سرکار کی منشا کے مطابق نہ سہی‘ مگر دوسرے ہلے میں چھبیسویں آئینی ترمیم بہرحال منظور کروا لی گئی۔ کروا لی گئی اس لیے کہا ہے کہ اس کیلئے وہی پرانے غیر آئینی اور غیر اخلاقی حربے استعمال کرتے ہوئے ایوانِ بالا میں دو تہائی اکثریت کے حصول کیلئے بی این پی (مینگل) کے دو عدد سینیٹرز کو ہتھیایا گیا اور قومی اسمبلی میں پانچ عدد اپوزیشن ارکان کو گھیرا گیا۔ عمران خان کے زمانے میں اسے وکٹیں اُڑانا کہتے تھے۔ اب یہ گھیرنے والے کون تھے‘ اس بارے میں کچھ کہنا یا نہ کہنا برابر ہے کہ اب یہ راز سوائے گھیرنے والوں کے‘ کُل جگ پر آشکار ہو چکا ہے۔ اس اوپن سیکرٹ کے بارے میں ایک دوست سے بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا کہ دنیا جہاں کی خبریں رکھنے کے دعویداروں اور اڑتی چڑیا کے پَر گن لینے کی شہرت رکھنے والوں کو یہ خبر نہیں ہے کہ خلقِ خدا ان کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ وہ دوست کہنے لگا: بھلا ایسا کس طرح ممکن ہے کہ خلقِ خدا کے خیالات ان کے کانوں تک نہ پہنچتے ہوں؟ خلقِ خدا کو جب سے سوشل میڈیا کا شتر بے مہار ملا ہے اب نہ تو کوئی خبر راز رہی ہے اور نہ ہی کسی افواہ کو حدود وقیود کی پابندی کا سامنا ہے۔ سب کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ تک پہنچ جاتا ہے۔ اب کوئی چیز راز ہے اور نہ ہی اب کوئی بات پردے میں رہ گئی ہے۔ عوامی جذبات اور خلقِ خدا کے احساسات سوشل میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہو کر ہر گھر کے دروازے پر دستک ہی نہیں دے رہے بلکہ دروازہ توڑ کر اندر گھس رہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ ان کو خبر نہیں‘ حماقت اور خوش فہمی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جیسے جیسے معاملات پردے سے باہر آتے گئے‘ گھیرنے اور ہتھیانے والی پارٹی کا حوصلہ بھی بڑھتا گیا۔ ادھر خلقِ خدا کے علم میں اضافہ ہوتا گیا ہے تو فریق ثانی نے بھی ''اوہلے‘‘ کو بالائے طاق رکھ دیا۔ سب کچھ واضح ہو جانے کے بعد انہوں نے بھی اب پردے وردے کے تکلف سے جان چھڑا لی ہے اور عملی طور پر اس مقام پر آ گئے ہیں کہ گویا کہہ رہے ہوں کہ کر لو جو کرنا ہے۔
چھبیسویں ترمیم کی اٹھان تو بڑی تھی تاہم منظوری تک آتے آتے اس کی کافی ساری ہوا خارج ہو چکی تھی۔ ابتدائی مسودے میں آئینی عدالت کا قیام اور اس کے چیف جسٹس کی عمر کی حد 68سال کرنے والی شق یہ ظاہر کرتی تھی کہ لامحالہ اگلے تین سال کیلئے آئینی عدالت‘ جسے موجودہ سپریم کورٹ کے بھی اوپر سپر کورٹ ہونا تھا‘ کے سربراہ کیلئے کسی 65سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے جج کو تعینات کرنے کی پیش بندی ہو رہی تھی۔ ہمارے ہاں یہ روایت نئی نہیں ہے۔ جب پنجاب کی تاریخ کے سب سے مقبول‘ معقول‘ ہونہار اور ہر دلعزیز وزیراعلیٰ جناب عثمان بزدار نے اپنے پولیس سروس سے ریٹائر ہونے والے پھوپھا کو کہیں کھپانا تھا تو اس کیلئے انہوں نے جنوبی پنجاب میں ایک عدد نیا عہدہ ''ڈائریکٹر سپیشل برانچ‘‘ تخلیق کروایا اور اس اسامی کیلئے جو اخباری اشتہار دیا‘ وہ ان کے پھوپھا محترم کی عالیشان شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی پولیس سروس کے دوران جہاں جہاں نوکری کی تھی اُس کو اس اشتہار میں مطلوبہ قابلیت کے طور پر شامل کروا دیا گیا۔ موصوف پولیس میں والی بال کے کھلاڑی کے طور پر بھرتی کیے گئے تھے‘ اس اشتہار میں ان کے نام کے علاوہ صرف یہ نہیں لکھا گیا تھا کہ امیدوار والی بال کے کھلاڑی کے طور پر پولیس میں بھرتی ہوا ہو۔
اگر حکومت کے دل میں ریٹائرمنٹ کے دروازے پر کھڑے اپنے محبوب جج کو اگلے تین سال کیلئے نئی تشکیل کردہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر تعینات کرنے کا شوق نہ ہوتا تو وہ اس عدالت کیلئے بھی سپریم کورٹ کے جج کی آئینی عمر کی حد 65سال ہی رہنے دیتی مگر 65سالہ شخص کو اگلے تین سال کیلئے توسیع دینے کیلئے ضروری تھا کہ عمر کی حد 68سال کی جائے‘ تاہم یہ بیل بوجوہ منڈھے نہ چڑھ سکی تو ''گندم اگر بہم نہ رسد‘ جو غنیمت است‘‘ کے مصداق موجودہ والی چھبیسویں ترمیم منظور کرانے پر اکتفا کر لیا۔ اب اس میں اللہ جانے منظوری کا سارا بندوبست کرانے والوں کے کیا تحفظات تھے کہ انہوں نے عین وقت پر اپنے ہی تیار کردہ آئینی ترمیم کے مسودے میں رد وبدل کر دیا۔ ایک باخبر دوست کا کہنا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ دراصل کچھ زیادہ ہی چوڑے ہوتے جا رہے تھے اور ان کو ایک Slang کے مطابق ''کینڈے‘‘ میں رکھنا مقصود تھا‘ اس لیے پہلے ان کا کئی ماہ پرانا ڈونٹ فیم وڈیو کلپ وائرل کرایا گیا اور پھر ان کو اس سارے منظر نامے سے آئوٹ کر دیا گیا۔ بداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ بالا دستوں کو زیر دستوں پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ بڑے گھر والوں کو شاید یہ احساس ہو گیا تھا کہ اس ترمیم کا زیادہ فائدہ تو حکمرانوں کو ہوگا تو بھلا وہ ان کو ان کی اوقات سے زیادہ حصہ کیوں دیں؟ کل کلاں پھر کسی کو دو تہائی اکثریت کا دورہ پڑ گیا تو پھر ان کا بندوبست کرنا پڑے گا۔
آئینی بینچ کی تشکیل سے قبل چھبیسویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کے نتیجے کے بارے میں ابھی کچھ کہنا لاحاصل ہے‘ تاہم بینچ کی تشکیل کے بعد صورتحال تھوڑی واضح ہو گی۔ تب تک انتظار کیا جائے۔ چھبیسویں ترمیم کے بارے میں‘ اسے پاس کروانے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیم دراصل پارلیمنٹ کی دیگر ریاستی اداروں پر بالادستی کیلئے از حد ضروری تھی اور اس ترمیم کے ذریعے یہ بالادستی قائم ہو سکے گی۔ اس بالادستی والے ترمیمی مسودے میں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو بھی اس سارے عمل کا حصہ بنا دیا گیا ہے لیکن اس عاجز کا خیال ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو واقعتاً اس عمل کا حصہ بنانا مقصود ہے تو بجائے چار پانچ ارکانِ پارلیمنٹ‘ جو دراصل پارلیمنٹ نہیں بلکہ اپنی سیاسی پارٹی کے لیڈر کی خواہش اور حکم کی تشکیل کیلئے متعین کیے جائیں گے‘ پوری پارلیمنٹ کو اس عمل کا حصہ بنایا جائے‘ امریکہ کی طرح‘ جہاں صدر سپریم کورٹ کا جج نامزد کرتا ہے اور اس نامزدگی پر سینیٹ میں کھلی بحث ہوتی ہے۔ اس بحث میں نامزد کردہ جج کا سابقہ کنڈکٹ‘ اس کی پروفیشنل ساکھ حتیٰ کہ اس کی نجی زندگی پر ارکانِ سینیٹ اپنے تحفظات و خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی ساری شخصیت کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ اس دوران کئی بار ایسا بھی ہوا کہ نامزد جج اپنے ماضی کے کچے چٹھے کھلنے پر اس نامزدگی سے از خود دستبردار ہو گیا۔
صدر ایوب خان کے سامنے ملتان کے ایک نامور وکیل کے والد‘ جو بذات خود اپنے زمانے میں ملتان کے چوٹی کے وکیل تھے‘ کا نام توثیق کیلئے پیش ہوا تو ایوب خان نے اس کے بارے میں لکھا کہ موصوف کا طرزِ زندگی اور معیار اس کی ظاہر کردہ آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتا لہٰذا اس نام کی توثیق نہیں کی جا سکتی۔ بعد میں قتل کے نامزد ملزم ہائیکورٹ میں جج متعین ہوئے۔ موزانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ وقت کے ساتھ ریاستی عہدوں پر افراد کے تقرر کا معیار اور طریقہ کار کس قدر انحطاط پذیر ہو چکا ہے۔ وقت آ گیا کہ اس روز افزوں انحطاط کے آگے بند باندھا جائے اور بہتری کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی دو چار حکم کے غلام نمائندوں کے سپرد کرنے کے بجائے پوری پارلیمنٹ کو بالادست کیا جائے۔