"KMK" (space) message & send to 7575

چالیس سال بعد…(3)

موبائل فون تو ہوتا نہیں تھا لہٰذا سب کچھ پہلے طے کرنا ہوتا تھا۔ اور وہ طے تھا لیکن اس سارے پروگرام میں سب سے غیریقینی مرحلہ ہیرے کی اولڈ کیمپس آمد تھی۔ اگر وہ نہ آتا تو سارا پروگرام چوپٹ ہو جاتا۔ منیر چوہدری نیوکیمپس میں میرا منتظر تھا اور میں اولڈ کیمپس میں ہیرے کا منتظر تھا۔ ہیرا تقریباً اپنے معمول کے وقت کے مطابق پہنچ گیا۔ میں نے بودلہ صاحب کے دفتر سے نیو کیمپس شعبۂ سیاسیات کے دفتر میں فون کرکے منیر چوہدری کو پیغام بھجوایا کہ میں فلاں ٹائم والی بس پر نیو کیمپس آ رہا ہوں۔ منیر چوہدری کے بی خان کو بمعہ دس بارہ دیگر دوست لینگوئج بلاک والے بس سٹاپ پر لے آیا۔ میں ہیرے کو لے کر وہاں پہنچ گیا۔ وہاں کے بی خان کی طرف اشارہ کرکے میں نے ہیرے کو بتایا کہ اس بندے سے تم نے صرف انگریزی بولنی ہے‘ اسے اُردو وغیرہ نہیں آتی۔ ہیرے نے میری بات کو رتی بھر اہمیت یا توجہ نہ بخشی۔ میں تھوڑا پریشان تھا کہ خدا جانے اس کے دماغ کا خلل کہاں کس درجے پر پہنچ جائے اور سارا پروگرام ملیا میٹ ہو جائے۔ لیکن سوائے دعا کے کوئی چارہ نہ تھا۔ ہیرا اس وقت معمول سے بھی زیادہ پُرسکون اور بے پروا دکھائی دے رہا تھا۔
جونہی دونوں کا آمنا سامنا ہوا ہیرے نے ایک دم فراٹے کی انگریزی بولنی شروع کر دی۔ ہیرے کا حملہ اتنا اچانک اور غیرمتوقع تھا کہ کے بی خان بالکل ہی بھونچکا رہ گیا۔ ابھی وہ پوری طرح سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ ہیرے نے اس پر اپنی انگریزی (جو روانی اور اعتماد کی انتہا پر ہونے کے ساتھ ساتھ گرامر اور قواعد کے اعتبار سے غلط سلط تھی) کی مشین گن چلا دی۔ یہ سارا کھیل توقع سے کہیں جلد ختم ہو گیا۔ شجاع آباد سے تعلق رکھنے والے خالص میو کو‘ جو ڈکشنر ی سے روزانہ رٹا لگا کر یاد کیے گئے مشکل انگریزی الفاظ سے اپنی خاتون استاد کو تنگ و پریشان کیا کرتا تھا‘ بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس طوفانی انگریزی کے حملے کو کیسے روکے‘ اس کا کیا سدباب کرے اور کس طرح جواب دے۔ یہ سارا کھیل محض تین یا چار منٹ پر مشتمل تھا۔ ایک طرف انگریزی کی گولہ باری کرتا ہوا ہیرا تھا اور دوسری طرف منہ کھولے حیران و پریشان کے بی خان تھا۔ قبل اس کے کہ معاملہ چوپٹ ہوتا یا ہیرے کا راز کھلتا‘ میں نے ہیرے کا ہاتھ پکڑا اور اسے بس سٹاپ کے دوسری طرف آکر کھڑی ہونے والی واپسی بس میں بٹھا کر کنڈیکٹر اللہ دِتا عرف اے ڈی کو کہا کہ وہ اسے گول باغ سٹاپ پر اتار دے۔ گنگ کھڑے کے بی خان کو ابھی تک علم نہ ہوا تھا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
ہیرے کے رخصت ہوتے ہی ہم نے کے بی خان کو گھیر لیا اور اس سے پوچھا کہ وہ ہیرے کے سامنے اس طرح لاجواب اور پریشان کیوں ہو گیا تھا اور اس کو جواب کیوں نہیں دے سکا؟ کے بی خان نے اس پر ایک تاریخی بیان جاری کیا جو اگلا پورا سال سب دوستوں کو لطف دیتا رہا۔ کے بی خان نے اعترافِ شکست کے ساتھ ساتھ اپنی ہزیمت کی چار بنیادی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہیرے کو اس پر چار حوالوں سے فوقیت حاصل تھی۔ پہلی یہ کہ اس کی انگریزی کی روانی بہت زیادہ تھی۔ دوسری یہ کہ اس کا لہجہ اس سے بہتر تھا۔ تیسری یہ کہ اس کا ذخیرہ الفاظ بھی اس سے کہیں زیادہ تھا اور آخری بات یہ کہ اس کا اعتماد ڈھیر تھا۔ ہم نے پوچھا تو تمہاری ایم اے والی انگریزی کیا کر رہی تھی؟ وہ کہنے لگا: آپ میری انگریزی کا مقابلہ اس بندے سے کر رہے ہیں جو ولایت میں پلا بڑھا اور گوروں والے لہجے میں بات کرنے پر قادر تھا۔ پھر کھسیانا سا ہو کر کہنے لگا کہ آپ میرے سامنے کسی مقامی انگریزی دان کو لائیں پھر دیکھیں میں اس کا کیا حشر کرتا ہوں۔
ہیرے اور کے بی خان کے مابین انگریزی والے مقابلے کو جس طرح محض اپنے اعتماد کے زور پر فاتر العقل ہیرے نے یکطرفہ طور پر جیت لیا تھا اس کی جھلک مجھے اپنی سیاست میں درجۂ فضیلت پر فائز کئی شخصیات میں دکھائی دیتی ہے جو اپنی کم علمی کو گفتگو کی روانی‘ مغرب کے حوالوں اور صرف اعتماد کے زور پر اپنے مخالفین کے چھکے چھڑانے کیساتھ ساتھ اپنے مریدوں کو مرعوب کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں مگر میں ان کا ذکر نہیں کروں گا کہ اسی سیاسی بدمزگی سے بچنے کیلئے میں نے گزشتہ چند روز سے اپنے چالیس سالہ پرانے ماضی میں پناہ لے رکھی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس موضوع اور مصیبت سے فرار عارضی ہے کہ اس سے چھٹکارا ممکن نہیں مگر جتنے دن بچ سکتا ہوں اتنے دن تو بہرحال بچنا چاہیے۔
بڑے سال گزرے دوستوں کی ایک محفل میں ملتان یونیورسٹی کی بات چل پڑی۔ ایمرسن کالج سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر اللہ نواز خان درانی بھی وہاں بیٹھے تھے۔ ایمرسن کالج کی طلبہ یونین کبھی پورے خطے کے طلبہ کی سب سے تگڑی اور مؤثر نمائندگی تصور ہوتی تھی اور سیاسی طور پر بڑی فعال اور اہم تھی۔ وہ بتا رہے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا اور ملک غلام مصطفی پنجاب کے گورنر تھے۔ وہ ملتان کے دورے پر آئے تو سول سوسائٹی اور طلبہ کے نمائندے ان سے ملے۔ سابق طالبعلم رہنما نے دیگر معززین کے ہمراہ اس ملاقات میں گورنر پنجاب سے ملتان میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کر دیا۔ تب پورے پنجاب میں صرف ایک پنجاب یونیورسٹی تھی جہاں دور دراز کے طلبہ علم حاصل کرنے پر مجبور تھے۔ طلبہ کے نمائندوں نے گورنر پنجاب کو کہا کہ اگر ملتان میں ایک عدد یونیورسٹی قائم کر دی جائے تو اس علاقے کے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بہت آسانی ہو جائے گی۔ لہٰذا ادھر ایک یونیورسٹی قائم کی جائے تاکہ خطے کے طلبہ مقامی طور اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ اللہ نواز درانی بتانے لگے کہ اس میٹنگ میں ایوب خان کے زمانے میں وزیر زراعت رہنے والے ملتان کے نامور بزرگ سیاستدان ملک خدا بخش بُچہ مرحوم بھی موجود تھے۔ جونہی انہوں نے یہ سنا کہ لڑکے ملتان میں یونیورسٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ اُٹھے اور کہنے لگے کہ ہمیں اس خطے میں کسی یونیورسٹی وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ علاقہ اخلاقی حوالوں سے بہت سی روایات کا امین ہے جبکہ یونیورسٹی کی مخلوط تعلیم اس علاقے کی روایات کو پامال کر دے گی اور ادھر بے حیائی اور عریانی کو فروغ ملے گا۔ ہمیں ایسی اعلیٰ تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں جس سے ہمارے دینی تشخص اور علاقائی روایات کو نقصان پہنچے۔ انہوں نے ملتان میں یونیورسٹی کے قیام سے ملتان کے سوشل فیبرک کے برباد ہونے کا جواز بنا کر بڑی پُرزور مخالفت کی لیکن خدا کا کرنا دیکھیں کہ ملتان یونیورسٹی کا قیام پیپلز پارٹی کے دور میں ہی عمل میں آ گیا۔ غالباً تب نواب صادق حسین قریشی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے جب اس یونیورسٹی کا چارٹر منظور ہوا۔
ایک سکول اور کرائے پر حاصل کی گئی کوٹھیوں میں شروع ہونے والی یونیورسٹی 81 شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے والے 40 ہزار طلبہ کے ساتھ آج خطے کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ ٹینٹوں میں قائم ہونے والا شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن آج ایک قابلِ فخر انسٹیٹیوٹ ہے جس کے پاس ایک مکمل دو منزلہ عمارت ہے جس میں بائیس کلاس رومز‘ چار عدد کانفرنس رومز‘ ایک عدد ٹریننگ سنٹر اور دو سو افراد کی گنجائش پر مشتمل ایک شاندار آڈیٹوریم ہے۔ پچاس طلبہ والے شعبہ میں اب پوسٹ گریجوایٹ کلاسز کے پانچ ڈسپلنز میں پانچ سو اور انڈر گریجوایٹ کلاسز (بی بی اے اور بی ایس) میں ایک ہزار‘ یعنی کل پندرہ سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ دو اساتذہ سے آغاز کرنے والے شعبہ میں آج بتیس کل وقتی استاد ہیں جن میں سے بائیس ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حسن بُچہ نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعزاز حاصل کرنے والے اس شعبہ کے اولین طالبعلم ہونے کے باعث جب میرے ساتھ اس آڈیٹوریم میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تو مجھے اس شعبہ سے فارغ التحصیل ہوئے چالیس سال ہو چکے تھے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں