علاقوں سے اور بلوچستان سے لورالائی اور ژوب تک کے دل کے مریض اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ملتان میں برن یونٹ کا قیام‘ نشتر کالج آف ڈینٹسٹری‘ چلڈرن کمپلیکس اور نشتر ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ بنوانے کے علاوہ پورے پنجاب کے حوالے سے ریسکیو 1122 کا قیام‘ ہائی وے پولیس اور شہروں میں ٹریفک وارڈنز پر مشتمل ٹریفک پولیس جیسا شاندار نظام قائم کیا۔ پاکستان میں کافی عرصے کے بعد کسی نے نئے ادارے قائم کئے اور ادارے بھی ایسے جن سے عوام الناس کو براہ راست سہولت اور آسانی میسر آئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ چودھری پرویز الٰہی سیاسی داؤ پیچ سے قطع نظر بالکل عام سی سوجھ بوجھ اور آئی کیو کے حامل ہونے کے باوجود پنجاب میں اپنی حکومت کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے اپنی اوسط درجے کی انتظامی صلاحیت کو ایک اچھی ٹیم کی مدد سے بہترین نتائج دینے والی حکومت میں بدل دیا۔ انہوں نے ایک شاندار انتظامی ٹیم کا نہ صرف یہ کہ انتخاب کیا بلکہ اپنی ٹیم کو پورے اختیارات بھی دیئے۔ اس ٹیم نے ان کے اعتماد کی لاج رکھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کے پہلے دورِ حکومت کے بارے میں ان کے مخالفین بھی رطب اللسان نہ سہی‘ مگر اس میں کیڑے بھی نہیں نکال سکے۔ لیکن اس بار تو انہوں نے بری گورننس کا وہ معیار قائم کیا کہ اس کا صرف عثمان بزدار کے دورِ حکومت سے موازنہ کر کے انہیں نیچے سے دوسرا نمبر دیا جا سکتا ہے۔
میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ شاہ جی! ایسی بلندی اور ایسی پستی کے پس پردہ کیا عوامل ہیں؟ کہاں اتنی اچھی بلکہ شاندار گورننس اور کہاں اتنی بری انتظامی صورتحال۔ ان چند سالوں میں آخر ایسا کیا ہوا کہ چرخِ گردوں نے انہیں فلک سے زمین پر دے مارا۔ جب ایسے مشکل سوالات ذہن ناہنجار میں کلبلائیں تو یہ عاجز شاہ جی سے رابطہ کرتا ہے جو اپنی طبیعت اور کیفیت کے مطابق جواب دے دیتے ہیں۔ اگر ان کی طبیعت جلال پر مائل ہو تو ہم کنارہ کر لیتے ہیں وگرنہ ان کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کر کے بیٹھتے ہیں اور بطور طالب علم ان سے سوال کر کے جواب اور من کی مراد پا لیتے ہیں۔
شاہ جی سے پوچھا کہ اب کی بار چودھری پرویز الٰہی کی حکومت میں اس کرنٹ کا عشر عشیر بھی دکھائی نہیں دے رہا جو اُن کی اولین حکومت کے دوران دکھائی دیتا تھا تو شاہ جی کہنے لگے: اس کی چار بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ تب ان کو مرکز میں بیٹھے ہوئے پرویز مشرف کی سو فیصد حمایت اور آشیر باد حاصل تھی جس سے وہ اس بار محروم ہیں کہ مرکز میں اب ان کے مخالف شہباز شریف مسند آرائے سلطنت ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انہیں علم ہے کہ وہ اب اپنی سیاسی زندگی کی آخری بڑی پوسٹ پر متمکن ہیں اور اب وہ دوبارہ کبھی بھی وزیراعلیٰ پنجاب وغیرہ نہیں بن پائیں گے اس لئے وہ ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کے فارمولے کے مطابق حکومت کرنے سے زیادہ عیش کرنے میں مگن تھے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کے پہلے دورِ حکومت میں ان کا فرزند ارجمند مونس الٰہی اتنا اتھرا اور جاہ طلب نہیں تھا اور چوتھی اور آخری وجہ یہ ہے کہ تب ان کی ٹیم کی سربراہی جی ایم سکندر اور یوسف نسیم کھوکھر جیسے منجھے ہوئے تجربہ کار بیورو کریٹ کر رہے تھے جو نہ صرف یہ کہ ان کی سوچ سے بڑھ کر عمدہ منصوبے بناتے تھے بلکہ انہیں عملی جامہ بھی پہناتے تھے اور اب یہ عالم ہے کہ ان کی حکومتی اور انتظامی لگامیں محمد خان بھٹی جیسے فارغ ''پرموٹی‘‘ کے ہاتھ میں تھیں جو ویژن کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیتوں سے بھی عاری تھا۔ اب آپ خود بتاؤ کہ جو بندہ 1987ء میں محکمہ زراعت میں ساتویں گریڈ میں کلرک بھرتی ہونے کے بعد سفارش کے دھکوں کے طفیل 1997ء میں پنجاب اسمبلی میں بطور کیئر ٹیکر سپلائی کیا جائے اور پھر وہ براستہ بٹھنڈہ بائیسویں گریڈ میں پہنچا ہو بھلا وہ شخص باقاعدہ میرٹ اور قانونی طریقہ کار کے ذریعے سول سروس میں آنے اور ترقی پانے والے حقیقی بیورو کریٹس سے کیسے کام لے سکتا ہے اور اپنی بات منوا سکتا ہے؟ عالم یہ ہے کہ ہماری نوکر شاہی میں سی ایس ایس کر کے آنے والے افسران تو صوبائی سروس والے پی سی ایس کرنے والے اپنے ہم درجہ افسران کو اپنا ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں سمجھتے اور بقول فیاض احمد سی ایس ایس افسران خود کو نوری اور پی سی ایس افسران کو خاکی مخلوق سمجھتے ہیں ایسے میں ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ سات میں بھرتی ہو کر چودھری پرویز الٰہی کے دھکوں اور مہربانیوں سے گریڈ بائیس میں پہنچ بھی جائے تو بھلا ایسے بندے کی ذہنی سطح اور انتظامی صلاحیتیں کتنی صیقل ہو جائیں گی؟ محمد خان بھٹی چودھری پرویز الٰہی اور ان کے برخوردار کا ایک کارندہ تھا اور بس ۔ ایسے پرنسپل سیکرٹری کے ہوتے ہوئے ان کی حکومت کی کارکردگی ایسی ہی ہونی تھی۔ اس میں حیرانی یا پریشانی کی کیا بات ہے؟
دروغ برگردن راوی‘ اس بار تو چودھری صاحب دراصل '' ہز ماسٹرز وائس‘‘ والے فارمولے کے تحت وزیراعلیٰ تھے۔ ان کے سارے انتظامی‘ سیاسی اور خاندانی فیصلے صرف ان کے برخوردار کی اجازت اور منشا کے تابع تھے۔ چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کے درمیان بھلا اور کیا جھگڑا ہو سکتا تھا؟ وجہ اختلاف اگلی نسل میں سیاسی قیادت اور جانشینی کا پھڈا تھا۔ ہمیں تو اس جھگڑے کے بعد علم ہوا کہ چودھری پرویز الٰہی دراصل چودھری شجاعت سے عمر میں بھی بڑے ہیں وگرنہ ہم تو ہمیشہ چودھری شجاعت کو ہی بڑا سمجھتے رہے تھے۔ اصل میں چودھری ظہور الٰہی کی سیاسی لڑی کے وارث ان کے بیٹے چودھری شجاعت ٹھہرے اور چودھری پرویز الٰہی ان کی قیادت کو دل سے تسلیم کرتے رہے لیکن جب تیسری نسل کی باری آئی اور سیاسی کھڑپینچی سالک حسین یا شافع حسین کے بجائے مونس الٰہی نے ہتھیا لی تو پھر بات بگڑ گئی۔ مال اور اولاد اس دنیا میں باعثِ فتنہ و فساد ہے سو یہ بات سچ ثابت ہوئی اور صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ شاہ جی یہ سارا قصہ سنانے کے بعد کہنے لگے: تم لاہور گئے تھے تو کیا تم بھی لاہور میں کھلنے والی نئی کافی شاپ کی اس قطار میں کھڑے تھے جس پر سوشل میڈیا میں بڑی لعن طعن ہو رہی ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی اس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے ابھی مجھے چودھری پرویز الٰہی کی دوسری اور ناکام حکومت والی بات ہضم کرنے دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں