"KMK" (space) message & send to 7575

پریوں کی داستان جیسا محل

گزشتہ کالم لکھتے وقت مسئلہ یہ ہوا کہ لکھنے کا ارادہ کچھ اور تھا لیکن خیال کا پنچھی قلم کو گھسیٹ کر کہیں اور لے گیا۔ارادہ تھا کہ ویانا کے تین عدد محلات کا تذکرہ کروں گا مگر بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ تاہم میں اب بھی اپنے تجزیے پر قائم ہوں کہ ہمارے ہاں کے محلات اور قلعوں کا معیار ہر گز وہ نہیں جو یورپ میں ہے ۔پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا قابلِ ذکر محل اور قلعہ ہو جسے مسافر نے نہ دیکھا ہو۔ اسی طرح مسافر نے یورپ کے بہت سے قلعے اور محلات دیکھنے کے بعد ہی جو نتیجہ نکالا اس کا اظہار گزشتہ کالم میں کیا تھا۔
ظاہر ہے برج خلیفہ کا موازنہ قطب مینار سے نہیں کرنا چاہئے؛ تاہم بالکل ایک ہی دور کی عظیم الشان سلطنت کے حکمرانوں کی تعمیرات کا موازنہ دوسری سلطنت کے بادشاہ کی تعمیرات سے کیا جائے تو اس کا منطقی جواز بنتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ پاکستان میں موجود محلات میں شاید سب سے بہتر ریاست بہاولپور کے محلات ہیں۔اس بات سے قطع نظر کہ ان میں سے اکثر محل اب پاک فوج کے پاس ہیں اور ان کی تزئین و آرائش اور ہمہ وقت کی دیکھ بھال نے ان کی حالت بگڑنے نہیں دی اور وہ اب بھی اسی حالت میں ہیں جیسا کہ وہ شاید نواب صاحبان کے دور میں ہوں گے۔ ان محلات کی تعمیر نواب صادق محمد خان رابع (چہارم) اور نواب صادق محمد خان خامس (پنجم) کے دور میں ہوئی۔ ان میں فرخ محل‘ نشاط محل‘ گلزار محل‘ نور محل اور صادق گڑھ پیلس شامل ہیں۔ ان محلات میں سب سے شاندار تو بہرحال صادق گڑھ پیلس ہی ہے لیکن یہ محل خاندانی تنازعات کی بنا پرعشروں سیل رہا اور معاملہ عدالت میں چلتا رہا؛ تاہم اس دوران اس سربمہر محل سے ہر وہ چیز چوری ہو گئی جو چوری ہو سکتی تھی۔ اس میں محل کے دعویدار وارثوں سے لیکر محل کی حفاظت پر مامور سرکاری اہلکار اور محکمے سبھی شامل تھے۔ ایسی ایسی نایاب اور نادر اشیاچوری ہو گئیں جو تاریخی ورثہ تھیں۔ فانوس‘ قالین‘ اسلحہ‘ قیمتی ظروف‘ نوادرات اور فرنیچر غرض ہر ممکنہ چیز چوری کر لی گئی۔ عدالتی فیصلے کے بعد جب محل کو باقاعدہ طور پر ''ڈی سیل‘‘کیا گیا تو اندر صرف وہی چیزیں پڑی تھیں جنہیں اٹھانا ممکن نہیں تھا یا جنہیں کسی نے اٹھانا گوارہ ہی نہیں کیا تھا۔
صادق گڑھ پیلس اور نور محل کا طرزِ تعمیراٹلی کے محلات سے مشابہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان محلات کا سارا ڈیزائن نواب صادق محمد خان خامس کے انگریز سٹیٹ انجینئر Mr. Heenanنے بنایا تھا اور 1870ء کے بعد تعمیر ہونے والے ان محلات میں یورپی طرزِ تعمیر کے ساتھ طرزِ رہائش‘ آسائش اور آرائش کا وہی انداز رکھا گیا جو یورپ کے محلات میں رائج تھا۔ ویسے ہی اٹالین طرز کے ہشت پہلو گنبد جن کے آخر میں نوک کے بجائے لوہے کا آرائشی جنگلہ اوردرمیان میں لوہے کی پتلی برجی ہے۔ ریاست بہاولپور کی بیشتر عمارتیں مختلف طرزِ تعمیرات کے حسین امتزاج سے بنائی گئی ہیں جس میں مقامی‘ اسلامی‘ سکھ اور یورپی طرز تعمیر نمایاں ہے۔ بہاولپورکی سنٹرل لائبریری‘ بہاول وکٹوریہ ہسپتال کی پرانی عمارت‘ نور محل اور صادق گڑھ پیلس میں ستون Baluster (کنگورے اور باڑ) اور Pediments(یونانی طرزِ تعمیر میں استعمال ہونے سہ رخی سنتوری) صاف ظاہر کرتی ہیں کہ یہ عمارتیں یورپی طرز تعمیر سے کسی حد تک متاثر ہیں‘ جبکہ دو سب سے خوبصورت محل یعنی صادق گڑھ پیلس اور نور محل کی ساری شکل و شباہت اطالوی محلات (Italian chateau) اور یونانی Corinthian جیسی ہے۔
برسوں پہلے جب میں پیرس کے نواح میں شہرہ آفاق ورسائی پیلس دیکھ کر آیا تو میں نے ایک دوست سے مغل حکمرانوں کی رہائشی صورتحال کا کسمپرسانہ نقشہ بیان کیا تو اس نے کہا کہ افغانستان سے بھی کہیں آگے بلادِ ماوراالنہر اور دریائے آمو کے پار سے آنے والوں سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں؟ان کیلئے یہی بہت تھا جو تم دیکھ رہے ہو۔ ویانا میں تین محلات بڑے شاندار ہیں۔ ایک شون بِّرن (Schönbrunn Palace)‘ دوسرا بیلویڈیئر پیلس (Belvedere Palace) اور تیسرا ہوفبرگ پیلس ہے۔
شون برن پیلس اسی وقت تعمیر ہوا جب لاہور کے شاہی قلعے میں شاہ جہان اپنے لئے خواب گاہ تعمیر کروا رہا تھا۔ اب بندہ کیا موازنہ کرے؟ بمشکل پندرہ فٹ ضرب پندرہ فٹ پر مشتمل دو تین کمرے جن کے دروازے تک نہ تھے اور ان پر پردے لٹکا کر باہر خواجہ سرا کھڑے کر دیے جاتے تھے کہ کوئی بدنظر خواب گاہ میں تانک جھانک نہ کر سکے۔ ساتھ متصل حمام کے نام پر ایک پانچ ضرب پانچ فٹ کا چار فٹ گہرا چوبچہ ٹائپ گڑھا جسے بندہ تالاب یا پول جیسا معزز نام بھی نہیں دے سکتا۔ یہ خواب گاہ 1634ء میں تعمیر ہوئی جبکہ شون برن پیلس اس کے محض چار سال بعد 1638ء میں مقدس رومن سلطنت کے حکمران فرڈیننڈ دوم کی بیوہ مقدس ملکہ رومن سلطنت و ملکہ جرمنی‘ ہنگری و بوہیمیا ایلیو نورا گونزاگا نے شروع کروائی۔ چار سو ایکڑ پر پھیلا ہوا یہ محل ملکہ میریا تھریسا کو بادشاہ سے شادی پر بطور تحفہ ملا اور اس نے 1740ء سے 1750ء کے درمیان اس کی تزئین و آرائش کے علاوہ اس میں توسیع و اضافہ کرکے ایک بے مثل محل میں بدل دیا۔ اس محل کو بہرحال ایک دن میں دیکھنا تو کسی طور ممکن ہی نہیں۔ کمرے‘ برآمدے‘ہال‘ راہداریاں‘ فوارے‘ مجسمے‘ جھیلیں‘ باغ اور عقب میں پہاڑیاں۔ باغیچے ایسے شاندار اور رنگ بھرے پھولوں سے اَٹے ہوئے کہ پہلے پہل کسی تصویر کا شبہ پڑتا ہے اور فواروں کے تالاب اور ان میں مجسمے ایسا نقشہ بناتے ہیں کہ پریوں کی کہانیوں والے محل کا گمان ہوتا ہے۔ فرنیچر ایسا خوبصورت اور شاندار کہ ہاتھ لگانے کو دل نہ کرے( ویسے کوئی ہاتھ لگانے بھی نہیں دیتا) مزے کی بات یہ کہ اس محل میں موجود فرنیچر بعد میں بنا کر رکھے گئے نقلی فرنیچر کے بجائے ہابسبرگ حکمرانوں کے زیر استعمال اصل فرنیچر پر مشتمل ہے۔ محل کی ساری دیواریں اور چھتیں بیل بوٹوں کے ڈیزائن سے مزین اوپر سے پینٹنگز ایسی کہ کسی آرٹ میوزیم کا گمان ہو۔1441کمروں میں سے پبلک کیلئے صرف 45کمرے دیکھنے کیلئے کھلے ہیں۔ گیارہ دروں پر مشتمل گلوریٹ دراصل آسٹرین سکسیشن اور سیون ایرز وار کی یاد میں محل کے پیچھے پہاڑی پر ہے جہاں جانے کیلئے پندرہ بیس منٹ پیدل چلنا پڑتا ہے مگر جب آپ تھکے ماندے اس جگہ پہنچتے ہیں تو وہاں سے دکھائی پڑنے والا منظر ساری تھکاوٹ دور کر دیتا ہے۔
یہ محل نپولین بونا پارٹ نے بذات خود 1805ء اور 1809ء میں دوبار اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا۔ 1762ء میں شہرہ آفاق موسیقار موزارٹ نے چھ سال کی عمر میں اس محل میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس محل کی آرائش‘ تزئینِ نو اور توسیع و تعمیر میں دوخواتین کا بہت بڑا حصہ ہے۔ملکہ میریا تھریسا اور بادشاہ فرانز جوزف کی بیوی ملکہ الزبتھ عرف سپسی نے اس محل کی شکل ہی بدل کر رکھ دی۔ ملکہ الزبتھ عرف سپسی کو آسٹریا کے لوگ برطانیہ کی شہزادی ڈیانا سے تشبیہ دیتے ہیں جو اسی کی طرح آزاد دنیا میں زندگی گزارنا چاہتی تھی مگر محل کے حوالے کردی گئی۔ انقلابِ فرانس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ بننے والا فرانس کے بادشاہ لوئی شانزدہم کی ملکہ میری اینٹوئینٹ کا ایک جملہ بھی ہے کہ ''اگر لوگوں کو روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘؟ میری اینٹوئینٹ ملکہ میریا تھریسا کی بیٹی تھی جو اسی محل میں پیدا ہوئی۔ میریا تھریسا کے بارے میں خواجہ نے بتایا کہ اس کے پینتیس بچے تھے مگر میں نے اس پر فوری یقین کرنے سے انکار کر دیا کہ ملکہ کی کل ازدواجی زندگی تیس سال پر مشتمل تھی؛ تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ملکہ کے صرف سولہ بچے تھے۔ خاوند کی وفات کے بعد ملکہ ایک مصروفیت سے فارغ ہوئی تو جنگوں میں مصروف ہو گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں