میں 34گھنٹے کے لمبے سفر کے بعد لوئی ویل ایئر پورٹ پر اُترا تو مجھ پر تھکاوٹ کے بجائے شوق غالب تھا۔ ملتان سے لوئی ویل کے سفر میں تقریباً ڈیڑھ دن لگ گیا۔ مسلسل اتنے طویل سفر کے بعد تھک جانا قدرتی امر ہے مگر میں خلافِ معمول ہشاش بشاش تھا اور یہ صرف اس شوق کے طفیل تھا جو مجھے فی الوقت لاحق تھا۔
ایئر پورٹ پر اسد اسماعیل میرا منتظر تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میرا پہلا سوال یہ تھا کہ محمد علی کی بیوہ سے ملاقات کا کیا امکان ہے؟ کیا بابر چیمہ نے مسز لونی علی سے میری ملاقات کا کوئی وقت لیا ہے؟ اسد اسماعیل نے کہا کہ اس سلسلے میں بابر چیمہ ہی درست بتا سکتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے بابر چیمہ کا نمبر ملایا اور فون میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ بابر نے بتایا کہ لونی علی آج کل ریاست ایریزونا کے شہر فینکس گئی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ محمد علی نے اپنی زندگی کے آخری سال فینکس میٹروپولٹین کی پیراڈائز ویلی میں اپنے خرید کردہ گھر میں بسر کیے۔ پارکنسن کی طویل بیماری کے سلسلے میں محمد علی نے 2005ء میں اپنے گھر کے قریب واقع سینٹ جوزف ہسپتال میں پارکنسن کے علاج کیلئے نہ صرف محمد علی پارکنسن سنٹر بنایا بلکہ خود بھی اس میں زیرِ علاج رہا۔ محمد علی نے اپنی زندگی کے آخری سانس کمرہ نمبر263 آنر ہیلتھ سکاٹس ڈیل ایریزونا میں لیے۔ محمد علی کی بیوہ یولنڈا لونی علی اپنے اسی گھر گئی ہوئی تھی۔ بابر چیمہ کے پاس محمد علی سے متعلق ہر قسم کی معتبر اور تازہ ترین معلومات ہوتی ہیں۔ لوئی ویل کے دوستوں میں بابر چیمہ محمد علی اور اس کے گھر والوں سے نہ صرف بہت زیادہ رابطے میں رہا ہے بلکہ محمد علی کے جنازے کے سلسلے میں بہت زیادہ متحرک اور متعلق رہا ہے۔
محمد علی تین جون 2016ء کو اس دنیا سے رخصت ہوا تاہم اس کی آخری رسومات اس کی وفات کے چھ روز بعد مورخہ نو جون کو لوئی ویل میں ادا کی گئیں۔ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے اس کے چاہنے والوں کیلئے انٹرفیتھ دعائیہ اور الوداعیہ تقریب کا اہتمام 22ہزار افراد کی گنجائش والے کے ایف سی یم سنٹر میں کیا گیا تھا۔ لوگوں کی بہت زیادہ تعداد میں متوقع آمد کے پیشِ نظر اس سنٹر میں داخلے کیلئے بلا قیمت ٹکٹ جاری کیے گئے جو پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر تقسیم کیے گئے۔ ان ٹکٹوں کے حامل افراد تو اس تقریب میں شامل ہو گئے تاہم دیگر ہزاروں افراد نے محمد علی کی میت گاڑی کا نظارہ کرنے اور محمد علی کو آخری بار الوداع کہنے کیلئے طے کردہ روٹ کی سڑکوں کے دونوں طرف کھڑے ہو کر اپنی محبت کا نذرانہ پیش کیا۔ محمد علی کے تابوت اٹھانے والوں (Pallbearer) میں دو سابق عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن مائیک ٹائیسن اور لینوکس لیوس کے علاوہ محمد علی کی زندگی پر بننے والی فلم ''علی‘‘ میں محمد علی کا کردار نبھانے والے مشہور اداکار وِل سمتھ جبکہ اعزازی پال بیئررز میں سابق عالمی باکسنگ چیمپئن جارج شوالو‘ لیری ہومز اور جارج فورمین شامل تھے۔ اس کثیرالمذاہب دعائیہ تقریب میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن‘ مزاحیہ اداکار اور فلمساز ہلی کرسٹل‘ سپورٹس جرنلسٹ بریانٹ گمبل اور محمد علی کی بیوہ لونی علی نے محمد علی کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس تقریب میں محمد علی سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر دو یہودی مذہبی پیشوا (Rabbi) اور دو بدھ بینڈ بجانے والوں کے علاوہ دو ریڈ انڈین چیف بھی شریک ہوئے۔ یہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے محمد علی سے محبت کا اظہار تھا۔
محمد علی کی نماز جنازہ 10جون بروز جمعہ فریڈم ہال سے متصل کینٹکی ایکسپوزیشن سنٹر میں ادا کی گئی۔ یہ لوئی ویل شہر یا ریاست کینٹکی کی ہی نہیں بلکہ امریکہ کی تاریخ سے سب سے بڑی نمازِ جنازہ تھی اور بھلا کیوں نہ ہوتی‘ محمد علی بلاشبہ امریکہ کی تاریخ کا سب سے مشہور‘ سب سے زیادہ چاہے جانے والا اور سب سے نامور مسلمان تھا۔ نماز جنازہ میں پندرہ ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی جس میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور اردن کے بادشاہ عبداللہ ثانی کے علاوہ امریکہ بھر سے مسلمانوں نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کی امامت کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے امام زید شاکر نے کی۔ جب محمد علی نے ماؤنٹین ٹائم کے مطابق رات آٹھ بج کر تیس منٹ پر آخری سانس لیے تب امام زید شاکر اس کا ہاتھ پکڑے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کر رہے تھے۔ جب امام نے محمد علی کے چلے جانے کا اشارہ کیا تو ڈاکٹروں نے وینٹی لیٹر ہٹا دیا۔ اس وقت محمد علی کے کمرے میں اس کی بیوی لونی‘ نو بچوں اور نواسے نواسیوں سمیت اس کا سارا خاندان اس کے سرہانے موجود تھا۔ مغرب کی نفسا نفسی میں یہ ایک منفرد واقعہ تھا۔ محمد علی نے دنیا سے رخصتی سے قبل ہی اپنی ساری تیاریاں مکمل کر رکھی تھیں۔ اس نے اپنے کفن کے کپڑے کیلئے نو سال قبل ہی آرڈر دے رکھا تھا۔ احمد اویس نے محمد علی کی میت کو غسل دینے کے بعد ہمدانی برادران کا تیار کردہ سفید سادہ کپڑے کا کفن پہنایا۔ بقول ہمدانی‘ جب نو سال قبل اسے صرف سائز دے کر اس کپڑے کو بالکل سادہ رکھنے کا کہتے ہوئے تیاری کیلئے کہا تو اسے بالکل علم نہیں تھا کہ وہ کفن کا یہ کپڑا محمد علی کیلئے تیار کروا رہا ہے۔
ایریزونا سے محمد علی کی میت لوئی ویل لے جانے کیلئے جب لونی نے سان فرانسسکو جائنٹ سے بوئنگ 737جہاز چارٹر کروانے کیلئے رابطہ کیا تو کمپنی کے نمائندے نے پوچھا کہ آخر لوئی ویل میں کیا چل رہا ہے کہ ہر کوئی وہاں جانا چاہتا ہے اور لوئی ویل جانے کیلئے لوگوں کو ٹکٹ نہیں مل رہے اور آپ کو چارٹر جہاز کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ لونی نے اسے بتایا کہ اس جہاز میں وہ اپنے شوہر کی میت لے کر جانا چاہتی ہے۔ ایجنٹ کو تب تک معلوم نہیں تھا کہ لونی محمد علی کی بیوہ ہے اور یہ جہاز محمد علی کو لے کر لوئی ویل جائے گا۔
میں محمد علی کے بارے میں کیا لکھوں اور کب تک لکھتا رہوں‘ وہ ایک ایسا انسان ہے جو بیک وقت باکسنگ اور انسانی حقوق کا لازوال استعارہ اور علامت ہے۔ محمد علی کا باکسنگ کے علاوہ دوسرا رُخ اس کا وہ پہلو ہے جو انسانی حقوق‘ شرفِ انسانی‘ نسلی تعصب کے خلاف جدوجہد اور اسلامی تشخص کے فروغ کیلئے دنیا کے سامنے آیا۔ اس کی وجہ شہرت اگر صرف باکسنگ کے طفیل ہوتی تو اس کے چاہنے والوں میں صرف باکسنگ کے شائق ہوتے۔ اگر اس کی وجہ شہرت صرف مسلمان باکسر کے طور پر ہوتی تو اس سے محبت کرنے والوں میں صرف مسلمان ہی ہوتے مگر اس کی محبت میں گرفتار لوگوں کی تعداد اس تصور سے بھی زیادہ ہے جو ہم سوچ سکتے ہیں۔ اس کی آخری رسومات دیکھنے والوں کی تعداد ایک ارب سے زائد تھی۔ محمد علی امریکہ کی تاریخ کا سب سے مقبول‘ سب سے مشہور اور سب سے زیادہ محبت کیے جانے والا مسلمان تھا۔ اس نے غیر مسلم لوگوں میں اپنی یہ محبت اپنے اس رویے اور طرزِ زندگی سے پیدا کی جسے اس نے باکسنگ رِنگ سے باہر سرانجام دیا۔ سیاہ فام لوگوں سے ہونے والے نسلی تعصب ‘ مسلمانوں کے بارے میں عمومی غلط فہمیوں اور دین اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنے کیلئے اس نے دنیا بھر کے مختلف ممالک کا سفر کرتے ہوئے اپنی تقاریر سے ٹی وی شوز پر اپنی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی سے اور مختلف سیمینار میں اپنی سنجیدہ گفتگو سے جس طرح پوری ایک نسل کو متاثر کیا وہ صرف محمد علی کا ہی خاصا تھا۔ ویتنام کی جنگ کے خلاف اس کے موقف کے بعد یہ ایک اور ایسا پہلو تھا جس نے اسے باکسنگ لیجنڈ سے ''دی گریٹسٹ‘‘ کے مرتبے پر فائز کیا۔
لوئی ویل محمد علی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کیلگری(کینیڈا) روانہ ہوتے ہوئے میں دل ہی دل میں اپنے مالک سے اپنے محبوب باکسر محمد علی کے درجات کی بلندی کیلئے دعا کرتا رہا تاوقتیکہ میرا طیارہ ہوا میں بلند ہو گیا۔ شکریہ بابر چیمہ اور اسد اسماعیل کہ آپ کے طفیل دل کا بوجھ کچھ تو کم ہوا۔ الوداع لوئی ویل۔