پانی پت کی فتح مبارک لیکن اس معرکے میں تحریکِ انصاف کے مدّ ِ مقابل کون تھا؟ جلسہ عام تو ایسا معر کہ ہے جس میں ایک ہی فریق ہوتا ہے ا ور اس کی فتح بالعموم یقینی ہوتی ہے۔اس معرکہ آرائی میں شاید ہی کسی نے شکست کھائی ہو۔جماعتِ اسلامی کے سالانہ اجتماعات میں ایک سے زائد بار شرکت کاموقع ملا۔ شرکاء لاکھوں میں تو ہوں گے۔پانی پت نہ سہی، پلاسی کی ایک جنگ تو حال ہی میں قادری صاحب بھی جیت چکے۔یہ سر تاپااور اوّل وآخرایک سیاسی جلسہ تھا،مذہبی نہیں۔قادری صاحب کی تقریرسے زیادہ عمران خان کی باتیں مذہبی نہیں تھیں۔ ان کا دھرنا بھی مذہبی نہیں تھا۔ پھر ایک سوال اور بھی ہے۔مسرت و سرشاری کے ان لمحوں میں اگر جلسے کے شرکاء کی تعداد عوامی تائید کا معیار قرار پائی تو اس وقت کیا ہو گا جب کسی دوسری سیاسی جماعت نے اس سے بڑا جلسہ کردیا؟اس سے پہلے سروے بھی معیار بنائے جا چکے۔جب یہ کسی دوسرے رجحان کی نمائندگی کرنے لگے توان پر دوحرف بھیجے گئے اورسروے کے ادارے بشمول گیلپ غیر معتبر ٹھہرے۔کل اگر کسی سیاسی جماعت نے اس سے بڑا جلسہ کر دیا توعوامی رائے کے باب میں کیاعوام کی اپنی گواہی بھی رد کر دی جا ئے گی؟کہیں یہ خوش گمانیوں کا سفر تو نہیں جس کے بارے میں افتخار عارف برسوں پہلے متنبہ کر چکے: یہ خوش یقینوں کے،خوش گمانوں کے واہمے ہیں جو ہر سوالی سے بیعتِ اعتبار لیتے ہیں اس کو اندر سے ماردیتے ہیں عمران خان اور تحریکِ انصاف کے بارے میں کوئی تجزیہ کرنے سے پہلے یہ بتا نا بھی ضروری ہے کہ میں ان کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہوں۔یہ اس لیے اہم ہے کہ بصورت ِ دیگر ہر حرفِ تنقید کے بارے میں یہ خیال کیا جا ئے گا کہ اس کی قیمت وصول کی گئی ہے۔متاثرین کی نظر بندی کے لیے یہ لازم ہو تا ہے۔اس رویّے کا سامنا اس وقت بھی کرنا پڑتا ہے جب مسلمانوں سے ہوش کی کوئی بات کہی جا تی اور تصادم سے روکا جا تا ہے۔اس کے بعد پہلا فتویٰ یہ ہو تا ہے کہ کہنے والا امریکی ایجنٹ ہے۔اس لیے ہوش مندی کے کسی مشورے سے پہلے بطور تمہید یہ بتا نا لازم ہوتاہے کہ لکھنے والا امریکا کو برائی کی ایک بڑی قوت اور ظلم کا نشان سمجھتا ہے۔اس کے بعد بھی اگر چہ رائے کی قبولیت کا امکان کم ہو تا ہے لیکن کم از کم اس الزام سے کسی حد تک محفوظ رہا جا سکتا ہے۔اس لیے احتیاطاً یہ عرض ہے کہ میں عمران خان اور تحریکِ انصاف کو پاکستان کی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا اور خیر کی قوت سمجھتا ہوں۔عمران خان کا خلوص ثابت ہے اور وہ ان آلائشوں سے پاک ہیں، ہمارے اہلِ سیاست بالعموم جن کی تمنا میں جیتے ہیں۔انہوں نے دنیاوی کا میابیوں کو آخری درجے میں اور عین الیقین کی سطح پر دیکھ لیاہے اور وہ ان کے لیے اپنی کشش کھو چکی ہیں۔ لہٰذا اس میں شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ان کی جد وجہد عوام کے لیے ہے اور پاکستان کے لیے۔معاملہ خلوص کا نہیں، حکمتِ عملی کا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا وہ جلسے میں ظہور پزیر ہونے والی عوامی تائید کو انتخابی قوت میں بدل سکیں گے؟ آج اگر ملک میں متناسب نمائندگی کا طریقہ رائج ہو تا تو ان کے حق میں مثبت پیش گوئی کی جا سکتی تھی۔میں نے یہ آواز اٹھائی لیکن افسوس کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔جب انتخابی اصلاحات کی فضا تھی، کسی نے تو جہ نہیں دی۔ اب فیصلہ حلقۂ انتخاب میں ہو گا اور وہ تابع ہے سماجی حقائق کے۔حلقہ انتخاب کی سیاست ایک آرٹ ہے اور اس میں وہی کا میاب ہو تے ہیں جو آرٹسٹ ہوتے ہیں‘جو سماجی عوامل کو اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔2002ء کے انتخابات میں ، میں نے انتخابی مہم کے آ خری دن عمران خان کے ساتھ ان کے حلقہ انتخاب میں گزارے۔حفیظ اللہ بھی ساتھ تھے۔ہر بستی میں انہیں جن مطالبات کا سامنا تھا، میرا خیال ہے انہیں ابھی تک یاد ہو گا۔ووٹر کو گھر سے پولنگ سٹیشن تک لے جانا ایسا کام ہے جو وسائل کے بغیر ممکن نہیں۔یہ دھاندلی وہ ہے جسے کوئی قانون نہیں روک سکتا۔انتخابی عمل میں کامیابی ایک ایسا مر حلہ ہے جو سماجی حالات سے وابستہ ہے۔یہاں مثالیت پسندی اور حقیقت پسندی میں تصادم ہو تا ہے۔تحریک ِ انصاف کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ وہ اس تصادم سے کیسے بچ سکے گی؟سماجی حقائق سے ہم آہنگ ہو نے کے لیے ان لوگوں کی طرف رجوع کر نا پڑے گا جو جیتنے کے اہل ہیں لیکن اس کے لیے اخلاقی معیار پر مفاہمت کر نا ہوگی۔محض ہیجان پیدا کر دینے سے کوئی معر کہ سر نہیں کیا جا سکتا۔انتخابات جلسہ عام نہیں کہ فریقِ ثانی کی عدم مو جود گی میں فتح کے شادیانے بجا دیے جائیں۔اس میں ایک نہیں، کئی فریق ہوں گے۔گویا چومکھی لڑائی ہے ۔ تحریکِ انصاف کے لیے اب دو راستے ہیں۔ایک یہ کہ وہ اخلاقی معیار پر کوئی مفاہمت قبول نہ کرے۔امیدوار کا انتخاب صلاحیت اور دیانت کی بنیاد پر کرے۔اس کے بعد انتخابی مہم کو مرکزی سطح پر منظم کرے۔وسائل کو قومی سطح پر جمع کیا جائے اور پھر ہر حلقہ انتخاب کی ضرورت کے مطابق امیدوار کو کمک پہنچائی جائے۔ اس میں مقامی وسائل اور مر کزی وسائل میں توازن کے لیے ایک فارمولہ طے کر دیا جائے۔مثال کے طور پر کئی امیدوار ایسے ہو ں گے جوتنہا اپنے حلقے کا بو جھ اٹھاسکتے ہیں۔ ایسے حلقے میں مرکزی اعانت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ میرا خیال ہے اس معا ملے میں جماعتِ اسلامی کے انتخابی تجربات سے سیکھنا چاہیے۔وسائل سے دھڑے اور برادری کی سیاست پر ایک حد سے زیادہ اثر انداز نہیں ہو اجا سکتا؛ تاہم دیگر عوامل کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف آئیڈیل ازم اور حقیقت پسندی میں ایک توازن پیدا کرے۔جس حلقے میں کسی ایسے امیدوار کی کامیابی یقینی ہے جو مثالی نہیں ہے، وہاں اسے قبول کر لیا جائے۔جہاں عمران خان کی شخصی کشش اور تحریکِ انصاف کا ووٹ موثر ہے وہاں مثالی امیدوار سامنے لائے جائیں۔سیاست میں یہ دونوں رویّے مو جود رہے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق ؓ نے کوفہ میں قیام امن کے لیے اخلاقی معیار پر مفاہمت گوارا کی اوریہ تجربہ کامیاب رہا۔تحریکِ انصاف اگر آئیڈیل ازم اور حقیقت پسندی میں ایک توازن پیدا کر سکے تو اس سے بہتری آ سکتی ہے۔ اگر کامیاب لوگوں میں دونوں طرح کے افراد شامل ہوں گے تو پھر جماعت ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گی جو سماجی حقائق سے ہم آہنگ سیاست کرتے ہیں۔اس لیے میں دوسرے حل کو زیادہ قابلِ عمل سمجھتے ہوئے،ترجیح دوں گا۔اگر تحریک ِ انصاف کی خوش گمانی کو سامنے رکھا جائے توپہلا حل بہتر ہے۔مجھے معلوم ہے کہ ان کی خوش گمانی کا انحصار پہلے سروے اور سوشل میڈیا پر تھا، اب جلسوں میں شرکاء کی تعداد پر ہے۔ یہ دونوں نا قابل بھروسہ سیاسی پیمانے ہیں۔سیاسی جلسوں کا اب آ غاز ہواہے اور دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کو ابھی میدان میں اترنا ہے۔روایتی یا سماجی حقائق سے ہم آہنگ سیاست کے باب میں دوسری جماعتوں کی بر تری واضح ہے۔ تحریکِ انصاف کو اپنے آئیڈیل ازم کی حفاظت کر نی ہے اور ساتھ ہی انتخابی کامیابی کو بھی پیش نظر رکھنا ہے۔اس لیے ایک متوازن طرزِ عمل ہی اس کو سازگار ہے۔اس کی نظر اب انتخابی معرکے پر ہو نی چاہیے اوریہ آسان مر حلہ نہیںہے۔ یوں جانیے کہ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے