خطِ جدی پر واقع آسٹریلیا کا چونچ کی مانند اوپر نکلا ہوا شمال مشرقی حصہ اپنے وسیع و عریض رین فارسٹ کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ رین فاریسٹ کو آپ آسان لفظوں میں ''برساتی جنگل‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ خطِ استوا پر واقع برازیل میں دنیا کے سب سے بڑے ایمیزون رین فاریسٹ سے اس کا کوئی موازنہ یا مقابلہ نہیں کہ دریائے ایمیزون کے ارد گرد واقع ان جنگلات کا کل رقبہ ستر لاکھ مربع کلو میٹر ہے جس میں رین فاریسٹ کا رقبہ ساٹھ لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ پاکستان کے کل رقبے‘ 8 لاکھ 82ہزار مربع کلو میٹر سے تقریباً سات گنا بڑے رقبے پر پھیلے اس برساتی جنگل کے کئی حصے آج بھی ایسے ہیں جہاں انسانی رسائی نہیں ہے۔ اس جنگل کا تقریباً 60 فیصد برازیل میں ہے‘ تاہم اس کا بقیہ 40 فیصد حصہ پیرو‘ کولمبیا‘ بولیویا‘ ایکواڈور‘ فرنچ گیانا‘ گیانا‘ سرینام اور وینزویلا میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ استوائی رین فاریسٹ کا دنیا میں سب بڑا مجموعہ ہے۔
تین چار مختلف اونچائی کے درختوں سے تشکیل پانے والے رین فاریسٹ ان علاقوں میں ہیں جہاں بارش کی سالانہ اوسط مقدار سو انچ سے زائد ہوتی ہے اور یہ جنگل اسی بارش کے طفیل پروان چڑھتے ہیں۔ تین پرتوں پر مشتمل جنگل کے سب سے بلند درختوں کا بنایا ہوا سائبان (Canopy) سارے جنگل کیلئے شامیانے کا کام سرانجام دیتا ہے۔ اس سائبان کے نیچے نسبتاً کم اونچے درخت ایک اور ذیلی سائبان بناتے ہیں یہ Understory کہلاتی ہے۔ سب سے نیچے پست قد درخت اور جھاڑ جھنکاڑ کی تہہ ہوتی ہے جسے Forest Floor کہتے ہیں۔ تہہ در تہہ سائبانوں کے باعث سورج کی صرف دو فیصد روشنی زمین تک پہنچتی ہے۔ دھوپ نہ ہونے کے سبب بارش کا پانی زمین میں دیر تک محفوظ رہتا ہے اور جنگل میں ہمہ وقت ایک مرطوب موسمی صورتحال رہتی ہے۔ یہ برساتی جنگلات دنیا کو آکسیجن فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ جنگلوں کی محبت میں مبتلا یہ مسافر سدا سے ایمیزون کے برساتی جنگل دیکھنے کا متمنی ہے مگر ضروری نہیں کہ بندے کی ہر خواہش پوری ہو جائے۔ تاہم بہت سی ناآسودہ خواہشات کے باوجود یہ عاجز اپنے مالک کا شکر گزار ہے کہ اس نے اتنا کچھ دیکھنے کی سہولت بخشی جو اس دنیا کے کروڑوں لوگوں کو میسر نہیں۔ آسٹریلیا آیا تو سوچا کہ جو میسر ہے اسے دیکھ کر کم از کم یہ حسرت تو پوری کر لی جائے کہ برساتی جنگل آخر ہوتے کیسے ہیں۔
آسٹریلیا کے صوبے (ریجن) کوئنز لینڈ میں کینز کے ساتھ پورٹ ڈگلس اور کک ٹائو ن کے درمیان واقع ڈائنٹری رین فاریسٹ اس ملک کا سب سے بڑا برساتی جنگل ہے۔ اس کا جنوبی حصہ کینز شہر سے محض ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے اور یہ ڈیڑھ گھنٹہ بھی اس صورت میں لگتا ہے اگر آپ اس جنگل میں جانے کیلئے کورانڈا سینک ریلوے پر نظاروں کا لطف لیتے ہوئے جائیں۔ پہاڑوں‘ سرنگوں‘ جنگلوں اور گھاٹیوں سے گزرتی ہوئی یہ ٹرین 37 کلو میٹر کا فاصلہ تقریباً دو گھنٹوں میں طے کرتی ہے۔ ہم اس قابلِ نظارہ سفر کے شوق میں صبح دس بجے فریش واٹر ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے۔
میں اور ڈاکٹر تصور اسلم ٹکٹ لے کر پلیٹ فارم پر موجود دو خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ چار افراد کی اس میز کے دوسری جانب 75 سال سے زیادہ عمر کا خاصا صحت مند جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے بیٹھنے پر انہوں نے مسکرا کر حال چال پوچھنے کے بعد اس ٹرین پر سفر کے بارے ہم سے معلومات لینا چاہیں تو ہم نے انہیں بتایا کہ ہم خود پہلی مرتبہ اس پر سفر کر رہے ہیں۔ تھوڑی سی گپ شپ کے بعد خاتون نے ریلوے لائن کی دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیچھے سڑک کے پار ہمارا ''کاروان‘‘ کھڑا ہے۔ ہم پورے آسٹریلیا کا چکر لگانے کیلئے پرتھ سے اس کاروان پر چلے ہیں اور ساڑھے آٹھ ہزار کلو میٹر سے زائد فاصلہ چار مہینے میں طے کرتے ہوئے تین دن قبل کینز پہنچے ہیں۔ ابھی ہمیں اس سے ڈیڑھ گنا زیادہ فاصلہ طے کرنا ہے اور ہم یہ سارا سفر گیارہ ماہ میں پورا کر کے واپس پرتھ پہنچ جائیں گے۔ یہ میرے لیے نہ صرف حیران کن بلکہ رشک آمیز تھا۔ جس عمر میں ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر زیادہ توپ چلائیں تو اپنے ہم عمروں کے درمیان اپنی جوانی کے وہ قصے‘ جو دراصل ہماری خوش گمانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں‘ سنا کر خوش ہوتے ہیں یا اپنی بیماریوں کا تذکرہ کرکے خود رحمی کا شکار ہوتے ہیں‘ یہ دونوں تقریباً 20 ہزار کلو میٹر کے سفر پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔
مرد نے اپنا نام بھی بتایا جو اَب مجھے یاد نہیں۔ اپنا مکان کرائے پر دے کر اب وہ اس کاروان کے مکین تھے اور حاصل ہونے والے کرائے اور اپنی پنشن کے سر پر پورے آسٹریلیا کا چکر مکمل کر رہے تھے۔ وہ دونوں چاہتے تو گھر میں آرام سے بیٹھ کر اپنی پنشن سے بڑی پُرسکون زندگی گزار سکتے تھے مگر انہوں نے مرنے سے پہلے دنیا دیکھنے کا فیصلہ کیا اور چل پڑے۔ سفری گھر کے یہ مکین مسافر میرے لیے تو باعثِ حیرانی تھے مگر ادھر یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ اس عمر کے بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر کے لوگ جوانی میں ملازمت‘ کاروبار یا دیگر پیشہ ورانہ مصروفیت کے باعث تشنہ رہ جانے والی خواہشات کی تکمیل کیلئے ریٹائرمنٹ کے بعد گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ ان کیلئے گھر میں بیٹھنے کا نہیں بلکہ گھر سے نکلنے کا پیغام لے کر آتی ہے۔ مجھے ان سے حسد تو نہیں‘ تاہم ان پر رشک ضرور آیا۔ میں نے دل ہی دل میں انہیں سفر بخیر ہونے کی دعا دی۔ ابھی میں ان سے اس سفر کی مختصر سی روداد سننے کا منتظر تھا کہ دور سے آتی ہوئی ٹرین نے روایتی سیٹی مار کر گفتگو کا سارا تسلسل توڑ دیا۔ پرانی طرز کے کوئلے والے انجن کے ساتھ پرانی طرز کے لیکن آرام دہ تیرہ‘ چودہ ڈبوں پر مشتمل یہ مسافر ٹرین پہاڑی علاقے میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ایک دو چھوٹے چھوٹے وقفوں کے علاوہ گزشتہ 133 سال سے مسلسل چل رہی ہے۔
ٹکٹ گھر میں بیٹھی ہوئی خوش اخلاق بی بی نے ٹکٹ کیساتھ رستے کا نقشہ‘ جس پر سارے اہم مقامات کی تفصیل اور تصاویر تھیں‘ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ اول کلاس کی ٹکٹ کی قیمت میں سنیکس کے علاوہ گرم اور ٹھنڈے مشروبات و ماکولات کا لامحدود مفت حصول شامل تھا۔ ان ماکولات کے بارے میں برادرِ عزیز ایاز امیر کے ہوتے ہوئے لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے علاوہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔ اردو محاورے کے مطابق کیونکہ مفت کی کچھ چیزیں قاضی کو بھی حلال ہوتی ہیں اس لیے اس مفت کے مال کی مقبولیت کے طفیل اپنے ڈبے میں موجود بہت سے قاضیوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اُردو کے اس قدیم مستعمل محاورے کی آڑ میں وہ کوئی اور مفہوم اخذ کرنے کی کوشش نہ کریں اور صدیوں سے رائج اس محاورے کو اسی تناظر میں دیکھیں جس تناظر میں یہ زبان و بیان کا حصہ ہے۔ ہمارے پاس پشاور سے لنڈی کوتل تک کا ٹرین کا سفر شاید اس کورانڈا والے سفر سے زیادہ خوبصورت اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح 18 سرنگوں بشمول‘ تقریباً چار کلو میٹر طویل خوجک سرنگ کے‘ سبی سے چمن براستہ کوئٹہ جہاں آبِ گم ریلوے سٹیشن پر ٹرین کے ساتھ ایک اور انجن لگایا جاتا تھا‘ سطح سمندر سے 5874 فٹ کی بلندی پر واقع پاکستان ریلوے کے بلند ترین کولپور سٹیشن تک ہر 100 فٹ پر چار فٹ چڑھائی والی ریلوے لائن قدرت کے نظاروں سے بھرپور ہے لیکن ہم غیر ملکی سیاحوں کا کیا کہیں‘ اب تو خود پشاور سے لنڈی کوتل اور کوئٹہ‘ چمن وغیرہ جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ جس ملک میں دہشت گرد مسافروں کو بسوں اور ٹرینوں سے اتار کر اور شناختی کارڈ چیک کرکے مارتے ہوں‘ وہاں سیاحت کا پھلنا پھولنا تو رہا ایک طرف‘ اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں جانتا ہوں کہ اب ایسا موازنہ کرنے سے بھی دل دکھتا ہے مگر اب اس دل کا کیا کریں؟