ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ان حالات میں جس قسم کا کالم میں لکھنا چاہتا ہوں مجھے اس بارے پیشگی علم ہے کہ وہ چھپ نہیں سکے گا اور جس قسم کا کالم چھپ سکتا ہے اس قسم کا کالم لکھنے کو دل راضی نہیں ہے۔ اب اس عمر میں دل منافقت پر کسی طور مان ہی نہیں رہا۔ خیر اس دل کی کیا کہیں‘ پہلے بھی اس قسم کی حرکتیں کرتا رہا ہے۔ اب تو عادت سی ہو گئی ہے۔ اس دور میں بھلا منافقت کون سی مشکل یا حیران کن چیز ہے کہ یہ عاجز نہ کر سکے۔ مگر ضمیر کے خلاف لکھنے پر دل ہی نہ مانے تو پھر دل کی ہی ماننی چاہیے۔
یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کا دل کسی خاص بات پر لکھنے کیلئے اُکسائے اور حالات موافق نہ ہوں تو آپ سرے سے اُس روز کالم ہی نہ لکھیں۔ کالم تو بہرحال لکھنا ہو گا۔ خواہ آپ کا دل چاہے یا نہ چاہے‘ سو جب دل ایک موضوع پر لکھنے میں مشکل پائے تو پھر اسے اُس موضوع کو چھیڑنا چاہیے جس پر وہ لکھنے میں راضی ہو اور خوشی محسوس کرے۔ جب اس عاجز کو خوشی درکار ہوتی ہے وہ کتابوں میں پناہ لیتا ہے۔ وہ کوئی نئی کتاب ہو‘ کسی کتاب کا تعارف ہو یا کوئی لائبریری ہو۔ گزشتہ چند روز سے میں اپنے ہیرو محمد علی کے بارے میں لکھی ہوئی اس کے بھائی رحمان علی کی کتاب ''My Brother‘‘ کا اردو ترجمہ'' میرا بھائی‘‘ پڑھ رہا ہوں۔ یاسر جواد نے ایسا عمدہ ترجمہ کیا ہے کہ بعض جملے پڑھ کر لگتا ہے کہ ترجمہ نہیں کسی نہایت ہی منجھے ہوئے لکھاری نے ادبی چاشنی میں ڈوبے ہوئے جملے تحریر کیے ہیں۔ محمد علی کی زندگی کے وہ پہلو جن سے محمد علی کا یہ عاشق لاعلم تھا‘ کئی ایسی تفصیلات جن کی جزوی معلومات تو تھیں مگر ایسی جزئیات صرف وہی شخص فراہم کر سکتا تھا جس کا بچپن‘ جوانی اور اس کے بعد کا سارا وقت ہی محمد علی کے ساتھ گزرا ہو۔ وہ شخص محمد علی کے اکلوتے بھائی رحمان علی کے علاوہ بھلا ہو بھی کون سکتا ہے۔
مجھے ایک روز امر شاہد کا فون آیا کہ وہ مجھے ایک سرپرائز دینا چاہتے ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں یہ بات سن کر زیادہ متجسس نہ ہوا کہ اب اس عمر میں تجسس ختم نہ سہی مگر وہ درجۂ ہیجان اب قطعاً مفقود ہے جو کبھی محسوس ہوتا تھا‘ لہٰذا زیادہ تردد کرنے کے بجائے یہ سوچا کہ کل تک ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''جو کٹا کٹی کھلنا ہوگا کھل جائے گا‘‘ سو یہ عاجز اپنے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ اگلے روز شام کو گھر واپس پہنچا تو محمد شفیع نے ایک پارسل تھما دیا۔ میں نے وہ پارسل وہیں کھڑے کھڑے کھولا۔ دیکھ کر دل خوش ہوا کہ میرے بچپن‘ جوانی اور اس ادھیڑ عمری کے ہیرو محمد علی کے بارے میں ایک کتاب بلکہ ایک شاندار دستاویز میرے ہاتھ میں تھی۔ معلوم ہوا کہ شاہد حمید مرحوم کے بیٹوں نے اس کتاب کو جس پہلے شخص کو بھیجنے کا انتخاب کیا وہ یہ عاجز تھا۔ شاید انہوں نے میرا انتخاب کرتے وقت میرٹ صرف محمد علی سے محبت بنایا ہوگا۔ اگر وہ معیار بدل دیتے تو بہت سے لوگ اس کتاب کے مجھ سے زیادہ اہل ٹھہرتے۔
محمد علی کی ایسی ایسی یادیں اور ایسی باتیں کہ بندہ پڑھ کر محسوس کرتا ہے کہ جس بچے نے آگے چل کر اس درجہ عالمی شہرت اور محبت حاصل کرنی تھی اس کا بچپن اور لڑکپن عین اسی طرح کا ہونا چاہیے تھا جیسا محمد علی کا تھا۔ چند مستثنیات کے ساتھ جن لوگوں نے آگے چل کر دوسروں سے ممتاز ٹھہرنا ہوتا ہے وہ اوائل عمری میں بھی دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ کسی نے محمد علی سے پوچھا کہ اگر آپ باکسنگ چیمپئن نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ محمد علی مسکرایا اور کہنے لگا: اگر میں خاکروب بھی ہوتا تو دنیا کا سب سے بہترین خاکروب ہوتا۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے مگر صرف ان کیلئے جو محمد علی سے محبت کرتے ہیں‘ تاہم ہمارے دوست محمود احمد لئیق جو سوانح پڑھنے سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اس کتاب کو پڑھیں گے تو اسے سو میں سے سو نمبر دیں گے۔ کراچی میں مقیم ہمارے بزرگ دوست محمود احمد لئیق کے پاس سوانح عمریوں کا ایسا شاندار ذخیرہ ہے کہ کم ہی لوگوں کے پاس ہوگا۔ اوپر سے یادداشت اب بھی ایسی مستحکم ہے کہ بندہ حیران رہ جائے۔ ہاں! البتہ شعر لکھتے ہوئے بعض اوقات اس کے مفہوم کو پوری صحت کے ساتھ لکھنے کے دوران ایک آدھ لفظ دائیں بائیں کرکے وزن کا معاملہ گڑ بڑ کر دیتے ہیں مگر پھر بھی داد دینے کو دل کرتا ہے کہ ہر موضوع پر گفتگو کے دوران اساتذہ سے لے کر جدید شعرا تک کے درجنوں اشعار سنا دیتے ہیں۔ ان سے گفتگو کرکے یا ان کی یادیں پڑھ کر ایسا لطف آتا ہے کہ جی خوش ہو جاتا ہے۔ اس دور میں بھلا جی کا خوش ہونا کون سی معمولی بات ہے؟
صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ملک کی فضاؤں میں ڈرون اُڑ رہے ہیں اور ہر طرف انہی کا تذکرہ ہے۔ بقول شوکت گجر بھلا خالد مسعود بھی کسی ڈرون سے کیا کم ہے۔ سو اس فقیر نے سوچا کہ جہاں اتنے ڈرون ہر طرف سے چلے آ رہے ہیں اگر ان میں ایک ڈرون کا اور اضافہ ہو جائے تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ سو میں نے گاڑی نکالی اور ملتان کی فضاؤں میں عرشی ڈرون کے بجائے سڑکوں پر فرشی ڈرون کا فریضہ سنبھال لیا اور حسین آگاہی روڈ کا رخ کیا جہاں کسی نے بتایا تھا کہ اب تجاوزات کے خاتمے کے بعد گزرنے کیلئے کھلی جگہ میسر ہے اور شہریوں نے ایک عرصے بعد اس سڑک کو‘ جو لنڈے سے بھری ہوئی ریڑیوں‘ الیکٹرانکس کی مصنوعات والے موبائل سٹالوں اور دکانداروں کی طرف سے اپنی آدھی اشیا دکان سے نکالی کر فٹ پاتھ پر رکھنے کی وجہ سے نہ صرف گاڑیوں کی آمدورفت بلکہ پیدل چلنے والوں تک کیلئے باعث آزار بن چکی تھی‘ اب نہ صرف یہ کہ بہت بہتر حالات میں ہے بلکہ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے اسی اچھی حالت میں ہے۔ اس سے قبل بھی یہ سڑک کئی بار تجاوزات سے پاک کی گئی مگر ادھر تجاوزات شکنی والے اپنا کام مکمل کرکے واپس گئے ادھر سارا تجاوزات مافیا دوبارہ آن قابض ہوا‘ مگر اس بار ایسا کچھ نہیں ہو پا رہا اور انتظامیہ کی مسلسل نگرانی کے باعث اور خود دکانداروں کی تنظیموں کی جانب سے تعاون کے بعد معاملات کافی بہتر ہیں۔
میں اس سڑک سے گزر کر قلعہ کہنہ قاسم باغ کی حسین آگاہی روڈ کے اختتام پر واقع پچھلی طرف سے اوپر چلا گیا۔ ادھر سے گھوم کر بابِ قاسم کی طرف جا رہا تھا کہ میری نظر پبلک لائبریری قلعہ کہنہ قاسم باغ پر پڑ گئی۔ یہ قلعہ فی الوقت تزئین و آرائش کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور اس کی خوبصورتی کی زد میں یہ لائبریری آئی ہوئی ہے۔ باہر سے گزرتے ہوئے اس لائبریری کے برآمدے پر نظر پڑی تو دل کو شدید دھچکا لگا۔ یہ ملتان کی شاید تیسری قدیم ترین لائبریری ہے جس میں بلا مبالغہ ہزاروں نایاب کتابیں برباد ہو رہی ہیں۔ لائبریری کے برآمدے گند بلا اور کوڑا کرکٹ سے بھرے پڑے تھے۔ خدا جانے وہ کون حوصلہ مند ہوں گے جو اس کچرے کے ڈھیر میں پڑھنے کیلئے آتے ہوں گے۔ ایک شاندار ماضی کی حامل تاریخ لائبریری کچرے کا ڈھیر بن رہی ہے جبکہ کولمبیا جیسے مافیا زدہ ملک میں جوزابرٹو گوٹیریز جیسا کچرا اٹھانے والا شخص کچرے سے لائبریری بنانے میں مصروفِ عمل ہے۔ کسی روز بگوٹا سے تعلق رکھنے والے جوزا برٹوگوٹیریز پر لکھوں گا مگر اب یہ ڈرون گھر جاتا ہے۔