دہشت گردی کالفظ اس کے ذمہ داران کی طبعِ نازک پہ گراں گزرتاہے۔اس لیے تمام سیاسی جماعتوں نے از راہِ مروت اس کو ’بد امنی‘ کہا ہے۔ان سیاسی جماعتوں میں حکمران جماعت اور عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل ہیں۔میں سوچتا ہوں اہلِ سیاست کے دل میں اگر اس مروّت کا دسواں حصہ بھی عوام کے لیے ہوتا جن کا پیرہن ہی نہیں، وجود بھی دہشت گردی نے ریزہ ریزہ کردیا ہے تو شاید شکست خوردگی کا یہ منظر ہم کبھی نہ دیکھتے۔ لیپا پوتی کے لیے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ دہشت گردی کے سامنے ریاست، حکومت،علما اور عوام سب شکست کھا چکے۔سب کو اپنی سلامتی کے لالے پڑے ہیں۔جن اداروں نے عوام اور ریاست کے دفاع کی ذمہ داری اٹھائی ہے، وہ اپنی حفاظت پہ قادر نہیں۔اس کے بعد یہ خیال کر نا عبث ہے کہ وہ اس معرکہ آرائی میں دادِ شجاعت دیں گے۔اس فضا میں سیاست دان اگر مذا کرات نہ کریں تو کیا کریں؟ کیا انہوں نے انتخابی مہم نہیں چلا نی؟ کیا انہوں نے گھروں سے نہیں نکلنا ؟ آخر ہر کسی کو صدرِ پاکستان یا سپہ سالار جیسا دفاعی حصار تو میسر نہیں۔اس لیے اب کسی کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں کہ وہ ’بدامنی‘ کے ذ مہ داران سے جان کی امان چاہے۔غلام احمد پر ویز آج زندہ ہوتے تو شاید جان لیتے کہ لفظ کا مفہوم لغت میں نہیں،اس کے استعمال میں پوشیدہ ہوتا ہے۔جمعیت علمائے اسلام کی اے پی سی جب اپنی قرارداد میں’بدامنی‘کا لفظ منتخب کرتی ہے تو اس کا مطلب دہشت گردی ہوتا ہے۔ اگر کوئی اس قرارداد کو سمجھنے کے لیے لغت کی طرف مراجعت کرے گا تو اس کے مفہوم سے ہمیشہ بے خبر رہے گا۔ کراچی میں ’بدامنی‘ کا ایک اورواقعہ ہوا۔اس شہرِ بے مثال سے ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔اب تو علما بھی یہ شہر چھوڑ رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جا نتا ہوں کہ بڑے بڑے علما کے خاندان اسلام آ باد منتقل ہو چکے۔کراچی میں اب وہی رہے گا جس کے پاس کوئی متبادل نہیں۔کراچی شہر ہی کیا،اب تو پاکستان کا یہی حال ہے۔زندگی سے محبت انسانی جبلت ہے۔حب الوطنی جیسا کوئی احساس اس جبلت کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتا۔ رسالت ماب ﷺ کی ہجرت اللہ کے حکم سے تھی لیکن دمِ رخصت شہر پر الوادعی نگاہ ڈالی اور ارشاد فرمایا؛’’مکہ میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا اگر اس شہر کے مکین مجھے مجبور نہ کرتے‘‘۔صحابہ کو پہلے حبشہ اورپھرمدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی گئی۔اللہ سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے کہ انسانی جبلتوں سے جنگ نہیں ہو سکتی۔اللہ نے قصاص کا حکم دیا تو عِلّت یہی بتائی کہ یہ زندگی کی بقا کے لیے لازم ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ’بد امنی‘ انسانی لہو کو ارزاں کر دیتی ہے تو اجتماعی سطح پر یہ جبلت کیوں ظہور نہیں کرتی؟کیوں سماج کی بقا کے لیے اس کے خلاف اجماع نہیں ہوتا؟جو جبلت انفرادی معاملات میں ظاہر ہو تی ہے، وہ اجتماعی معاملے میں کیوں بروئے کار نہیں آتی؟قصاص کی حکمت آخر سماجی بقا کے تناظر میں کیوں قابلِ فہم نہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ اجتماعیت میں موت کو مختلف عنوانات سے گلیمرائز کیا جا تا ہے؟اسلام نے جب انسانی جان کے زیاں کو ناگزیر سمجھا تو اسے شہادت کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ شہید زندہ ہے ،تمہیں اس کی زندگی کا شعور نہیں۔گویا یہاں بھی زندگی کوموت کا حاصل بتایا۔اللہ کوخبرہے کہ انسان زندگی سے محبت کرتا ہے۔وہ شہادت پر اسی وقت آمادہ ہوگا جب اسے معلوم ہو گا کہ ایک بہتر زندگی اس کی منتظر ہے۔کیا ہمارے اہلِ سیاست اور دوسرے ذمہ دار اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ سماج میں ’بدامنی‘ پھیلانے والوں کے وکیل بن کر انسانی جبلّت کی نفی کر رہے ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ میں اس کی ایک ہی تاویل کر سکا ہوں۔انفرادی بقاکی خواہش اجتماعی بقاکی ضرورت پر غالب آ چکی۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ ’بد امنی‘ کے خاتمے ہی میں سماج کی زندگی ہے لیکن یہ بات کہنے کے لیے اپنی جان اور دیگر مفادات خطرے میں ڈالنے پڑتے ہیں۔اس کے بعد ممکن ہے کہ آپ کی جان چلی جائے۔کم از کم یہ تو ہو گا ہی کہ آپ انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گے۔آپ کا اقتدار تک پہنچنا محال ہو جا ئے گا۔اس مو ضوع پر ہو نے والی کل جماعتی کانفرنسوں کی قرار دادیں ایک بار پھر پڑھ لیجیے۔آپ کو بین السطور یہ لکھا دکھائی دے گا کہ یہ ان لوگوں نے مر تب کی ہیں جو سلامتی کے خوف میں مبتلا ہیں۔لوگ کہتے ہیں فوج ان میں شامل نہیں۔ میرا کہنا ہے کہ اگر وہ بین السطور لکھا پڑھ سکیں تو ان کی غلط فہمی دور ہو جائے گی۔اس پس منظر میںیہ بات قابلِ فہم ہے کہ ان قراردادوں کا مخاطب حکومت ہے، ’بد امنی‘ کے ذمہ دار نہیں۔ سماجی علوم کا مطالعہ یہ بتا تا ہے کہ کو ئی معاشرہ جب کسی محاذ پر اجتماعی حیثیت میں شکست تسلیم کر لیتا ہے تو پھر پسپائی کا یہ سفر اُسی ایک محاذ تک محدود نہیں رہتا۔ہماری پسپائی کا یہ پہلا مر حلہ نہیں ہے۔ہم اس سے پہلے کرپشن، نااہلی،جہالت،ملّائیت اور غربت سمیت بہت سے محاذوں پہ شکست کھا چکے۔ڈھلوان کا یہ سفر برسوں سے جاری ہے۔ یہ محض ایک پڑاؤ ہے۔ ایسی قوم امریکا تو کیا کسی کمزور حریف کے سامنے بھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔ میرے خیال میں اس وقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ پسپائی کے اس سفر کو کیسے روکا جا ئے؟ اس قافلے کی سمت کیسے تبدیل کی جائے؟اسی باب میں اہم تر سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن بھی ہے؟ کیا پاتال تک پہنچے بغیر واپسی ممکن ہو گی؟یہ مشکل سوال ہے۔ اس کا جواب وہی دے سکتا ہے جوتاریخ اور سماجی علوم پر عمیق نگاہ رکھتا ہو۔میرا یہ دعویٰ نہیں،اس لیے میں جو کچھ کہوں گا ، محض قیاس آرائی ہو گی۔تاہم اس میں کوئی حرج نہیں کہ اہل لوگوں کو دعوتِ غور و فکر کے لیے،قیاس آرائی کو بھی گوارا کر لیا جائے۔ میرے خیال میںیہ ممکن ہے۔ پسپائی کے ا س سفر کو رو کا جا سکتا ہے۔عملاً یہ دو طرح سے ممکن ہے۔ ایک یہ کہ ریاست سے اس کا آ غازہو۔ وہ اپنی دفاعی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے۔ریا ستی ادارے اس مفروضے کو ترک کریں کہ جہاں کسی قانونی یا بین الاقوامی مجبوری کے تحت فوج بروئے کار نہیں آ سکتی، وہاں ریاستی مقاصد کے لیے غیر ریاستی عناصر کو استعمال کیا جائے۔یہ حکمت عملی نہ صرف نا کام ہو چکی بلکہ اس نے ریاست اور سماج کو بر باد کر ڈالا۔اگر ریاست اور حکو مت کی سطح پر یہ اتفاقِ رائے ہو جائے تو چند سالوں میں فضا بدل سکتی ہے۔ دوسرا راستہ قدرے طویل ہے۔اس میں اہلِ دانش کا کر دار بنیادی ہے، وہ قومی سطح پر شعور وآ گہی کی ایک مہم چلا ئیں یہاں تک کہ حکومت اور سلامتی کے اداروں کو یہ باور کرا دیا جائے کہ اس حکمتِ عملی کو عوامی تائید حاصل نہیں۔ یہ بات ہمیں معلوم ہے جو حکو مت یا ریاست عوامی تائید سے محروم ہو جا تی ہے، وہ اپنی بقا کے لیے مجبور ہو تی ہے کہ اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کرے ۔ آزاد عدلیہ اورآزاد میڈیاکی مو جو دگی میں یہ ہدف قابلِ حصول ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی مہم کے نتیجے میں ریاست کے ذمّہ داران اس بات کے قائل ہو جائیں اورمجبوری سے نہیں بلکہ بہ صمیمِ قلب حکمت عملی کی تبدیلی پر آ مادہ ہو جائیں۔ مو جودہ پسپائی کو عارضی طور پر گوارا کیا جاسکتا ہے کہ ملک انتخابات کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ تاہم یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ جس سماج میں انفرادی بقا کی خواہش اجتماعی بقا کی ضرورت پر غالب آ جا تی ہے وہاں بالآخرانفرادی بقا بھی ممکن نہیں رہتی۔ (پسِ تحریر: میری بات کی پوری تفہیم کے لیے،کالم میںجہاں’ بدامنی‘ لکھاہے، اُسے ’دہشت گردی‘ پڑھا جائے۔)