"KMK" (space) message & send to 7575

ایک مزید بے فائدہ کالم

اگر مجھے اپنے لکھے پر مالک کائنات کی جوابدہی اور روزِ حساب کی پکڑ کا خوف نہ ہوتا تو اس فقیر کو بہت سی آسانیاں‘ سہولتیں اور مراعات میسر ہوتیں‘ مگر اس کی کرم نوازی ہے کہ اس نے ابھی تک اس عاجز کو کسی حد تک راہ راست پرچلنے کی توفیق عطا کر رکھی ہے وگرنہ ہم کمزور کس قابل تھے کہ فی زمانہ دنیا داری کی بہتی گنگا سے اپنا دامن تر ہونے سے بچا پاتے۔ وہ عالم الغیب دلوں کے حال اور نیتوں کو پہچانتا ہے اور استقامت عطا کرتا ہے۔
آپ یقین کریں کبھی کبھی تو کسی معاملے پر زیادہ بار لکھنا پڑ جائے تو دل ہی دل میں خیال آتا ہے کہ کہیں قارئین اس تسلسل کے پیچھے کسی ذاتی مفاد یا عناد کا خیال دل میں نہ لے آئیں‘ کوئی یہ نہ سوچے کہ آخر اس معاملے پر یہ کالم نگار قلم کا لٹھ لے کر کسی کے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے‘ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ معاملہ اجتماعی مفاد کا ہو یاعوامی بھلائی کا ‘ مسئلہ مخلوقِ خدا کی مشکلات کا ہو یا اہل ِشہر کی تنگی کا ۔ اگر حکمرانوں کو‘ اہلِ اقتدار کو اور عوامی نمائندوں کو اس کا خیال نہیں آ رہا تو انہیں جگانے کیلئے بار بار لکھنے میں کیا مضائقہ ہے؟
بات تو ملتان شہر کی ہے مگر بھلا ملتان کون سا مریخ پر واقع ہے کہ وہاں کچھ انوکھا اور علیحدہ ایسا کچھ ہو رہا ہے جو دیگر شہروں میں نہیں ہو رہا۔ قانون بے بس ہے‘ سرکاری ادارے دھنیا پی کر سو رہے ہیں‘ اور یاد رہے کہ یہ دھنیا انہیں بصورتِ رشوت مل رہا ہے جسے وہ پی رہے ہیں اور سو رہے ہیں۔ شہر برباد ہوتا جا رہا ہے۔ آپ یقین کریں ہم تو اب اس صورتحال کے عادی ہو چکے ہیں اور کسی نہ کسی طور زندگی گزار ہی رہے ہیں لیکن لکھ اس لئے رہے ہیں کہ اگر یہی حالات رہے تو سب کچھ جلد یا بدیر ناقابلِ گزارا ہو جائے گا۔ ہماری تو خیر ہے‘ کسی طور گزر جائے گی لیکن یہ فکر لاحق ہے کہ ہم اگلی نسل کو کیا دے کر جائیں گے؟ اداروں نے اول تو چند ٹکوں کی خاطر ہر سڑک اور ہر گلی ہی کمرشل کر دی ہے اور جو بچ گئی ہیں ان پر لوگ بلا اجازت یا مک مکا کر کے دکانیں‘ پلازے اور مارکیٹیں بنا رہے ہیں۔ اول تو اس ساری ناجائز تعمیر کے دوران کوئی سرکاری ادارہ انہیں پوچھتا ہی نہیں اور اگر آ جائے تو اہلکار اپنی جیب گرم کر کے آنکھیں بند کرلیتا ہے اور واپس چلا جاتا ہے۔ جب ساری تعمیر مکمل ہو جاتی ہے تب معمولی سا جرمانہ کر کے اس دکان ‘ پلازے یا مارکیٹ کو غیر قانونی سے قانونی کر دیا جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ معاملہ ختم۔
ملتان کی ہر سڑک اور ہر گلی باقاعدہ مارکیٹ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چند روز ہوتے ہیں میں زکریا ٹاؤن کی طرف سے گھر آ رہا تھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور گھر کی دیوار گرائی جا رہی ہے اور اس دیوار کے پیچھے مزید چار عدد دکانیں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ بوسن روڈ سے میرے گھر تک کی گلی کے درمیانی چار سو میٹر کے فاصلے میں بائیں طرف ستر کے لگ بھگ اور دائیں طرف کم و بیش پچیس دکانیں ہیں‘ یعنی فی الوقت اس آدھ کلو میٹر سے کم فاصلے پر تیس فٹ چوڑی سڑک پر سو کے قریب دکانیں ہیں جس خریدار کا دل کرتا ہے جہاں چاہتا ہے گاڑی روکتا ہے اور خریداری کیلئے دکان میں چلا جاتا ہے۔ اول تو کوئی ہارن سنتا ہی نہیں‘ اگر اُتر کر کسی سے بات کریں تو وہ مرنے مارنے پر تل جاتا ہے۔ گھر تک پہنچنا گویا پل صراط پار کرنے کے مترادف ہے اور اس سے کسی طور مفر بھی ممکن نہیں‘ بندہ کیا کرے اور کہاں جائے؟
قانون موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد عرصہ ہوا بند ہو چکا ہے۔ ادارے ریاستی رِٹ یا قانون نافذ کرنے سے عاری ہو چکے ہیں اور معاملات ان اداروں کے کارپردازان کی مرضی کے تابع ہیں کروڑوں روپے کے سرکاری واجبات چند لاکھ کے عوض مک مکا کی نذر ہو رہے ہیں۔ ملتان میں ایک بڑی ہاؤسنگ سکیم کی سرکاری فیس بیالیس کروڑ بنتی تھی اور معاملہ نوکروڑ میں طے ہو رہا تھا کہ کسی شرپسند نے اس ڈیل کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور اس ہاؤسنگ سکیم کا سارا رقبہ گوگل ارتھ کے ذریعے ناپ کر سرکاری فیس نکالی تو وہ بجائے بیالیس کروڑ کے ستر کروڑ کے لگ بھگ نکل آئی کیونکہ اسی دوران اسی ہاؤسنگ سکیم نے مزید زمین بھی اپنے پراجیکٹ میں شامل کر لی تھی۔ معاملہ بگڑتا دیکھ کر نوکروڑ والی ڈیل کینسل ہو گئی اور اب مجبورًا ستر کروڑ والی فیس ہی مانگی گئی ہے اگر درمیان میں پھڈا نہ پڑتا تو سرکار کو اکسٹھ کروڑ روپے کاٹیکہ لگ گیا تھا۔
یہ ملتان شہر کی بہت سی کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے لیکن یہ ہر شہر کی کہانی ہے۔ شہر کا نقشہ ہی بدل چکا ہے اور یہ سب کچھ سرکاری اداروں اور قانون کی موجودگی میں ہوا ہے‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی کو اس بربادی کا احساس ہی نہیں اور شہر بتدریج ناقابلِ رہائش ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی تو شکر ہے کہ ملتان بربادی کی اس رفتار میں بڑے شہروں سے کسی قدر پیچھے ہے وگرنہ بڑے شہروں میں ناجائز تجاوزات‘ غیر قانونی تعمیرات اور بے تحاشا کمرشلائزیشن اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ملتان شہر غنیمت لگتا ہے‘ لیکن اب بھی اگر اس کو کنٹرول نہ کیا تو معاملات ناقابلِ اصلاح حدتک خراب ہو جائیں گے۔ کراچی سے برادرم رستم لغاری نے ایک کتاب بھیجی ہے جس کا نام ہے ''اس دشت میں اک شہر تھا‘‘ یہ کراچی کی کہانی ہے اور ایسی دردناک کہ اسے پڑھ کر رونے کو جی کرتا ہے۔ جب میں اپنے شہر میں تعمیرات کے سلسلے میں ہونے والی مسلسل قانون شکنی سے اس شہر کا مستقبل بھی کراچی جیسا ہونے کا سوچتا ہوں تو اس خیال سے ہی ڈر جاتا ہوں۔
گزشتہ دنوں ہونے والے تبادلوں کے سلسلے میں ایک بڑا انتظامی افسر اپنے آخری روز شہر میں دو عدد نئی منڈیوں کے اجازت نامے جاری کرنے کے عوض مبینہ طور پر ساڑھے تین کروڑ روپے کی دیہاڑی لگا کر چلا گیا۔ یہ تو نمونے کے طور پر دیگ سے ایک آدھ چاول کی مثال دی ہے وگرنہ صورتحال یہ ہے کہ ساری کی ساری دیگ ہی اسی قسم کی ہے۔ ریاست کی کسمپرسی ہے کہ ہر آنے والا دن اس میں ا ضافہ کر رہا ہے اور قانون ہر روز بے توقیر اور متروک شے میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔
شہر بھر میں ہونے والی بے تحاشا تجاوزات کے سلسلے میں بات کرنے کیلئے میں نے ایک بڑے انتظامی افسر کے پی آر او کو فون کیا اور صاحب سے ملاقات کا عندیہ دیا۔ پی آر او کہنے لگا: سر جی! آپ کو تو پتا ہے کہ آج کل بڑی بے یقینی اور تذبذب کی صورتحال ہے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کب ٹرانسفر ہو جائے۔ ایسے میں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ میں نے کہا کہ آپ اور آپ کا صاحب اس بے یقینی کے موسم میں بھی تنخواہ لے رہے ہیں؟ کہنے لگا :جی لے رہے ہیں‘ پھر پوچھا کہ اس تذبذب میں بھی آپ اوپر والا مال پانی لے رہے ہیں؟ جواباً دوسری طرف سے کوئی آواز نہ آئی میں نے خدا حافظ کیا اور فون بند کر دیا۔
گزشتہ سال ایک ڈپٹی کمشنر کو ضلع کچہری کے عین سامنے والی سڑک پر بنائے گئے وکلا کے موٹر سائیکل سٹینڈ اور کار پارکنگ کے بارے میں کچھ کرنے کے کہا تو وہ نہایت ہی بے بسی سے کہنے لگا کہ اس ڈپٹی کمشنر آفس کا رقبہ کاغذوں میں سولہ کنال ہے مگر اس وقت میرے پاس چار کنال سے کم زمین ہے باقی پر وکلانے قبضہ کر رکھا ہے۔ آپ مجھ سے کیا امید کرتے ہیں؟ افسروں کی لاپرواہی اور بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ڈی پی او کے گھر کے عین سامنے ایک پلازہ زیرتعمیر ہے اور اس کے کنٹریکٹر نے فٹ پاتھ پر کنٹینر رکھ کر اپنا ایڈمن آفس بنا رکھا ہے۔ ایک ہوٹل ہے جس نے اپنا بیریئر سرکاری فٹ پاتھ پر بنایا ہوا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او روزانہ کم از کم دو بار وہاں سے گزرتے ہیں مگر کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا مجھے علم ہے یہ کالم بے فائدہ ہے
مگر میں بھی لکھنے سے باز نہیں آؤں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں