یہ کوئی زمانہ قبل مسیح کا ذکر نہیں‘ ہمارے سامنے کا زمانہ تھا کہ بجلی ہماری ملکی ضرورت سے زائد ہو گئی۔ تب یہ سننے میں آتا تھا کہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کو بجلی فروخت کریں گے۔ یہ تب کا ذکر ہے جب وارسک‘ منگلا اور تربیلا ڈیمز اپنی بھرپور پیداواری صلاحیت کے ساتھ ہائیڈل بجلی بنا رہے تھے جبکہ ملتان‘ گدو‘ کوٹری‘ فیصل آباد‘ کراچی اور دیگر علاقوں میں لگنے والے تھرمل بجلی گھروں سے بننے والی بجلی ہماری ملکی ضرورت سے بڑھ گئی تھی۔ بجلی کی پیداوار کا ملکی طلب سے بڑھ جانے کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ملک کی بیشتر آبادی کا طرزِ زندگی کفایت شعاری کے تابع تھا اور بجلی ضرورت کے تحت استعمال کی جاتی تھی۔ بجلی ضرورت سے بڑھ کر آرام اور عیاشی کے درجے پر فائز نہیں ہوئی تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بازار صبح کھل جاتے تھے۔ حرم دروازے کے اندر علی الصبح کاروبار شروع ہو جاتا تھا اور بازار میں رونق کا آغاز ہو جاتا تھا۔ یہی حال حسین آگاہی‘ چوک بازار اور گھنٹہ گھر کا ہوتا تھا۔ غرض سارے شہر میں کاروباری سرگرمیاں صبح ہی شروع ہو جاتی تھیں۔ حرم دروازے سے شہر میں داخل ہوں اور کالے منڈی سے گزر کر چوک بازار سے ہوتے ہوئے آپ حسین آگاہی کی طرف سے گھنٹہ گھر پہنچ جائیں‘ مجال ہے کسی ایک دکان میں بھی ایئرکنڈیشنڈ دکھائی دے جائے۔ یہ تو شہر کا حال تھا۔ تب کینٹ تھوڑا ایلیٹ قسم کا بازار سمجھا جاتا تھا مگر اس پورے بازار میں کم از کم مجھے تو بالکل یاد نہیں کہ کوئی دکان ایئر کنڈیشنڈ ہو۔ لوگ صبح دکانیں کھول کر اپنا کام شروع کر دیتے تھے۔ گرمیوں میں صبح پنکھے چل جاتے اور سارا دن پنکھوں سے کام چلتا۔ شام کو لوگ گھر آ جاتے۔ مڈل کلاس میں لوگ رات کو چھت پر سوتے تھے۔ ملتان میں تب رات کافی حد تک خوشگوار ہوتی تھی۔ جغرافیائی طور پر ماحول ایسا تھا کہ دن گرم اور رات ٹھنڈی ہوتی تھی۔ تب گرم دن بھی پنکھے میں گزر جاتے تھے۔ رات اگر پنکھا چل جاتا تو عیاشی ہو جاتی تھی۔
میری بہنیں شام کو اوپر چھت پر جا کر بالٹی میں پانی بھرتیں اور صحن پر چھڑکاؤ کرتیں۔ دن بھر کی دھوپ سے تپتی ہوئی چھت ایک آدھ گھنٹے بعد ایسی ٹھنڈی ہو جاتی کہ ننگے پاؤں چلتے تو مزہ آتا۔ پھر ایک قطار میں چار پائیاں بچھائی جاتیں۔ زیادہ گرمی کے دنوں میں ایک پیڈسٹل فین لگایا جاتا۔ میری چار پائی چونکہ چھوٹی تھی اس لیے پنکھے پر سب سے آگے میری چار پائی بچھتی‘ ہاں! البتہ باقی بھائی بہن بقیہ ترتیب کیلئے آپس میں طے کر لیتے اور ہر روز ترتیب بدل کر صلح صفائی سے کام چلاتے۔
تب پورے محلے میں کسی کے گھر میں ایئرکنڈیشنڈ نہیں ہوتا تھا۔ بہت عرصہ بعد گلی کے نکر پر ٹھیکیدار ہدایت اللہ اور اس کے بعد شہر کے بہت بڑے آڑھتی چودھری رحمت علی کے گھروں میں ایک ایک ایئرکنڈیشنر لگا دکھائی دیا۔ یہ ان کے باہر والے کمرے میں‘ جسے بیٹھک کہا جاتا تھا‘ لگائے گئے تھے۔ بیڈ رومز میں ایئرکنڈیشنر لگانے کا تب بھی رواج نہ تھا۔ ہمارا گھر محلے کا تیسرا گھر تھا جس میں ایئرکنڈیشنر لگا تھا۔ حسبِ معمول ہمارا ایئر کنڈیشنر بھی ڈرائنگ روم یعنی بیٹھک میں لگا تھا اور اس کا واحد استعمال یہ ہوتا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم سارے گھر والے دوپہر کو اے سی چلا کر اس کمرے میں سویا کرتے تھے۔ یہ ڈیڑھ ٹن کا ایک روسی ایئرکنڈیشنر تھا۔ روسی ایئرکنڈیشنرز کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر چل پڑے تو پھر آپ اگلے کئی سال کیلئے بے فکر ہو جائیں‘ ہاں! البتہ اگر نہ چلے تو پہلے سال ہی جواب دے جائے گا۔ ہمارا ایئرکنڈیشنر پہلی قسم کا ثابت ہوا اور برسوں بعد شکلاً بالکل کھٹارا ہو جانے کے باوجود ایسی ٹھنڈ کرتا کہ کپکپی طاری ہو جاتی۔
پھر سب کچھ یکدم بدل گیا۔ یہ ضیا الحق کا دور تھا جب پیسے کی دوڑ شروع ہوئی۔ راتوں رات امیر ہونے کا خبط طاری ہوا۔ حلال اور حرام کی کمائی میں رہا سہا فرق بھی ہوا ہو گیا۔ پیسہ بھی ذریعۂ عزت شمار ہونے لگا۔ ذرائع آمدنی بے معنی ہوئے تو طرزِ زندگی ہی بدل گیا۔ پھر دیکھا دیکھی جن کے پاس استطاعت نہیں تھی وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ جن گھروں میں پنکھے تھے وہاں ایئرکنڈیشنر آ گئے۔ جن گھروں میں ایئرکنڈیشنر تھے انہوں نے پرانے روایتی ایئر کنڈیشنر کی جگہ پر سپلٹ لگانا شروع کر دیے۔ سپلٹ ایئر کنڈیشنرز کو عام ایئر کنڈیشنر پر یہ فوقیت تھی کہ جس جگہ ونڈو اے سی لگانے کی جگہ نہیں ہوتی تھی وہاں بھی سپلٹ اے سی لگ جاتا تھا۔ اس سہولت کا سب سے زیادہ فائدہ دکانداروں نے اٹھایا اور اپنی دکانوں میں سپلٹ ایئر کنڈیشنرز لگا کر ان کے آؤٹر یونٹس بازار کی طرف رکھ دیے۔ دکانوں کے دروازوں پر پلاسٹک شیٹ لٹکا دی گئی۔ دکانیں ٹھنڈی اور بازار گرم ہو گئے۔
صنعتی پھیلاؤ نے بھی بجلی کی طلب میں اضافہ کردیا۔ ملک میں ہر قسم کا کاروبار نئی شکل اختیار کر گیا۔ پلازے سینٹرل ایئر کنڈیشنڈ ہو گئے۔ میں جب اپنا پہلا اکاؤنٹ کھولنے کیلئے مسلم کمرشل بینک چوک شہیداں میں گیا تو سارا بینک نان ایئر کنڈیشنڈ تھا۔ حتیٰ کہ منیجر کے کمرے میں بھی ایئر کنڈیشنڈ نہیں تھا۔ واحد شے جو اس بینک کو کارپوریٹ طرز کی شباہت دے رہی تھی وہ ایک عدد پرانی طرز کا واٹر ڈسپنسر تھا جس کے اوپر ایک شیشے کی بڑی سی گول بوتل پڑی ہوئی تھی۔ پھر بینک‘ تجارتی عمارتیں‘ دفاتر‘ پلازے‘ دکانیں اور گھر اس طرح سے ٹھنڈے اور روشن ہوئے کہ ملکی بجلی کی پیداوار‘ جو چند سال پہلے تک نہ صرف وافر بلکہ فالتو تھی‘ کم پڑ گئی۔ طلب رسد سے زیادہ ہو گئی اور ہم لوڈشیڈنگ نامی چیز سے متعارف ہو گئے۔
اس ملک میں پرائیویٹ بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں کا کوئی تصور نہ تھا۔ ملتان اور ایک دو دوسرے شہروں میں بجلی پیدا کرنے کے پرائیویٹ بجلی گھرسرکاری تحویل میں لیے گئے تو اس کے بعد کوئی پرائیویٹ شخص یا کمپنی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھی۔ بجلی کی پیداوار کا سارا انتظام و انصرام واپڈا کے پاس تھا۔ اسی اثنا میں واپڈا نے کوٹ ادو (مظفر گڑھ) میں ایک انتہائی جدید اور سمارٹ پیداوار کا حامل کوٹ ادو پاور کمپنی (کیپکو) کا پلانٹ لگایا جس کی پیداواری استعداد 1600 میگاواٹ تھی۔ 1985ء سے 1996ء کے دوران پانچ مرحلوں میں مکمل ہونے والا یہ پلانٹ ملک کا سب سے جدید بجلی گھر تھا۔ بقول ہمارے ایک دوست کے یہ دنیا کی بہترین مشنری پر مشتمل ایسا بجلی گھر تھا جس میں کھڑے ہوں تو لگتا تھا کہ ہم یورپ یا امریکہ کے کسی بجلی گھر میں کھڑے ہیں۔ 1600 میگاواٹ کی پیداواری صلاحیت کا حامل یہ بجلی گھر تب پاکستان کا سب سے بڑا تھرمل بجلی گھر تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ دراصل پاکستان کے پاور سیکٹر میں خرابی کی ابتدا اسی جدید اور فیول ایفیشنٹ پلانٹ کی نجکاری سے شروع ہوئی جو آئی پی پیز کی آمد سے ہوتی ہوئی موجودہ صورتحال تک پہنچی ہے۔
واپڈا نے دنیا کی بہترین مشینری سے مزین کوٹ ادو پاور پلانٹ لگایا جو اس وقت پاکستان کا سستی ترین تھرمل بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ تھا۔ یہ بینظیر بھٹو کا دور حکومت تھا کہ جب بینظیر بھٹو کی ایک کلاس فیلو کا خاوند‘ جس کا نام شاہد حسن خان تھا اور جو برطانوی کمپنی نیشنل پاور کا پاکستان میں ایجنٹ تھا‘ اپنی بیوی کے توسط سے بینظیر سے متعارف ہوا اور بینظیر بھٹو نے اسے انرجی ٹاسک فورس کا چیئرمین لگا دیا۔ اس نے پہلے اس پلانٹ کے 26 فیصد اور بعد ازاں 36 فیصد حصص اپنے آقائے ولی نعمت کمپنی نیشنل پاور کو دلوا دیے۔ اس متنازع معاہدے پر خاصی مزاحمت بھی ہوئی۔ واپڈا کے ممبر پاور نے استعفیٰ بھی دیا مگر وزیراعظم ہاؤس سے آنے والے حکم نے‘ جس کے پیچھے مبینہ طور پر آصف علی زرداری کی اشیرباد تھی‘ یہ سودا ہو گیا۔ جنوری 1994ء میں اس شخص نے ایک عدد رپورٹ بعنوان ''رپورٹ آف پرائم منسٹرز ٹاسک فورس‘‘ پیش کی۔ یہ رپورٹ اور اس پر عملدرآمد پاکستان میں انڈیپنڈنٹ پرائیویٹ پروڈیوسرز اور ان کے ذریعے لوٹ مار کا آغاز تھا۔ (جاری)