"KMK" (space) message & send to 7575

اندازے‘خواہشات اور ٹیوے

پاکستان کے میڈیا میں‘ خواہ وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک‘ سب سے مقبول موضوع سیاست ہے۔ ہماری‘ ہمارے اینکرز اور کالم نویسوں کی تحریر اور گفتگو کا پسندیدہ موضوع بھی یہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی کالم کے نیچے قارئین کے تبصرے اور پھر ان تبصروں پر مچنے والا غدر‘ جواب در جواب اور وضاحت در وضاحت کے طفیل کالم کی کاٹ سے کہیں سے بڑھ کر مار دھاڑ اور قلم کی کاٹ کے مظاہرے کمنٹس سیکشن میں پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ میں اسی معاشرے کا حصہ ہوں اور مجھے بخوبی علم ہے کہ مارکیٹ میں کیا چل رہا ہے اور کیا بِک رہا ہے لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ جو چل اور بِک رہا ہے وہ اندازے ہیں‘ خواہشات ہیں اور محض ٹیوے ہیں۔ مطلب یہ نہیں کہ لوگ سچ نہیں لکھ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچ کسی کو معلوم ہی نہیں۔ کوئی خواہش کو خبر بنا رہا ہے‘ کوئی محض اندازے لگا رہا ہے اور کوئی دل کے دُکھڑے رو رہا ہے۔ کوئی عامل نجومی کی طرح مستقبل بینی کر رہا ہے‘ غرض ایسا گھڑمس مچا ہوا ہے کہ کسی کو نہ کچھ سجھائی دے رہا ہے اور نہ ہی دکھائی۔
مثلاً اس وقت سب سے گرما گرم سوال تو یہ ہے کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ اگر ہوں گے تو وقت پر ہوں گے یا تاخیر سے ہوں گے؟ اگر تاخیر سے ہوں گے تو یہ تاخیر کتنے عرصے پر محیط ہو گی؟ حکومت کے نو اگست کو اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نگران حکومت بنانے کے اعلان پر کچھ خوش فہم لوگوں کا خیال ہے کہ بس نگران آئیں گے اور صاف شفاف انتخابات کروا کر ساٹھ دن میں رخصت ہو جائیں گے۔ ان کیلئے عرض ہے کہ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ سید محسن رضا نقوی نے بائیس جنوری 2023ء کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ وہ تین ماہ کیلئے آئے تھے اور انہیں تین ماہ کے اندر اندر پنجاب میں انتخابات کروانے تھے۔ آج انہیں آئے ساڑھے چھ ماہ ہو چکے ہیں اور ابھی ایک پنجابی لفظ کے مطابق الیکشن کا کوئی '' اُگ سُگ‘‘ نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں کافی پھرتیاں دکھاتے ہوئے حکم جاری کیا کہ الیکشن کمیشن اور حکومت چودہ مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کروائیں۔ اب اس حکمنامے کی تاریخ کو گزرے بھی پونے تین ماہ ہو گئے ہیں‘ نہ الیکشن ہوئے ہیں اور نہ کسی پر توہینِ عدالت لگی ہے۔ اس حکم کی نہ الیکشن کمیشن کو پروا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کو کوئی فکر ہے‘ حالانکہ یہ صرف ایک حکم نہیں تھا ایک ادارے کی ساکھ اور دوسرے ادارے کی عزت و آبرو کا معاملہ تھا‘ مگر دونوں طرف ٹھنڈ پروگرام ہے اور اب اس حکم کی کوئی بات بھی سننے میں نہیں آ رہی بقول شاہ جی الیکشن کب کروانے ہیں یا الیکشن کب ہوں گے اس کا فیصلہ نہ تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ میں نے پوچھا کہ شاہ جی یہ فیصلہ کس نے کرنا ہے؟ شاہ جی تلخی سے بولے: تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ فیصلہ کس نے کرنا ہے خواہ مخواہ مجھ سے کہلوا کر اور پھر اس بات کو مجھ سے منسوب کر کے اپنے کالم کی زینت بنا کر تم خود کو سائیڈ لائن پر اور مجھے فرنٹ پر رکھنا چاہتے ہو۔ تمہارا مطلب ہے کہ تم تو بچ جاؤ اور میں بعد میں پریس کانفرنس کرتا پھروں۔ میں نے کہا: شاہ جی پاکستان کا آئین آپ کو آزادی ٔاظہار کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ شاہ جی کا موڈ یہ بات سن کر نسبتاً بہتر ہو گیا۔ کہنے لگے: تم بالکل درست کہہ رہے ہو۔ پاکستان کا آئین فرد کو آزادیٔ اظہار کی ضمانت ضرور دیتا ہے لیکن اس اظہار کے بعد آزادی کی ضمانت بہرحال نہیں دیتا۔
سیاسی مستقبل سے متعلق اتنے سوالات ہیں کہ اگر لکھنے بیٹھیں تو ایک چھوڑ دو کالم بن جائیں مگر ان میں سے ایک سوال کا بھی حتمی جواب کسی کو معلوم نہیں۔ نگران حکومت کی نوے دن والی ذمہ داری کا حال تو آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب ساٹھ دن والوں کی مدت کہاں تک جاتی ہے یہ دیکھنا ہے۔ سب سے زیادہ مزے تو ہمارے نگران وزرائے اعلیٰ کے ہیں کہ اب ان کو کسی بات کی رتی برابر فکر نہیں کہ انہیں کب الیکشن کروانے ہیں اور کب رخصت ہونا ہے۔ ان کے اقتدار کی ڈوری اب نگران وزیر اعظم کے عرصۂ حکمرانی سے بندھ جائے گی اور جب تک نگران وزیراعظم بیٹھا رہے گا وزیراعلیٰ بھی اپنی کرسی پر ٹکے رہیں گے۔
شاہ جی سے پوچھا کہ نگرانوں کی حکومت کب تک چلے گی؟ کہنے لگے :یہ فیصلہ بھی وہی کریں گے جن کے بارے میں تم بھی جانتے ہو اور میں بھی جانتا ہوں‘ بلکہ ساری خدائی جانتی ہے‘ تاہم یہ معاملہ کتنا لٹکے گا اس کے بارے میں اندازہ تبھی لگایا جا سکے گا جب نگران وزیراعظم اور نگران وزرا کے ناموں کا اعلان ہوگا۔ خاص طور پر وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کا نام آنے کے بعد اندازہ لگایا جا سکے گا کہ ان کی کیا نیت ہے۔ تاہم اندر کی بات ہے کہ ان کو بھی کچھ خاص سجھائی نہیں دے رہا کہ کیا کیا جائے۔ ان کے سارے مرغے ہی '' مادی‘‘ نکل رہے ہیں اور ''پڑ‘‘ میں کسی قسم کی کارکردگی دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔آپ کے ترین صاحب کے پاس بندے تو پہنچا دیے گئے ہیں۔ نام بھی بڑے بڑے ہیں۔ پارٹی بھی بن گئی ہے اور دستِ شفقت بھی موجود ہے لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ کسی طرح سے بھی ووٹروں کا بندوبست نہیں ہو پا رہا۔ جونہی یہ والا بندوبست ہو گیا الیکشن ہو جائیں گے۔ تاہم فی الحال اس بندوبست کا دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ بقول ہمارے لودھراں والے ایک دوست کے‘ باقی تو چھوڑیں ابھی تو خود جہانگیر ترین الیکشن نہیں لڑ سکتے کہ ان کی تا عمر والی نااہلی اسمبلی سے تو ختم ہو گئی ہے لیکن ابھی اس کی عدالتی توثیق باقی ہے‘ لیکن اس مرحلے کے بعد بھی بری خبروں کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا۔ باقی جگہوں کا تو مجھے علم نہیں تاہم اگر جہانگیر ترین تا عمر والی نااہلی سے چھٹکارہ پا کر لودھراں سے الیکشن لڑیں تو اسمبلی کی شکل اندر سے تو ہرگز بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ ہاں! اگر نہیں مخدوم احمد محمود پھر رحیم یار خان سے جتوا دیں تو اور بات ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کی پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا اس کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ اب پارٹی کس کے حوالے کرتے ہیں۔ اگر شاہ محمود کے حوالے کرتے ہیں تو پھر پارٹی چالیسویں تک بمشکل چلے گی۔ پرویز خٹک کے ساتھ الیکٹ ایبلز ضرور ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن کے الیکٹ ایبلز نو مئی کے بعد سیاست سے دستبرداری اور پریس کانفرنس کے بعد اب کم از کم الیکٹ ایبلز کے سٹیٹس کے حامل نہیں رہے۔ اگر صاف اور شفاف الیکشن ہوئے تو پرویز خٹک کی پارٹی کے انتخابی نتائج ان کی صحت سے بھی زیادہ پتلے نکلیں گے۔
بہت سارے کنفیوژنز اور انگریز ی والے ifs and butsکے بعد اگر الیکشن تھوڑی بہت تاخیر سے ہو بھی گئے تو سب سے بڑا سوال ان کی شفافیت کا ہے۔ ایک دوست کے بقول اب دیکھنا یہ ہے کہ پولنگ سٹیشنز پر ''صندوقڑی‘‘ رکھی جاتی ہے یا نہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ اگر الیکشن والے دن پولنگ سٹیشنز پر صندوقڑی ہی نہ ہو تو بھلا الیکشن کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ ہنسا اور کہنے لگا: آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں۔ میری صندوقڑی سے مراد ووٹ کی تکریم اور اس کی گنتی کی بنیاد پہ نتائج کا اعلان ہے۔ اگر صندوقڑی کو کھول کر اندر والے مال کو گنے بغیر ایک طرف رکھ دیا جائے اور نتائج عالمِ غیب سے آنے والے فیصلوں کی بنیاد پر کئے جائیں پھر صندوقڑی کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتاہے؟ سو قارئین! سب اندازے ہیں‘ خواہشات ہیں اور ٹیوے ہیں۔ کسی کو کچھ پتا نہیں۔ حال یہ ہے کہ جب سے گیٹ نمبر چار بند ہوا ہے شیخ رشید کی پیشین گوئیاں منظور وسان کی پیشین گوئیوں سے بھی زیادہ بے عزت ہو رہی ہیں۔ بھلا اب ایسے میں کیا لکھا جائے؟ خیال ہے کہ اگلے چند روز اس سارے کنفیوژن سے جان چھڑوانے کے لیے سیاسی کالموں سے پرہیز کیا جائے تو بہتر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں