مسرت شاہین نے ایک نہیں دو سورتیں فر فر سنا ڈالیں اور آیت الکرسی بھی۔یوں وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون ساز ادارے کی رکنیت کے لیے اہل قرار پائیں۔ایاز امیر ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے منکر ٹھہرے اور نا اہل ثابت ہوئے۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے!آئین کی دفعات 63,62 کی روح کیا یہی ہے ؟یہ دفعات کیا اس لیے آئین کا حصہ بنیں کہ مسرت شاہین پارلیمان تک پہنچ جائیں اور ایاز امیر رہ جائیں؟قائد اعظم کی امانت و دیانت ہر شک و شبے سے بالا تر ہے۔گزشتہ دو صدیوں کے اہلِ سیاست میں کون ہو گا جو اس میدان میں ان کا مثیل ہو ؟ لیکن کیا وہ دعائے قنوت کے پل صراط سے گزر پاتے؟اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے مجھے تو خوف آتا ہے۔ غلطی ہائے مضامین کا انبار ہے ۔اِن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سماج اقدار اور رویے سے بنتے ہیں۔قانون تو اُس وقت متحرک ہوتا ہے جب معاشرہ کچھ اقدار پر متفق ہو جائے۔بصورتِ دیگر وعظ ہے اور نصیحت۔کبھی دماغ پر دستک اورکبھی دل پر۔اَقدار مستحکم ہو جائیں تواُن کی حفاظت کے لیے قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔اﷲ کے آ خری رسولﷺ نے تئیس برس لگا دیئے اقدار کی تعمیرمیں۔مکی عہد کے تیرہ برس کوئی قانون نازل نہیںہوا۔اصرار دوباتوں پر رہا:عقیدہ اوراخلاق۔قانون سب سے آخر میں آیا اور وہ بھی تدریجاً۔سیّد ابو الاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے کہ جب ایک سماج میں اخلاقی بے راہ روی بڑھ جائے اور حالات جرم کے لیے زیادہ ساز گار ہو ں تو مجرم کو سزا دینے میں جلدی کرنے سے بہتر ہے کہ اُن لوگوں کو ’سر‘ یا ’خان بہادر‘ کا خطاب دیا جائے جو ترغیبات کے باوصف جرم نہیں کرتے۔اپنے سماج کی اخلاقی حالت ہم پر واضح ہے۔اس پرہم بضد ہیں کہ پارلیمان کی تطہیر کریں گے۔کیا پارلیمان سماج کا حصہ نہیں ہوتی؟ ایاز امیر سے میں کبھی ملا نہیں۔اُن کا کالم پڑھتا اور گاہے ٹیلی وژن پر گفتگوکرتے دیکھ لیتا ہوں۔میں انگریزی زبان کا مزاج شناس نہیں ۔الہامی ادب سے لگاؤ ہے ،اس لیے بائیبل کا ’’کنگ جیمس ورژن‘‘پڑھتا ہوں۔ایاز امیر کے کالم سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کی نثر سے اکتساب کرتے ہیں۔یوں اِن کالموں کا مطالعہ سرشاری کا سبب بن جاتا ہے۔ بایں ہمہ ان کے خیالات سے مکمل اتفاق نہیں ہوتا اور ان کی نثری بے تکلفی بھی کَھلتی ہے۔بادہ نوش بہت ہوں گے لیکن کتنے ہیں جو اس کا اشتہار بھی دیتے ہیں؟منافقت ایک اخلاقی جرم ہے لیکن اپنے گندے کپڑے چوراہے میںدھونے سے گریز،کیا منافقت ہے؟بائیس برس سے مذہب کا سنجیدہ طالب علم ہوں ۔میں ایک بات جان سکا۔ مذہب اس بات کو پسند نہیں کرتاکہ فرد کے انفرادی افعال کو سر عام موضوع بنایا جائے۔وہ انسان کو اِس باب میں حساس بناتا ہے کہ وہ جرم کرتے وقت ایک بات فراموش نہ کرے:اِس کائنات کا کوئی گوشہ اس کے رب کی نگاہوں سے اوجھل نہیں اور اُسے ایک دن ہر بات کا حساب دینا ہے۔لیکن اگر گناہ کی اِس طرح نمائش ہوکہ وہ سماج کے اخلاقی وجود کے لیے خطرہ بن جائے تومذہب مداخلت کرتا اور جرم کا راستہ بند کر دیتا ہے۔ سماجیات کا علم اور انسانی تجربہ بھی اسے درست رویہ قرار دیتا ہے ۔میں کبھی ایاز امیر صاحب سے ملتا تو اُن سے یہ بات ضرور عرض کرتا ۔رہی بات ’نظریۂ پاکستان‘ کی تویہ مضحکہ خیزحد تک تعبیرات کا ڈھیرہے۔ایسی مضحکہ خیز کہ کچھ لکھنے کو دل نہیں چاہتا۔کاش ہم اقبال ہی کو راہنما مان لیتے۔بہت سے عقدے اسی سے حل ہو جاتے۔ میں اُس پارلیمنٹ کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل میں ٹیس اُٹھتی ہے ، جس میں مسرت شاہین تو تشریف فرما ہوں لیکن ایاز امیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ہم کیوں نہیں چاہتے کہ تازہ خیالات کے کسی خوش گوار جھونکے کا گزر پارلیمان کی راہ داریوں سے بھی ہو؟مسرت شاہین سے بھی میںکبھی نہیں ملا۔اُن کی شہرت سے البتہ واقف ہوں۔ اس کی بنیاد پراتنا کہہ سکتا ہوں کہ عمومی شہرت کی اہمیت ہوتی ہے اور اُن کی شہرت کے بعض ’’مظاہر‘‘ لوگ سنیما کے پردے پر دیکھ چکے۔ میں اُن کی ذات پر انگلی اُٹھانے کا حق نہیں رکھتا۔ مجھے صرف ان کی شہرت سے غرض ہے۔ یہاں بھی معاملہ وہی ہے۔ہر سماج میں عزت و تکریم کے بعض معیارات ہوتے ہیں۔ ہمارے بھی ہیں۔اس معاملے میں ہم نے بہت مصلحت دکھا دی۔ مالی کرپشن کو گوارا کیا ، جعلی ڈگریوں سے صرفِ نظر کیا ، جھوٹ پر غیر حساس ہوئے۔ اب یہ سلسلہ دراز ہو رہا ہے کہ اخلاقی کرپشن سے بھی گریز کا امکان پید اہو چلا ہے۔ میںاس تضاد سے واقف ہوں کہ سماج فحاشی کے معاملے میں بہت حسّاس ہے لیکن یہاںمالی کرپشن، لوٹ مار، جھوٹ کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ روایتی مذہبیت کی دین ہے جس میں حلیے سے اخلاق کو جانچا جاتا ہے، کردار اور معاملات سے نہیں۔ہمارا سماج تو دونوں معاملات میں ایک جیسا حساس ہونا چاہیے کہ سماجی اخلاقی اقدار اسی کا تقاضا کر تی ہیں۔ آئین کی دفعہ 62,63بھی اب روایتی مذہبیت کا مظہربنتی جا رہی ہیں۔الیکشن کمیشن کے کارندوں کی طرف سے اِس کی جو تفہیم سامنے آئی ہے، وہ اسی کا اظہار ہے۔ روایتی مولوی حضرات کی طرح امیدواروں سے چھ کلمے سنے جا رہے ہیں جو نکاح کے وقت دولہا سے کلمے سننا ضروری اوراُس کو اسلام کی شرط سمجھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا خیال بھی یہی ہے کہ جسے چھ کلمے یاد ہیں، وہی مسلمان ہے۔بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ اسلام میں تو ایک ہی کلمہ ہے۔ رسالت مآبﷺ کے حضور میں تو اسلام کی قبولیت کے لیے دو ہی باتوں کا اقرار کافی تھا۔ اﷲ کی وحدانیت اور محمدﷺ کی رسالت۔ ایاز امیر اور مسرت شاہین تو محض علامتیں ہیں۔سوچنا یہ ہے کہ بھٹوصاحب اور ضیاء ا لحق صاحب نے جس طرح اسلام کو سیاسی مقاصد کے تابع کیا، اُس پر معلوم نہیں مزیدکتنے برگ و بار آئیں گے ۔63,62 کی مبہم دفعات ایک روایتی مذہبی ذہن کا اظہار ہیں۔ پہلی بار اُن کے عملی اطلاق کا موقع آیا تو غلطی ہائے مضامین کا دفترکھل گیا۔یہ اُس وقت بھی کھلا تھا جب حدود قوانین کی ایک روایتی تعبیر کو نافذ کیا گیا تھا۔ ہم نے اُس وقت بھی غور نہیں کیا۔اس سے ریاست اور مذہب کا تعلق ایک بار پھر زیرِ بحث ہے اور میرا خیال ہے کہ اس اندازِ نظر نے مذہب کے مقدمے کو نقصان پہنچایا ہے۔ مذہب اور سماج کے باہمی تعلق کو سمجھے بغیر اِس کے نفاذ پر اصرار سے صرف ابہام پیدا ہو سکتا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں درست طرز عمل بالکل دوسرا ہے۔ آئین مبہم خیالات کا نام نہیںہوتا ۔ یہ کسی واعظ کی تقریر بھی نہیں۔ اگر62,63کی دفعات سے مقصود دیانت دار و امانت دار لوگوں کو پارلیمنٹ تک پہنچانا تھا تو اب معلوم ہوا کہ یہ چھلنی اس میں کامیاب نہیں۔وہ کیا چھلنی ہے جو مسرت شاہین کو نتھار دے اور ایاز امیر کو روک لے؟ کیا معلوم کہ کل نواز شریف صاحب بھی اس سے نہ نکل سکیں؟ کہیں ایساتو نہیں کہ ضیاء الحق صاحب نے جو جال اپنے مخالفین کے لیے بُناتھا ، اب وہی نئے نظام کے نمائندوں کے کام آ رہا ہے؟ اس کی تلافی ممکن ہے اگر ان دفعات کو غیر مبہم بنایا جائے۔ دو اور دو چار کی طرح بتایا جائے کہ فلاں فلاں شواہدیا جرائم کی بنیاد پر ایک شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔ سرِ دست تو پارلیمان موجود نہیں، اس کے اطلاق پر البتہ غور کیا جا سکتا ہے۔الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ان دفعات کی روح کو پیشِ نظر رکھے۔ روایتی مذہبیت سے نجات خود مذہب کے مفاد میں ہے۔ یہودی فریسی جب یہی رویہ اپنائے ہوئے تھے تو سیدنا مسیح ؑنے تبصرہ کیا:’’تم مچھر چھانتے اور اُونٹ نگلتے ہو‘‘۔الیکشن کمیشن کی کوششیں اور آئین کی یہ دفعات کہیں اِسی رویے کا نیا مصداق تو نہیں؟