ڈاکٹر محمدشکیل اوج صاحب کی کتاب ’’نسائیات‘‘ کئی روز سے میز پر رکھی ہے۔ خیال یہ تھا کہ سیاستِ دوراں سے فرصت ملے گی تو کسی سنجیدہ موضوع کا رخ کروں گا۔ صحافت کی دنیا میں ایسی خواہشات اکثر حسرت میں ڈھل جاتی ہیں۔ کالم کی باگ مدت ہوئی کالم نگارکے ہاتھ سے نکل چکی۔وہ اب عوامی خواہشوں کا اسیر ہے کہ کالم اس کے لیے ذریعہ معاش ہے۔ معاش ہمیشہ ’بازار‘ کے تابع رہی ہے۔ سرد موسم میں برف کے گاہک نہیں ہوتے۔ اگر کوئی یہ ’کاروبار‘ کرے گا تو اس کا انجام معلوم ہے۔ اب کالم کے لیے سنجیدہ موضوعات کا انتخاب وہی کرے جو جنوری میں برف بیچنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ سنجیدگی کاخریدارآج موجود نہیں اور صحافت کا اصرار ہے کہ وہ اصلاً کاروبار ہے۔ نفسِ مضمون، زبان کی صحت، اسلوب کی شائستگی، سب ماضی کے قصے ہیں۔ کم و بیش پندرہ برس ہونے کو ہیں جب ایک مقبول کالم نگار نے بہت محبت اور یقیناً خلوص کے ساتھ مجھے مشورہ دیا تھا کہ تم نثر میں ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کی روایت سے اپنے تعلق پر نظر ثانی کرو۔ یہ متروک اسلوب ہے۔ ہم منٹوکے عہد میں جی رہے ہیں اور اب اسی کا اندازِ تحریر قبولیتِ عام حاصل کرے گا۔ ان کا تجزیہ سوفی صد درست تھا۔یہ ایک الگ بات ہے کہ میں ’دبستان شبلی‘ سے لا تعلق نہیں ہو سکا۔منٹو کی پیروی میں کالم آگے نکل گیا۔ اس کا اسلوب تو شاید کسی حد تک باقی ہے لیکن اس کی سنجیدگی نہیں۔ اس لیے اب ’اسلوب‘ ہی وہ جنس ہے جو بازارِ سخن میں قابلِ فروخت ہے۔ اگر لکھنے والا اسلوب سے نفسِ مضمون کی طرف لوٹنا چاہے تو شاید اس پر قادر نہ ہو۔ کالم کی باگ اب اس کے ہاتھ میں کہاں ہے۔ یہی مجبوری تھی کہ ’’نسائیات‘‘ مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی رہی مگرمیں اس سے نگاہیں چراتا رہا۔ دو دن پہلے ایک خبر نظر سے گزری تو اس کتاب نے ایک بار پھر آواز دی۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ سنجیدہ کتاب ’خبر‘ سے مربوط ہو گئی ہے۔اب یہ محض ایک علمی کتاب کا ذکر نہیں، ایک عصری موضوع کا بیان ہے۔خبر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے ایک تاریخی قرارداد منظورکی ہے جس سے مقصود خواتین پر تشدد کی روک تھام ہے۔قرارداد کہتی ہے:’’کوئی رواج، روایت یا مذہبی حوالہ، خواتین پر تشدد کے لیے بطورِ جواز قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس قرارداد کی ابتدائی صورت مسلمان ملکوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی۔ 2003ء میں بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہوئی جو ناکام رہی۔اس بار 193ممالک ایک ایسی قرارداد پر متفق ہوگئے جو سب کے لیے قابلِ قبول ہے۔ایران، لیبیا اور چند دوسرے مسلمان ممالک کے ساتھ ویٹی کن کو بھی بعض باتوں پر اعتراض تھا جو اب باقی نہیں رہا۔ دورِ جدید نے سماج کے روایتی تصورات کو یک سر بدل دیا ہے۔ اس ’دورِ جدید‘ کا آغاز صنعتی انقلاب کے ساتھ ہو گیا تھا۔ اس نے سب سے زیادہ خاندان کے روایتی تصور کو متأثر کیا۔ شہروں کی طرف نقل مکانی اور نئے معاشی حقائق نے انسانوں کے سماجی کردار کا تعین نئے سرے سے کیا۔ پہلے مشترکہ خاندانی نظام تھا۔ ایک چھت تلے بہت سے رشتے آباد تھے۔ اب نیوکلیر فیملی کے تصور نے جنم لیا اور گھر صرف ماں باپ اور بچوں کا نام رہ گیا۔اس سے پہلے مرد ہی کفیل ہوتا تھا۔ اب خاتون بھی کفالت کے عمل کا حصہ بن گئی۔ اس طرح معاشی ذمہ داری جب منقسم ہوئی تو اختیار کا قدیم تصور بھی چیلنج ہوا۔ عورت جب معاشی عمل میں شریک تھی تو اسے فیصلہ سازی سے الگ رکھنا ممکن نہیں ہو سکا۔ اس سے سماج کا نیا تصور سامنے آیا۔ جہاں جہاں صنعتی انقلاب کے اثرات پہنچے وہاں وہاں خاندان اور معاشرے کا روایتی تصور بحران کا شکار ہوا۔ مسلمان معاشرے بھی اس کی زد میں تھے۔ قدامت اور جدت کی یہ بحث ہر جگہ پیدا ہوئی۔ مغرب نے مذہب کو ریاست اور سماج سے بے دخل کر دیا تو اس کے لیے یہ بات اہم نہیں رہی کہ اس باب میں مسیحیت کیا کہتی ہے۔ مسلمان معاشرے ایسا نہیں کر سکے۔ اس لیے یہاں خاندان اور خواتین کے نئے کردار کی بحث مذہبی دائرے میں گھومتی رہی۔آج بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ اس باب میںچند سوال بنیادی تھے۔ کیا خواتین کا کوئی سیاسی و سماجی کردار ہے؟ خاندان کی گرہ کس کے ہاتھ میں ہے؟مرد یا عورت؟ کیا نکاح میں عورت کی رضامندی لازم ہے؟ کیا عورت معاہدۂ نکاح کو ختم کرنے کا حق رکھتی ہے؟ اگر عورت خاندان کی کفالت کرتی ہے تو کیااس کی سربراہ بھی بن سکتی ہے؟ ایک سے زیادہ نکاح کیا مرد کا مطلق حق ہے اور یہ صنفی مساوات کے عصری تصور سے متصادم نہیں؟ کیا لونڈیوں سے جنسی تعلق آج بھی روا ہے؟یہ نکاح مسیار کیا ہوتا ہے؟ کیا مسلمان عورت پاک دامن اہلِ کتاب مرد سے نکاح نہیں کر سکتی؟ کیا کم عمر لڑکی کا نکاح جائز ہے اور اس کا ولی یہ حق رکھتا ہے؟ سماج کی تشکیلِ نو کے بعد یہ لازم تھا کہ ایک مسلمان سماج میں یہ سوالات پیدا ہوں اور اہلِ علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے جواب دیں۔ ایسے جواب جو جدید ذہن کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ ’’ نسائیات‘‘ انہی سوالوں کا جواب ہے۔ڈاکٹر محمد شکیل اوج صاحب کے بعض جواب تو بہت چونکا دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ایک نتیجہ فکر یہ ہے کہ لونڈیوں کے باب میں شہرت یافتہ تصور خلافِ قرآن ہے۔ قرآن صرف نکاح کی صورت ہی میں ان کے ساتھ جنسی تعلق کو جائز ٹھہراتا ہے۔ وہ اسے بھی غلط کہتے ہیں کہ ان کی تعداد معین نہیں ہے اورایک حرم کو لاتعداد لونڈیوں سے آباد کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نیک اہلِ کتاب مردوں سے مسلمان خواتین کے نکاح کو بھی مختلف زاویہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ عورت کے حقِ طلاق کے معاملے میں بھی انہیں مروجہ رائے سے اتفاق نہیں۔ میں نے صرف تین موضوعات کا ذکر کیا ہے۔ کتاب میں بہت سی آرا ہیں جو غیر روایتی ہیں اور ہمیں غور پر مجبور کرتی ہیں۔ ڈاکٹر شکیل اوج کے نتائجِ فکر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ہر غیرمعصوم کے نقطہ نظر میں یہ امکان مضمر ہو تا ہے۔دو باتیں، تاہم انہیں روایتی اہلِ علم سے ممتاز کر تی ہیں۔ایک یہ کہ وہ اپنے مقد مے کی بنا قرآن مجید پر رکھتے ہیں۔اسلام کا بنیادی ماخذ یہی ہے اورصاحبانِ علم سے ہم یہی تو قع رکھتے ہیں کہ وہ دین کے باب میں قرآن مجید ہی سے دلیل لائیں گے۔دوسرا یہ کہ ڈاکٹر صاحب کسی مسلکی عصبیت میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ کسی رائے کی قبولیت وتردید کے لیے قرآن مجید کو اساس بناتے اور پھردلیل اور ادب کے ساتھ اپنے استاد سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔یوں اہلِ علم کے لیے یہ آ سانی پیدا ہو جا تی ہے کہ وہ ایک مو ضوع پر مختلف آرا کے استدلال سے واقف ہو جا تے ہیں اور انہیں صحیح بات تک پہنچنے میں آ سانی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بعض آرا کو شُذوذ بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن کسی صاحبِ علم سے ان کا صدور کو ئی عجو بہ نہیں۔ابتدا میں ہر نئی بات شاذ ہی ہو تی ہے۔اگر استدلال میں وزن ہو توکسی آنے والے دور میں خود کو منوا لیتی ہے۔ اگر بات ہی کمزور ہو تو پھر تاریخ خود عدالت ہے جو رد و قبولیت کا فیصلہ کر دیتی ہے۔مو لا نا امین احسن اصلاحی سے کسی نے کہا کہ آپ فلاں مو قف میں منفرد ہیں ۔قدماء میں سے کسی نے اس رائے کا اظہار نہیں کیا۔جواباً کہا:آپ ہمارے مر نے کا انتظار کیجیے۔اس کے بعد ہم بھی قدما ء ہی میں شمار ہو ں گے۔اس لیے علم کی دنیا میں کسی رائے کا شاذ اور منفرد ہو نا عیب نہیں۔ البتہ دلیل کا نہ ہو نا اور محض تقلید کی بنیاد پر کسی رائے پر اصرار عیب ہے جسے علم کی دنیا میں گورا نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر شکیل اوج صاحب کے نتائج فکر اس عیب سے پاک ہیں۔’’نسائیات‘‘ میںبعض ایسی آرا بیان ہو ئی ہیں جن سے میں خود بھی متفق نہیں ہو سکا۔لیکن کسی اختلاف سے کتاب کی علمی حیثیت متاثرنہیں ہو تی۔ نسائیات کے باب میں یہ ایک قابلِ قدر اضافہ اورفکرِ تازہ کا جھونکا ہے۔جو لوگ عصرِ حاضر میں مسلمان خواتین کودرپیش مسائل اور ان کے بارے میں دینی نقطہ نظر جاننا چا ہتے ہیں، اُن کے لیے اس کتاب سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔یہ کتاب زبانِ حال سے سے یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہمارے علمی سوتے ابھی خشک نہیں ہو ئے۔قرآن مجید پر غور و فکر کا سلسلہ جاری ہے اور اہلِ تحقیق یہ جرأت رکھتے ہیں کہ وہ قائم شدہ آرا سے اختلاف کریں۔ دلیل کے ساتھ اختلاف کی یہ صفت ہی ایسی ہے جو نسائیات کی علمی حیثیت کے اثبات میں برھانِ قا طع ہے۔