یہ حادثہ ہوگااگراس فیصلہ کن مرحلے پرجمہوری عمل ہی کو مشتبہ بنا دیا جائے۔کوئی شبہ نہیں کہ جمہوریت ہی واحد راستہ ہے۔ الہامی ہدایت کی راہنمائی یہی ہے اور انسانی تجربے کی گواہی بھی یہی۔ ریاست کی افادیت اور اس کی بقا کے لوازم کو جانے بغیر یہ بات نہیں سمجھی جا سکتی۔ ریاست ایک جدید تصور ہے لیکن انسان نے ایک نظم اجتماعی کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی ہے۔سماج میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔کمزور اور طاقت ور۔ صاحبانِ وسائل اور محروم۔ اہلِ ثروت اور مفلس۔ظالم اور مظلوم۔ سماج کسی نظم کا تابع نہ ہو تو جنگل کا قانون رائج ہوتا ہے۔طاقت ور ہمیشہ غالب رہتا ہے اور مظلوم کی داد رسی نہیں ہوتی۔یہ انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ وہ طبعاً خیر کی طرف مائل ہوتا اور ظلم کو ناپسند کرتا ہے۔اسی فطری احساس نے اُسے متوجہ کیا تو ایک نظم اجتماعی کا قیام لازم ٹھہرا۔ایسا نظم جہاں طاقت کو لگام دی جا سکے اور کمزور کو سہارا مل جائے۔ایک اجتماعی نظم کی ضرورت اگر فطرت کا مطالبہ تھا تو اس نے یہ بھی سمجھا دیا کہ وہ مؤثر کیسے ہو سکتا ہے۔اتھارٹی اگر خود کو منوا نہ سکے اور اکثریت اسے قبول نہ کرے تو نظمِ اجتماعی غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ اتھارٹی کو منوانے کی ایک صورت طاقت ہے۔اس سے نظمِ اجتماعی تو کسی نہ کسی صورت قائم رہتا ہے لیکن اس کی افادیت برقرار نہیں رہتی۔ جب سماج میں طاقت فیصلہ کن ہو جائے تو پھر اسے کسی حد میں رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ مظلوم کی داد رسی کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے۔اتھارٹی کو قائم رکھنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اکثریت قلبی طور پر اسے قبول کرے۔ اس کے فیصلوں کو مانے۔ ایسی اتھارٹی کی اصل قوت اخلاقی ہوتی ہے، تاہم اتھارٹی کو قوتِ نافذہ بھی حاصل ہوتی ہے۔اس اخلاقی قوت کو سیاسیات کی زبان میں عصبیت کہتے ہیں۔ایک نظمِ اجتماعی اُسی وقت تک مؤثر رہتا ہے جب تک اسے سیاسی عصبیت حاصل رہتی ہے۔ قدیم دور میں قبائل عصبیت کی علامت تھے۔ مذہب اس کی تائید میں کھڑا ہے۔مذہب کا وظیفہ یہ نہیں کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ پیاس لگے تو پانی پیو۔ بھوک لگے تو روٹی کھاؤ۔ یا سماج کو پرامن رکھنا ہے تو ایک نظمِ اجتماعی قائم کرو۔اس کی تعلیم تو اﷲ تعالیٰ نے فطرت میں کر دی ہے۔مذہب اِن کے آداب بتاتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ فطری مطالبات کو پورا کرتے ہوئے کیسے اخلاقی وجود کو پاکیزہ رکھنا ہے۔اس ضمن میں وہ نظمِ اجتماعی کی تطہیرکے لیے بھی ہدایات دیتا ہے۔ اس باب میں اپنے ماننے والوں کے لیے اس کی پہلی ہدایت یہی ہے کہ ان کا نظمِ اجتماعی مشاورت کے اصول پر قائم ہو۔ مشاورت کا مطلب ہے جسے اکثریت قبول کرلے یا جس کے حق میں مشورہ دے۔اﷲ کے آخری رسول ﷺنے کسی فرد کو اپنا جانشین نہیں بنایا لیکن یہ ہدایت ضرور فرمائی کہ سیاسی قیادت قریش میں سے ہونی چاہیے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب میں سیاسی عصبیت قریش ہی کو حاصل تھی۔ آپؐ نے وضاحت فرمائی: ’’ لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔ عرب کے مومن ان کے مومنوں کے اور اُن کے کافر اِن کے کافروں کے(مسلم،رقم۴۷۰۱)۔ امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کی مزید شرح فرما دی۔اپنی زندگی کے آ خری سال،جب وہ حج پر تھے تو انہوں نے ایک آوازسنی۔کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ سیدنا عمرؓ کا انتقال ہوا تو میں فلاں کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت بھی ایسے ہی ہوئی اور کامیاب رہی۔امیرالمومنین کو معلوم ہوا توکہا کہ میں مدینہ پہنچ کر ایک خطبہ دوں گا۔آپ نے ایسا ہی کیا۔اپنے خطبے میں بتایا کہ وہ کیا حالات تھے جب سقیفہ بنی ساعدہ میں سید نا ابو بکر صدیقؓ کاانتخاب ہوا۔اس خطبے کا اختتام آپ نے ان الفاظ پرکیا: ’’اگر کوئی شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیرکسی کے ہاتھ پر بیعت کرے گاتو وہ اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی،دونوں اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے۔‘‘ یہی جمہوریت ہے کہ اقتدار کا حق اسے ملنا چاہیے جس کے حق میں مسلمان رائے دیں۔ رائے جاننے کا یہ عمل انتخابات کہلاتا ہے۔علامہ مرحوم نے اپنے خطبات اور بعض دوسرے مضامین میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ دورِ حاضر میںمسلکی اجتہاد کو اگر اجماع میں بدلا جا سکتا ہے تو اس کی صورت ایک قانون ساز اسمبلی ہے جس میں ایک عام آدمی کی بصیرت بھی بروئے کار آتی ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ کیسے آمریت کے گہرے اثرات کے سبب مسلمان سماج میں یہ روایت آگے نہیں بڑھ سکی۔’’انتخاب‘‘ کو وہ قرآنی اصول قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مراد مغربی جمہوریت نہیں ہوتی۔ قراردادِ مقاصد سے 1973ء کے آئین تک، ہم نے ایک فکری سفر طے کیا ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ جن معاملات میں اﷲ اوراس کے رسولؐ نے فیصلہ دے دیا ہے،پارلیمنٹ قانون سازی کا حق نہیں رکھتی۔ جہاں تک کسی کے حقِ حکمرانی کا تعلق ہے تو میں واضح کرچکا کہ اسلام میں یہ ُاسی کو حاصل ہے جسے سیاسی عصبیت میسر ہے، یعنی اکثریت کا اعتماد اور یہ جاننے کا ذریعہ انتخابات ہیں۔ انسانی تجربہ بھی یہی ہے کہ پرامن انتقال اقتدار کا مؤثر ترین طریقہ انتخابات ہیں جو جمہوریت کا ایک مظہر ہے۔جمہوریت محض پارلیمنٹ کا نام نہیں۔ یہ آزاد عدلیہ،آزادیٔ رائے اور ریاستی اداروں کا بھی نام ہے۔یہ اُس آئین یا عمرانی معاہدے کا بھی نام ہے جس کے تحت ریاستی ادارے وجود میں آتے ہیں۔ بدترین حالات میں بھی ہم نے دیکھا کہ عدالتِ عظمیٰ نے فیصلہ دیا تو ایک منتخب وزیرِ اعظم نے اپنا سامان اُٹھایا اور گھر چل دیا۔کل ہم نے دوسرے وزیرِ اعظم کو دیکھا کہ خاموشی کے ساتھ ایوانِ حکومت سے رخصت ہوا اور ایک نئے وزیرِ اعظم نے حلف اُٹھالیا۔جمہوریت کے سوا کیا اس طرح پرامن انتقالِ اقتدار ممکن ہے؟ انتخابات سر پر ہیں۔ضرورت ہے کہ قوم اس کے لیے یک سو ہو جائے۔جمہوریت یا انتخابات سے حق و باطل کا فیصلہ نہیں ہوتا،یہ طے ہوتا ہے کہ کس کا حقِ اقتدار ثابت ہے۔اس کا جمہوریت سے بہتر کوئی طریقہ دریافت نہیں کیا جا سکا۔ اقتدار تک اگر ہم نے زیادہ بہتر لوگ پہنچانے ہیں تو اس کا طریقہ سماج کی اخلاقی تطہیر ہے۔سماج جتنا پاکیزہ ہوگا ،برسرِ اقتدار گروہ بھی اتنا ہی مزکی ہوگا۔تاہم اس وقت تک نظم ِاجتماعی کو تو قائم رہنا ہے اور اس کا سب سے بہتر طریقہ جمہوریت ہے۔جمہوریت کی یہ افادیت اس وقت سمجھ میں آئے گی جب یہ واضح ہوگا کہ ریاست کیوں قائم ہوتی ہے اور اس کی بقا کے لوازم کیا ہیں؟