یہ خبر ہی میرے لیے بہت مسحور کن ہے کہ پاکستان میں ادبی میلوں کا انعقاد ہواہے۔لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والے اس سلسلہ تقریبات میں، میں شریک نہیں ہوا لیکن یہ تصوّر ہی کم نشاط انگیز نہیں کہ طارق علی ’’کلچر اور سیاست ‘‘ پر گفتگو کر رہے ہیں۔ عائشہ جلال’’کیا پاکستان جدید ریاست ہے؟‘‘ جیسے سوالات پر خطاب کر رہی ہیں۔ محمد حنیف اپنے نئے ناول کاذکر کر رہے ہیں اور فیض صاحب کے انگریزی تراجم ایک تنقیدی نشست کا موضوع ہیں۔یہ اس پر مستزاد ہے کہ مختلف اشاعتی ادارے اپنی کتابیں فروخت کر رہے ہیں۔ انتہا پسندی اور خودکُش حملوں نے اس ملک کی شناخت ہی کو مجروح نہیںکیا،میری زندگی سے بھی ہر وہ رنگ چھین لیا جو زندگی اور محبت کی علامت تھا۔اس پسِ منظر میں، جب میں ادبی میلوں کا خیال کرتا ہوں تو لگتا ہے شبِ تاریک میں جیسے کوئی جگنو چمک اٹھے۔ یوں توہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے ہفتہ عشرہ قبل جب اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی نے کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا تو بھی مجھے بہت خوشی ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ محض کتب فروشی سے عبارت نمائش تھی جس میں کوئی ادبی یا علمی مجلس شامل نہ تھی لیکن محض یہ بات بھی کچھ کم باعثِ مسرت نہ تھی۔میں ہر روز جاتا اورخالی ہاتھ نہ آتا۔سچ یہ ہے کہ میں جب کسی ایسی تقریب کے بارے میں سُنتا ہوں توکھِل اُٹھتا ہوں۔میری کیفیت اس محروم کی ہوتی ہے جو برسوں سے بادو باراں کے طوفان میںہو اور ایک روز اچانک دیکھے کہ آسمان کے کسی گوشے سے آفتاب کی کرنیں چھَن چھَن کے اس کی طرف آرہی ہوں۔ لوگ زندہ ہوں تو زندگی سماج میں بھی دوڑتی بھاگتی، ہنستی کھیلتی اوراٹکھیلیاںکرتی دکھائی دیتی ہے۔ ہوا کا جھونکا چُھو جائے تو لگتا ہے کسی نے پیارسے گالوں کو تھپتھپایاہے۔گلی میں کسی خوانچے والے کی آواز بھی گیت سنائی دیتی ہے۔فرد زندہ ہوتو سماج بھی زند ہ نظرآتا ہے۔ سماج کی زندگی کیا ہے…؟مظاہرِ فن، موسیقی،مصوری، سینما، رسائل، کتب، خانقاہیں، مساجد، گرجے… یہ سب دکھائی، سنائی اور آباد نظر آئیں تو اس کا مطلب ہے زندگی رواں دواں ہے۔ اس کو دوسری ترتیب سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ اگر سماج زندہ ہو تو فرد کی رگوں میں بھی زندگی دوڑتی ہے۔ زندگی کی ایک علامت ارتقا ہے۔ جسم اور ذہن دونوں ارتقا پذیر ہوں تو ہم کہتے ہیں آدمی زندہ ہے۔جسمانی یا ذہنی نشوو نما یا ارتقا رُک جائے تو معلوم ہوتا ہے زندگی روٹھنے لگی ہے۔اس کیفیت میں اگر کوئی طبّی زبان میں زندہ بھی قرار پائے تو زندگی ایسے وجود کو اپنے لیے تہمت سمجھتی ہے۔ سماج کے ذہنی اور فکری ارتقا کا اظہار کتابوں سے ہوتا ہے۔ کتابیں بتاتی ہیں کہ معاشرتی سطح پر زندگی کا سفر جاری ہے۔ پرانے خیالات پر اگر اصرار ہے تو استدلال نیا ہے۔ قدیم فکر تنقید کی زد میں ہے۔ نئے خیال جنم لے رہے ہیں۔ خیالات پر غلط صحیح کا حکم بھی لگتا ہے لیکن بعد میں۔ پہلے مرحلے پر یہی بہت ہے کہ خیالات کی دنیا میں جمود نہیں۔ وقت کا بہتا دریا فطری طریقے سے فکر کے آبِ رواں کو ستھرا کر دیتا ہے۔ جھاڑ پونچھ نیچے بیٹھ جاتے ہیں۔اس لیے زندہ معاشرے اس سے نہیں گھبراتے کہ ان کے ہاں کسی اجنبی خیال نے جنم لیا ہے۔ انہیں تب تشویش ہوتی ہے جب بہتا پانی رک جائے اور انسانی ذہن جوہڑمیں بدل جائے۔ پاکستانی سماج کا ارتقا ایک مُدت سے رکا ہوا ہے۔ یہاں انسانی ذہن کو مخصوص نظریات اور اندازِ نظر کا اسیر بنانے کی منظم مہم ہے۔ بہت سے لوگ اسے کارِ ثواب سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں۔مذہب، تہذیب،تاریخ ،سیاست ہر باب میں کچھ طے شدہ تصورات ہیں۔ ان سے انحراف کہیں اِرتداد ہے اور کہیں غدّاری۔ اس مہم کا نتیجہ یہ ہے کہ سماج ذہنی طور پر بانجھ ہو گیا ہے۔تخلیقی سوتے خشک ہو گئے ہیں۔ تخلیق کار ملک سے جا چکے یا دنیا سے۔جو باقی ہیں خوف زدہ ہیں کہ زندگی سے پیار انسانی جبلّت ہے۔ادبی میلے کے شرکا میں جو لوگ پاکستانی شناخت رکھتے ہیں، ان میں سے اکثریت مغرب سے بطور مہمان یہاں آئی ہے۔آپ جانتے ہیں کہ عائشہ جلال کہاں رہتی ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ طارق علی کو پاکستان چھوڑے کتنے عشرے ہو گئے؟ پاکستان سے جو لوگ شریک ہوئے، میرے لیے بہت محترم ہیں لیکن ہمارے فکری جمود کو توڑنے میں کیا ان کا کوئی حصّہ ہے؟ زندگی سے دُور اس فضا میں اگر کسی ادبی میلے کی بات کانوں میں پڑتی ہے تو بہت بھلی لگتی ہے۔جیسے زندگی کی بازی ہارنے والے کسی فرد کو طبیب بجلی کے جھٹکے لگاتے ہیں کہ زندگی کی رمق کہیں موجود ہے تو لہومیں گھل جائے۔ ان میلوں سے معلوم ہوا کہ کہیں زندگی موجود ہے لیکن اس جسدِ ویران کے رگ و پے میں دوڑنے کے لیے ایسے بہت سے جھٹکوں کی ضرورت ہے، کوئی تکبیرِمسلسل۔ ادبی میلے اگر اسی طرح جاری رہیں تو میرے اطمینان کے لیے کافی ہے؛ تاہم ان میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ جے پور اور فرینک فورٹ جیسے علمی کتب میلوں کے مثیل بن سکتے ہیں۔یہ پاکستان میں تبدیلی کے لیے زیادہ مفید کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر چند امور کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ ٭ موجودہ صورت میں اس کی افادیت انگریزی خواں طبقے تک محدود ہو گئی ہے۔انگریزی مصنفین اور انگریزی مبصرین۔ طارق علی اور عائشہ جلال جیسے لوگوں نے پاکستان چھوڑا تو اردو ان کا ذریعہ ابلاغ نہیں رہا۔ میرا خیال ہے ایک آدھ نشست کے سوا ان میلوں میں انگریزی ہی کو اظہار کا ذریعہ بنایا گیا۔ اگر اُردو زبان کی کتب اور مجالس پر زیادہ توجہ دی جاتی تو ان کی افادیت کا دائرہ وسیع تر ہو سکتا تھا۔ ٭ ان میلوں میں ایک خاص نقطۂ نظر کا غلبہ رہا جسے ہم لبرل کہتے ہیں۔ کتب، مقررین اور موضوعات، سب سے یہی ظاہر ہو رہا تھا۔ میں نے اخبارات میں مجالس کی جو تفصیلات دیکھیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی نشست میں اقبال یا ان کی فکر کا عصری مطالعہ زیرِ بحث نہیں تھا۔اسی طرح الہامی ادب پر کوئی گفتگو نہیں تھی۔اس سے یہ تأثر ملتا تھا کہ یہ ہم خیال لوگوں کا اجتماع تھا۔ فکری تطہیر اور ارتقا اس کے پیشِ نظر نہیں تھا۔ ٭ مقررین کے انتخاب سے یہ واضح نہیں تھا کہ منتظمین کے نزدیک ادب سے کیا مراد ہے۔ ادب کچھ مخصوص اصنافِ سخن کا نام ہے ۔ صحافت عرفِ عام میں اس کا حصہ نہیں ہے۔ اسی طرح سماجی علوم بھی ادب شمار نہیں ہوتے۔ان میلوں میں ایسے صحافی شامل تھے جو کسی طرح بھی ادیب نہیں قرار پاتے۔اگر یہ علمی اور فکری اجتماعات تھے تو پھر بہت سے لوگوںکی عدم موجودگی کھلتی ہے۔ ٭ ان میلوں کا اہتمام ایک اشاعتی اور ایک صحافتی ادارے نے کیا۔اس کی وجہ سے میڈیا میں ان کا ذکر بہت محدود رہا۔ اگر مستقبل میں حکومت اور ان اداروں کے اشتراک سے بڑے پروگرام ترتیب پائیں جو کراچی اور لاہور تک محدود نہ ہوں تو میڈیا کی تشہیر سے ان کی افادیت کا دائرہ بڑھایا جاسکتا ہے۔ میں نے چند امور کا تذکرہ اس بنا پر کیا ہے کہ اس سے ان میلوں کی افادیت بڑھ سکتی ہے۔پاکستان کو اس وقت سماجی تشکیلِ نو کی ضرورت ہے۔ فنونِ لطیفہ اور ادب سے بڑھ کر کوئی چیز ایک متوازن سماج قائم نہیں کر سکتی۔آج غصّہ، نفرت اور انتہا پسندی جیسی اقدار کا غلبہ ہے۔ ہمارا سماج اپنی ہیت تبدیل کر چکا۔ ناگزیر ہے کہ یہاں مکالمے اور جمہوریت کا کلچر عام ہو۔ رواداری، برداشت، ایثار، محبت، خیر خواہی اور حُبِ الٰہی جیسی اقدار کو فروغ ملے۔ یہ کام اس وقت ہو سکے گا جب مزاج میں نرمی اور لطافت پیدا ہوگی۔ اس کے لیے مصوّری، موسیقی، شاعری، ادب، معبد اور خانقاہوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسا سماج چاہیے جو ’تواصی بالحق اور تواصی بالصبر‘ کے اصول پر قائم ہو۔یہ ادبی میلے اس فضا کی تشکیل کرتے ہیں۔ان کا خیر مقدم ہونا چاہیے اور ان کے دائرے کو ساری آبادی تک پھیلا دینا چاہیے۔