’’اگر حالات نے مجبور کیا تو ہم خود دہشت گردوں اور علما و طلبا کے قاتلوں کو گولیاں ماریں گے‘‘۔ یہ الفاظ کسی انتہا پسند تنظیم کے رہنما کی زبان سے ادا نہیں ہوئے۔یہ قول جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل اور ایوانِ بالا کے رکن مو لانا عبدالغفور حیدری کاہے۔آپ کے رہنمامو لانا فضل الرحمن ہیں جو اہلِ مذہب میں جمہوریت کے سب سے ممتاز وکیل ہیں۔یہی بات میرے لیے باعثِ حیرت ہے۔ سچ یہ ہے کہ آدمی کی پہچان دو مواقع پر ہی ہو تی ہے، جب وہ خوش ہو اور جب غصے میں ہو۔بہادر شاہ ظفر نے کہا ہے ؎ ظفر آ دمی اس کو نہ جانیے گا،ہو وہ کیساہی صاحبِ فہم و ذکا جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا سانحہِ لاہور پر لوگ احتجاج کر رہے ہیں لیکن اس سوال کو مخاطب بنانے پر آ مادہ نہیں کہ انتہا پسندی کہاں سے جنم لیتی ہے۔یہ سماجی رویے ہیں جو دراصل ایسے حا دثوں کی آبیا ری کر تے ہیں۔ہم جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں اور پھر انصاف کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ مو لانا حیدری جس رویے کی پرورش کرر ہے ہیں،مو لا نا فضل الرحمن اس کی نفی کرتے رہے ہیں۔بہت سال پہلے کی بات ہے کہ جھنگ کے علاقے میںجمعیت علمائے اسلام سے وابستہ پانچ افراد قتل کر دیے گئے۔ راولپنڈی کی ایک مسجد کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوا۔میں اتفاق سے اسی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کر کے باہر نکلا تھا۔ہجوم کا اصرار تھا کہ یہ قتل شیعہ سنی تنازعے کا شاخسانہ ہیں۔جھنگ اُس دور میں اس حوالے سے بہت مشہور تھا۔نعرہ بازی بھی اسی طرح کی ہو رہی تھی۔مولانا فضل الرحمن نے تقریر کی تو انہوں نے مجمع کا رخ بدل دیا۔ انہوں نے اسے شیعہ سُنّی کے بجائے، ملک دشمن اور ملک دوست گروہوںکا تصادم قراردیا۔حاضرین مایوس تو ہوئے لیکن احتجاج پر امن رہا اور فرقہ وارانہ نہیں بن سکا۔لیڈر دراصل عوامی جذبات کو رخ دیتے ہیں۔وہ اگرتشدد کی بات کریں گے توپھر انہیں یہ گِلہ نہیں کر نا چاہیے کہ سماج سے امن رخصت کیوں ہو گیا؟ پاکستان میں ایک عرصہ سے مختلف عنوانات سے تشدد کی وکالت ہو رہی ہے۔کبھی مذہب کی حمیت میں ، کبھی فرقہ وارانہ تعصب کے تحت، کبھی حب الو طنی کے نام پر، کبھی لسانی بنیادوں پر،کبھی غیرت کے لبادے میں۔اس ’’کارِ خیر‘‘ میں وہ سب شریک ہیں جن کے ہاتھ میں قلم ، منہ میں زبان، سرپہ دستاریا بدن پہ خلعتِ قیادت ہے۔جوزف کالونی جیسے واقعات اچانک نہیں ہوتے۔یہ ساری کوششیں رنگ لاتی ہیں اور پھر حادثات ہوتے ہیں۔ غور کیجیے تو اس کی بنیاد اس عہد میں رکھی گئی جب ہمارے ہاں تشدد کی نج کاری ہوئی۔ مذہب تو پہلے ہی اس کے خلاف تھا۔ انسان نے اپنے تہذیبی ارتقا سے بھی یہی سیکھا کہ تشدد کو اجتماعی نظم کے تابع کر دیا جائے۔جنگ بھی تشدد کی ایک صورت ہے۔انسان جب اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھاتاہے تو یہ بھی تشدد ہی ہو تا ہے۔دفاع انفرادی ہو یا اجتماعی ،انسان کی فطرت میں ہے۔انسان نے یہ سیکھا کہ اس فطری تقاضے کو کسی نظم کے تابع کر دیا جائے تاکہ تشدد بے قابو نہ ہو۔اسی کے تحت جدید ریاست کا تصور سامنے آیا جس میں ایک سماج کے اجتماعی اور انفرادی دفاع کی ذمہ داری ریاست نے اٹھا لی۔ فوج اجتماعی دفاع کے لیے وجود میں آئی اور پولیس جیسے ادارے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے۔اب فرد کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت نہیں رہی۔کسی خطرے کی صورت میں اب اسے ایک فون کرنا ہے اور پولیس ان کی مدد کے لیے مو جود ہے۔ خارجی خطرہ ہے تو سرحدوں پہ فوج تعینات ہے۔یہ نظم قائم ہو نے کے بعداسلحہ رکھنے اور استعمال کر نے کا انفرادی حق ختم ہو گیا اِلاّ یہ کہ ریاست کسی کو یہ حق دے۔ لائسنس اسی کا اظہار ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان میں ریاست جان و مال کی حفاظت میں پو ری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ خارجی محاذوں پہ ریاست کی ناکامی اس سے واضح ہے کہ عسکریت پسندوں کے گروہ بنا لیے گئے۔ ریاست کی اس ناکامی کے بعد دفاع، فرد کا ہو یا ملک کا، ایک نجی عمل بن گیا۔ ہر دکان اور ہر گھر کے دفاع پرایک بندوق بردار محافظ ما مور ہے۔ملک اسلحے کا گودام بن چکا اور کوئی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ریاست کی اس ناکامی کا یہ مطلب نہیں تھا کہ سماج کو تشدد کا درس دیا جائے۔اس کے دو علاج تھے۔ایک یہ کہ ریاست کے نظام کی اصلاح کی جائے۔ یہی سیاست ہے۔دوسرا یہ کہ سماج میں تشدد کی حو صلہ شکنی کی جائے۔سماج کو بتا یا جائے کہ مذہب کا معا ملہ ہویا سیاست کا، اختلافِ رائے فطری ہے اوراس بنیاد پر کوئی گردن زدنی نہیں ہو جا تا۔ مولانا عبدالغفور حیدری جیسے رہنماؤں کو سوچنا ہو گا کہ ان کے مخاطب مدرسوں کے نو جوان طلبا اگران کے اقوالِ زرّیں پہ عمل پیرا ہوں تو سماج کا کیا حشر ہوگا۔واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں،اس کی وجہ یہی شعلہ اُگلتی زبانیں اور قلم ہیں۔ اس باب میں مو لانا حیدری کا نہیں، مولانا فضل الرحمن کا رویہ ہی مناسب ہے۔ورنہ جوزف کالونی جیسے حادثات کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔