"KMK" (space) message & send to 7575

معاشی میدان میں لگا ہوا بلند جھنڈا

دس بارہ سفارشیوں اور لاتعداد منتوں‘ ترلوں کے بعد آئی ایم ایف سے مبلغ تین ارب ڈالر کا قرضہ لینے کے بعد ہمارے پیارے وزیراعظم جناب شہبازشریف کا بیان ہے کہ ''ہم ہمسایہ ملک کو معاشی میدان میں شکست دیں گے‘‘ جبکہ معاشی حالت کا عالم یہ ہے کہ ہمیں آہستہ آہستہ معلوم ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں کامیابی کے پیچھے اسحاق ڈار کی محنت‘ شہبازشریف صاحب کی منت سماجت‘ شیری رحمان و مریم اورنگ زیب کی دعاؤں اور امریکی حکومت کی مدد کے ساتھ ساتھ خود دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکا کی سفارش بھی شامل تھی۔ وزیراعظم صاحب کو معاشی میدان میں مقابلہ بھی اس وقت یاد آیا ہے جب ہمسایہ ملک نے چاند تسخیر کرنے کیلئے چندریان 3نامی خلائی جہاز چھوڑا ہے۔ یاد رہے کہ ہم بدقتِ ہزار آئی ایم ایف سے مبلغ تین ارب ڈالر کا قرض قسطوں میں حاصل کرنے کے بعد یہ بلند بانگ دعویٰ تب کر رہے ہیں جب ہمارے ہمسائے نے صرف چاند پر بھیجی جانیوالی اس خلائی مہم پر پچھتر ملین ڈالر خرچ کر دیے ہیں۔
چاند پر بھیجی جانے والی یہ بھارت کی تیسری مہم ہے اور یہ بھارتی خلائی تحقیق کے ادارے'' انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن‘‘ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور اسے بھارتی خلائی سائنسدانوں نے ملک کے اندر تیار کیا ہے۔ ہمیں ہمسائے سے مقابلہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ان کا ادارہ''آئی ایس آر او‘‘ آخر اس مقام تک کیسے پہنچا اور سات جون1962ء کو رہبر-1 نامی خلائی راکٹ کو خلا میں بھیجنے والے پہلے جنوبی ایشیائی ملک پاکستان کا خلائی تحقیق کا ادارہ ''سپارکو‘‘ اگر اب کہیں دکھائی نہیں دیتا تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟
جب ریاست بہاولپور پاکستان میں ضم ہوئی تو ریاست کے ملازمین پر حکومت پاکستان کے قواعد و ضوابط لاگو ہو گئے۔ ان کی باقاعدہ سروس بُک وغیرہ تیار کرنی شروع کر دی گئیں۔ نواب صاحب کے ریاستی ملازم میں بہت سے مصاحبین کی تعلیمی قابلیت تو بالکل واجبی سی تھی مگر نواب صاحب کے حکم کی بھلا ریاست میں کون سرتابی کر سکتا تھا‘ لہٰذا ایسے بعض مصاحبین کو نواب صاحب کے حکم پر اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیا گیا تھا۔ کوائف معلوم کرتے ہوئے جب ایسے ہی ایک اعلیٰ ریاستی افسر سے اس کی تعلیمی قابلیت پوچھی گئی تو اس نے بڑا تاریخی جواب دیا کہ تعلیم مڈل اے‘ تجربہ وافر اے یعنی تعلیمی حوالے سے تو شخص مڈل( آٹھویں جماعت) پاس ہے مگر اس کے پاس تجربہ وافر ہے۔ اُدھر یہ عالم ہے کہ آئی ایس آر او کے سربراہان اپنی تعلیم‘ تجربے اور پیشہ وارانہ اعتبار سے خلائی سائنسدان اور انجینئر ہیں جبکہ ہمارے ہاں سپارکو والوں کے پاس نہ متعلقہ شعبہ کی تعلیم ہے اور نہ ہی وافر تجربہ ‘ لہٰذا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکل رہا ہے۔
معاشی مضبوطی اور اقتصادی حالت کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیں کہ تین ارب ڈالر کا قرض ملنے پر حکومت اور اس کے حواری بھنگڑے ڈال ڈال کر بے حال ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کو اس عظیم الشان کامیابی پر مبارکیں دیتے ہوئے تھک نہیں رہے۔ ہر طرف شور بپا ہے کہ ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے ہیں۔ تاہم کوئی ماہرِ اقتصادیات حکومتی ترجمان قوم کو ابھی تک یہ نہیں بتا رہا کہ ڈیفالٹ سے یہ وقتی بچاؤ کب تک کیلئے ہے اور اگلا خدشہ برائے ڈیفالٹ کب اپنا بھیانک منہ کھولے ہمارے سامنے کھڑا ہوگا؟ نہ ہمارے پاس کوئی فیوچر پلان ہے اور نہ ہی اس پر عملدرآمد کرنے کی خواہش ہی موجود ہے۔ ہم میں اور چچا غالب کی اقتصادی پالیسیوں میں رتی برابر فرق نہیں بلکہ سچ پوچھیں تو میرے خیال میں چچا غالب کی اقتصادی حالت اور پالیسیاں کم از کم ہم سے بدرجہا بہتر تھیں۔ چچا کو دربار سرکار سے وظیفہ مل جاتا تھا۔ بازارِ حسن میں گائی جانے والی اپنی غزلوں کے طفیل کوٹھوں تک باعزت رسائی اور مفت مجرا دیکھنے کی سہولت بھی حاصل تھی۔ اپنے شاگرد نوابین سے ناقابل ِواپسی قرض کی سہولت بھی دستیاب تھی اور پہلے سے دیوالیہ چچا غالب کو اپنے مزید دیوالیہ ہونے یعنی ڈیفالٹ کا قطعاً کوئی خوف لاحق نہیں تھا۔ اوپر سے ایک اور آسانی یہ میسر تھی کہ نواب مصطفی علی خاں شیفتہ اور نواب مرزا کالے خاں وغیرہ سے قرض لیتے ہوئے انہیں بطورِ ضمانت کسی عرب شیخ کا سفارشی رقعہ یا ضمانتی خط بمعہ بینک ڈپازٹ دکھانے کی مجبوری لاحق نہ تھی اور انہیں ہر قسم کا نیا قرض بلا سود اور سابقہ قرض کی واپسی کی شرط کے بغیر ہی مل جاتا تھا۔ اس لئے ان کا یہ شعر بہرحال ان کی معاشی حالت اور مستقبل کی خوش فہمی کے معاملے میں سو فیصد درست تھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ادھر اپنا یہ عالم ہے کہ ہم چچا غالب کو حاصل بلا سود اور ناقابلِ واپسی قرض جیسی سہولتوں کے برعکس انتہائی سخت شرائط پر قابلِ واپسی سود پر حاصل کئے گئے قرض پر بھی ویسی ہی عیاشی کر رہے ہیں جیسی چچا غالب کرتے تھے۔
اگر ہمسائے کی اقتصادی صورتحال دیکھیں تو 2000ء میں اس کا جی ڈی پی 468ارب ڈالر تھا جو 2023ء میں بڑھ کر 3.74کھرب ڈالر یعنی آٹھ گنا ہو چکا ہے۔2028ء میں یہ بڑھ کر 5.5کھرب ڈالر ہو جائے گا جبکہ اللہ میرے اندازے غلط کر دے‘ ہمارا قرضہ تب تک کئی گناہ بڑھ چکا ہوگا۔ سود کی ادائیگی اور قرضوں کی واپسی مشکل تر ہو چکی ہو گی۔ مزید حاصل کئے گئے قرضوں کی واپسی کیلئے مزید قرض لے کر مزید کئی بار ڈیفالٹ سے بچنے کی خوشی میں بھنگڑے ڈال چکے ہوں گے۔ قرضوں کے ذریعے اللے تللے کرنے کی باتوں کے دوران جب چچا غالب کا ذکر آیا تو مرزا نوشہ کی مے نوشی کے علاوہ ان کے شاہانہ کھانے کا تذکرہ چلا تو خود چچا غالب کا ایک مکتوب یاد آیا جس میں فرماتے ہیں کہ صبح کو سات بادام کا شیرہ قند کے شربت کے ساتھ‘ دوپہر کو سیر بھر گوشت کا گاڑھا پانی(شوربہ) قریب شام کبھی کبھی تین تلے ہوئے کباب۔
ایک دوست کہنے لگا کہ ابھی آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضے کے بھنگڑے بھی پوری طرح نہیں ڈالے تھے کہ ایک خبر سنی کہ لاہور میں چالیس کروڑ روپے کی لاگت سے ایک بلند جھنڈا لگایا جا رہا ہے جو اس پورے خطے کا سب سے اونچا جھنڈا ہوگا۔ میں نے اس دوست سے کہا کہ کیا خبر سچی ہے یا سوشل میڈیا کی چھوڑی گئی کوئی درفتنی ہے؟وہ دوست کہنے لگا: 2017ء میں جب واہگہ اٹاری بارڈر پر بھارت نے ساڑھے تین کروڑ روپے سے تین سو ستر فٹ بلند جھنڈا لگایا تھا تو ہم نے مقابلے میں تب بھی چار سو فٹ بلند جھنڈا لگا کر بھارت کو ناک آؤٹ کردیا تھا۔ اب اس کے چاند پر بھیجے گئے راکٹ کا جواب فی الحال تو بلند قسم کے جھنڈے سے ہی دیا جا سکتا ہے۔شاہ جی کہنے لگے: ایک درخت کی شاخ پر ایک اُلو دن کے وقت محو ِخواب تھا کہ نیچے سے ایک خرگوش کا گزر ہوا۔ وہ اُلو کو اس طرح مزے سے سوتے دیکھ کر بڑا مرعوب ہوا اور اُلو سے کہنے لگا کہ کیا وہ بھی اس کی طرح مزے سے سو سکتا ہے؟ اُلو کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا؟ اس نے بخوشی اجازت دے دی۔ خرگوش دن دیہاڑے اُلو کے عین نیچے زمین پر سو گیا۔ ادھر سے گزرتی ہوئی ایک لومڑی نے سوئے ہوئے خرگوش کو مزے سے دبوچا اور کھا گئی۔ ہماری ہر کہانی کا ایک اخلاقی نتیجہ ہوتا ہے لہٰذا اس کہانی کا بھی ایک اخلافی نتیجہ ہے اور وہ یہ کہ اگر آپ زندگی میں کچھ کئے بغیر مزے سے آرام کرنا چاہتے ہیں تو پھر ضروری ہے کہ آپ بہت اونچے مقام اور مرتبے پر فائز ہوں۔ فی الحال کچھ بھی نہ کرنے اور بلند مقام پر فائز ہونے کے لیے چار سو فٹ بلند جھنڈے سے بہتر اور بلند جگہ بھلا کیا ہو سکتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں