1975ء میں ملتان یونیورسٹی کا آغاز آٹھ شعبوں سے ہوا۔ تین سال بعد جب میں داخل ہوا تب شعبہ جات کی تعداد شاید گیارہ یا بارہ تھی اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی کل تعداد آٹھ سو کے لگ بھگ تھی۔ اس میں طالبات کی تعداد دو اڑھائی سو سے زیادہ نہ تھی۔ فراغت کے 19‘20 سال بعد میں ایک پرانے دوست کے ساتھ یونیورسٹی گیا تو واپسی پر وہ دوست کہنے لگا کہ مزہ نہیں آیا اور یونیورسٹی ویسی نہیں رہی جیسی ہمارے زمانے میں تھی۔ میں اس بات پر ہنس پڑا۔ اس نے مجھ سے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ چوہدری صاحب! تب یونیورسٹی کی کل تعداد ہزار سے کم تھی۔ تمہاری کلاس میں کل چار لڑکیاں تھیں جن میں سے تین پردہ کرتی تھیں۔ یہ چاروں لڑکیاں ایک گروپ کی صورت میں سارا دن اکٹھی رہتی تھیں اور ضرورت کے علاوہ کسی لڑکے سے بات بھی نہیں کرتی تھیں۔ تم ہر وقت ان لڑکیوں کی قدامت پرستی اور محتاط رویے کا رونا روتے رہتے تھے۔ اب اس یونیورسٹی میں دس ہزار سے زیادہ طالب علم ہیں جن میں نصف سے زیادہ لڑکیاں ہیں اور برقعے والی طالبات تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور تم اب کہہ رہے ہو کہ یونیورسٹی پہلے جیسی نہیں رہی۔ وہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگ گیا۔ میں نے کہا: اصل بات یہ ہے کہ تم اب اس ماحول کا حصہ نہیں ہو۔ تم یہاں مکمل طور پر اجنبی ہو۔ نہ کوئی تمہارا دوست ہے اور نہ کوئی جاننے والا۔ نہ یہ درو دیوار تمہارے واقف ہیں اور نہ تم ان سے آشنا ہو۔ بیس سالوں کے دوران پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ چکا ہے کہ تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ مزہ دوستوں سے ہوتا ہے۔ مزہ درو دیوار سے آشنائی کا نام ہے۔ مزہ اس کمپنی سے کشید ہوتا ہے جو تمہارے ارد گرد ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ تو رخصت ہوئے دو عشرے گزر چکے ہیں۔ بھلا تمہیں اور مجھے وہ مزہ اب کیسے آ سکتا ہے؟
جب لیفٹیننٹ جنرل سوار خان گورنر پنجاب نے نیو کیمپس کا سنگ بنیاد رکھا تو لگتا تھا کہ یہ یونیورسٹی کسی ویرانے میں ہے۔ بوسن روڈ‘ جو اَب ڈبل سڑک ہے اور اس کے درمیان میٹرو ٹریک یونیورسٹی کے دروازے تک جاتا ہے‘ تب چند فٹ چوڑی سنگل سڑک تھی اور آمنے سامنے سے آنے والی پھٹیچر بسوں کو ایک دوسرے کے پہلو سے گزرتے ہوئے دونوں طرف سے آدھی بس کو کچے میں اتارنا پڑتا تھا۔ چھ نمبر چونگی سے لے کر یونیورسٹی تک درمیان میں نیل کوٹ کے پاس صرف ایک دو منزلہ پختہ مکان تھا جس کے نیچے ایک پنکچر لگانے کی دکان تھی۔ اس کے علاوہ پورے پانچ کلو میٹر پر کھیت اور آموں کے باغات تھے۔ بند بوسن سے نو نمبر چونگی تک نیلے رنگ کی کھٹارہ سی بس چلتی تھی جن پر '' وینس (Wains) طیارہ‘‘ لکھا ہوتا تھا اور ہم از راہِ تفنن اسے Venice طیارہ پڑھتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اولڈ کیمپس میں قائم شعبہ جات اور کرائے کی عمارات میں قائم شعبے نیو کیمپس منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ نیو کیمپس میں سب سے پہلی عمارت لینگوئج بلاک بنی جس میں اردو‘ سیاسیات‘ اکنامکس‘ تاریخ و مطالعہ پاکستان اور انگریزی کے شعبہ جات تھے پھر کیمسٹری بلاک بنا جس میں کیمسٹری کے علاوہ فزکس اور شماریات کے شعبے بھی تھے۔ پھر شماریات اور فزکس اپنی عمارتوں میں شفٹ ہو گئے۔ دیگر کئی شعبہ جات دو دو کی صورت میں اکٹھے ایک عمارت میں منتقل ہو گئے۔ اولڈ کیمپس دھیرے دھیرے خالی ہونا شروع ہو چکا تھا۔ آخر میں صرف شعبۂ ایم بی اے ادھر بچ گیا۔ میری کلاس اس عمارت میں آخری کلاس تھی۔ ہمارے فارغ ہو جانے کے بعد یہ شعبہ بھی نیو کیمپس منتقل ہو گیا اور یہ عمارت دوبارہ گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کو دے دی گئی۔
میرا اس عمارت سے تعلق اس سے کہیں زیادہ پرانا تھا کہ میں نے اسی عمارت میں چھٹی کلاس سے لے کر دسویں کلاس تک پانچ سال گزارے تھے۔ اس دوران میں مختلف کمروں میں پڑھتا رہا لیکن سب سے زیادہ مزہ تب آیا جب میں ایم بی اے کے آخری دو سمسٹرز میں عین انہی کمروں میں بطور طالب علم بیٹھا جہاں چھ سات سال قبل نویں اور دسویں کلاس پڑھا کرتا تھا۔ ایمرسن کالج کا چکر لگانے کے بعد پھر انہی کمروں میں آن بیٹھے جہاں سے رخصت ہوتے ہوئے‘ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہیں دوبارہ پڑھنے کے لیے آ بیٹھیں گے۔ ہاں! البتہ صرف کینٹین ایک ایسی جگہ تھی جہاں سے میرا تعلق اس دوران کسی نہ کسی طور پر پوری طرح قائم رہا۔ ایمرسن کالج میں پڑھائی کے دوران بھی میرا ڈیرہ اسی کینٹین پر رہا۔ 1975ء میں جب یونیورسٹی عارضی طور پر اس مستعار عمارت میں قائم ہوئی تو ایمرسن کالج کی ایم اے کی کلاسیں اس عمارت میں منتقل کر دی گئیں۔ ہمارے بہت سے سینئر دوست ادھر آ گئے تو ہماری مستقل میز پر رونق مزید بڑھ گئی۔ دو سال بعد میرا لنگوٹیا منیر چوہدری ادھر آیا تو گویا یہ جگہ مستقل ٹھکانہ بن گئی۔ پھر اگلے پانچ سال یہ کینٹین تھی اور ہم تھے۔
اُس زمانے میں ہمارے مالی حالات ایسے تھے کہ گھر سے ماہانہ دو سو روپے ملتے تھے جو بہت سے طالبعلموں کے مقابلے میں قابلِ رشک تھے مگر بہرحال یہ رقم ہماری شاہ خرچی اور سخاوت کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے سے زیادہ نہ تھی‘ تاہم اللہ جنت نصیب کرے کینٹین کے ٹھیکیدار شیخ مجید صاحب کو جنہوں نے ہمارا ادھار کا کھاتہ کھولا ہوا تھا اور یہ کھاتہ سال کے تقریباً دس مہینے مسلسل بڑھتا رہتا تھا‘ پھر ہفتہ تقریبات والے دو مہینے آ جاتے۔ ہم بیگ اٹھا کر بین الکلیاتی تقریبات میں مباحثے بھگتانے نکل پڑتے۔ ایمرسن کالج کے پروفیسر عبدالحمید تگہ ہمارے ٹی اے ڈی اے بل چیک کرتے۔ انکی سخت ترین چیکنگ اور عقابی نظروں والی آڈٹ کے باوجود تانگے کے کرائے اور قلی کی مزدوری والی لازمی ادائیگیوں اور ڈیلی الاؤنس کی مد میں ہم ان دو مہینوں میں اتنے پیسے بچا لیتے کہ شیخ صاحب کا ادھار بے باق ہو جاتا۔ کئی تعلیمی اداروں سے انعامات میں نقد رقم کا لفافہ مل جاتا تو عیاشی ہو جاتی‘ تب ہم کینٹ میں دارالکباب پر کڑاہی کھانے چلے جاتے۔اس کینٹین پر شیخ صاحب کو ہم نے خاص طور پر دو لوگوں کیلئے کہہ رکھا تھا کہ آپ انہیں ہمارے کھاتے میں چائے اور سموسے کھلا دیا کریں۔ ایک میرے بڑے بھائی مرحوم طارق محمود خان کے دوست اور بڑے شاندار شاعر مسعود کاظمی مرحوم تھے جن کی مالی حالت اُن دنوں ہم سے بھی زیادہ خراب تھی اور دوسرا گلگشت کالونی کا رہائشی سرفراز عرف ہیرا تھا جس کا دماغی توازن درست نہ تھا تاہم وہ بہت ہی بے ضرر اور موڈی آدمی تھا۔ اسے جب بھوک ستاتی وہ کینٹین پر آتا تو اسے کینٹین کا بیرہ چائے اور سموسے پیش کر دیتا۔ خدا جانے اس بیرے کا کیا نام تھا لیکن ہم نے اسکا نام دلبر رکھ چھوڑا تھا اور وہ اسی نام سے ایسا مشہور ہوا کہ ہم خود اس کا اصل نام بھول گئے۔ اللہ جانے کتنی حقیقت ہے اور کتنا مبالغہ‘ مگر سنی سنائی یہی تھی کہ ہیرا کبھی بڑا شاندار فوٹو گرافر تھا مگر عشق میں ناکامی سے اسکا دماغی توازن خراب ہو گیا۔ جب اس کا موڈ تھوڑا بہتر ہوتا تو کہتا کہ وہ پاگل نہیں ہے مگر اس کے گھر والے اسے پاگل خانے چھوڑ آئے تھے اور وہ وہاں کئی سال رہا ہے۔ باتوں ہی باتوں میں کبھی اس کا مغز گھوم جاتا تو ایسی فراٹے کی انگریزی بولتا کہ بڑوں بڑوں کی بولتی بند ہو جاتی۔
ادھر شعبۂ انگریزی میں ایک اور کریکٹر خدا بخش خان عرف کے بی خان تھا جو ہر روز ڈکشنری سے انگریزی کا کوئی انتہائی نامانوس اور مشکل لفظ ڈھونڈ کر لاتا اور انگریزی کی ایک خاتون لیکچرار کو زچ کرتا۔ میں نے اور منیر چوہدری نے سوچا کہ کے بی خان کو ہیرے سے ناک آؤٹ کرایا جائے لہٰذا ہم نے ہیرے کو کہا کہ اس بندے کو انگریزی کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔ ہم نے دس بارہ اور دوستوں کو بھی اکٹھا کیا اور ہیرے کا کے بی خان سے انگریزی والا ملاکھڑا کروا دیا۔ انگریزی ڈیپارٹمنٹ سڑک پار کرائے کی کوٹھی میں قائم تھا اور کے بی خان نے پہلے ہیرے کو دیکھا ہی نہیں تھا اس لیے اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ شخص کون ہے اور کس کیفیت کا حامل ہے۔ (جاری)