جماعت اسلامی کو اب تنہا محوِ پرواز ہو نا ہے۔کوئی جماعت ان کو ہم سفربنانے پرآمادہ نہیں۔دیدۂ عبرت نگاہ ہو تو یہ لاحاصل سفر کا ایک الم ناک باب ہے ،شایدآخری باب۔ تھامنیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط اس کا اندازہ سفر کی رائگانی سے ہوا ڈاکٹربابر اعوان منصورہ میں سید منور حسن سے ملے تو انہیںتوجہ دلائی:جماعت اسلامی آج سیاسی جماعت نہیں،ایک این جی او ہے۔اس جملے میں ایک جہان ِ معنی پوشیدہ تھا۔کاش کوئی سوچنے پر آمادہ ہوتا۔تحریک سے سیاسی جماعت اور سیاسی جماعت سے ایک سماجی و اصلاحی تنظیم کی طرف سفر اس حکمت عملی کا ناگزیر نتیجہ ہے جو جماعت اسلامی نے اختیار کی۔جب یہ ایک تحریک تھی تو بازارِ سیاست کی گرمی نے اسے اپنی طرف کھینچا۔جماعت اسلامی اپنی اشتہاکو قابو میں نہیں رکھ سکی۔اس نے تحریک اور سیاسی جماعت کے فرق کو نظر انداز کیا اور اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق بن گئی۔سیاسی جماعت کے اپنے مطالبات ہیں۔قاضی حسین احمد صاحب نے ان مطالبات پر لبیک کہتے ہو ئے اسلامک فرنٹ کی بنیاد رکھی تو بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ جماعت تو ایک تحریک ہے۔انہوں نے قاضی صاحب کے پاؤں میں تحریکی بیڑیاں پہنا دیں۔ قاضی صاحب کے بڑھتے قدم رک گئے۔ایک تنظیمی بحران نے جنم لیا۔اسلامی فرنٹ کو پھر سے جماعت اسلامی بنانے کی کوشش ہوئی ۔نتیجتاًوہ تحریک رہی اور نہ سیاسی جماعت۔جس تنظیم کا تشخص سیاسی ہو نہ تحریکی ،اسے این جی او ہی کہا جا سکتا ہے۔ محترم سید منور حسن نے مجلسِ عاملہ میں جواز پیش کیا کہ ان کی امریکا مخالف پالیسی مانع رہی۔بڑی سیاسی جماعتیں امریکا کو ناراض نہیں کر نا چاہتیں،اس لیے انہوں نے گریز کیا۔یہ عذرِ لنگ ہے۔جو جماعت سپاہِ صحابہ سے اتحاد کر سکتی ہے،وہ جماعت اسلامی سے کیوں نہ کرتی؟وجہ بڑی واضح ہے۔سیاسی جماعتیں یہ دیکھتی ہیں کہ آپ ان کی فتح و شکست میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔آپ کتنی نشستوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں؟اسی بنیاد پر وہ قیمت لگاتی ہیں:دس نشستیں، پندرہ نشستیں۔ ان جماعتوں نے محسوس کیاکہ جماعت اسلامی اُن کی فتح و شکست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔یوں مہذب انداز میں کنارہ کر لیا۔مولانا ابو الکلام آزاد کے زیرِ اثر بر صغیر میں رائج ہو نے والا عربوں کا یہ جملہ بار بار دھرانے کو دل چاہتا ہے :سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ جماعت اسلامی کے ساتھ یہ حادثہ اچانک نہیں ہوا۔وقت نے برسوں اس کی پر ورش کی ہے۔1993ء تک جماعت کا یہ بھرم قائم تھا کہ یہ کسی جماعت کے ساتھ مل جائے تو اسے فتح دلا سکتی ہے۔بڑی سیاسی جماعتیں اس کی ناز برداری کے لیے آ مادہ رہتی تھیں۔مزید یہ کہ اس کا تحریکی شعور احتجاجی سیاست کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو تاتھا۔ یوں اپوزیشن کی سیاسی تحریکوں میں اس کی حیثیت مر کزی رہی۔ایوب خان کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے لے کر 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ تک،جماعت ہی ہراول دستہ رہی۔ضیاالحق صاحب تشریف لائے تو جماعت اسلامی نے ابتدائی عرصے میں ان کی مصاحبت اختیار کی۔بعد میں گریز کیا لیکن اس طرح کہ ان کے خلاف بننے والے کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنی۔افغانستان میں سوویت یونین کی آ مد نے انہیں ضیاالحق صاحب کا ساتھ دینے پر مجبور کیا۔شاید یہ تجزیہ غلط نہ ہو کہ جماعت چونکہ کسی ضیا مخالف اتحاد کا حصہ نہیں تھی،اس لیے ان کے خلاف کوئی احتجاجی تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔1985ء سے ،جب ہم نے جمہوریت کی طرف رینگنا شروع کیا، جماعت اسلامی اگرانتخابات میں شریک ہوئی تو کسی اتحاد کا حصہ بن کر۔1993ء میں اس نے تنہا پرواز کا فیصلہ کیا اور اسلامک فرنٹ کے نام سے انتخابی میدان میں اتری۔اس ناکام تجربے کے بعد قاضی صاحب نے مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا بیڑا اٹھایا۔اس میں کامیابی ہوئی اور پختون خوا میں ان کی حکومت بن گئی۔ اس تمام سفر میںجماعت تشخص کے بحران میں مبتلا رہی۔کیا وہ تحریک ہے؟ کیا وہ ایک سیاسی جماعت ہے ؟کیا وہ اصلاحِ معاشرہ کی ایک تنظیم ہے؟کیا وہ ایک فکری انقلاب کے لیے کوشاں ہے؟کیا استعمار کے خلاف مسلح جدو جہدکا حصہ ہے ؟جماعت اسلامی نے زبانِ حال سے ان سب سوالات کے جواب اثبات میں دینے کی کوشش کی۔تاہم اس بات کو نظرانداز کیا کہ تحریکوں کی حکمت عملی سیاسی جماعتوں کے طرزِ عمل سے مختلف ہو تی ہے۔اصلاح و دعوت اور سیاست کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھا۔اس اختلاط نے ایک ابہام پیدا کیا۔اس کا ظہور فکر میں ہوا اور حکمت عملی میں بھی۔آج جماعت کا کوئی فکری تشخص نہیں ہے۔وہ اسی دینی فکر کی نمائندہ ہے جو دوسری مذہبی جماعتیں پیش کر رہی ہیں۔اس کی دعوت سیاست آ میز ہے۔رہی سیاست تو اس کا حال میں بیان کر چکا۔یوں آج 1940ء کی دہائی میں ابھرنے والی ایک تحریک کو 2013ء میںسیاسی مبصرین این جی او قرار دے رہے ہیں۔ ایک این جی اوکیا کر تی ہے؟اگر فنڈز عوام کے سیاسی شعور کی بیداری کے لیے ہیں تو اس کا منصوبہ(project)بنا لیا۔اگر کہیں سیوریج کا نظام بہتر بنانے کے لیے تجویز(proposal)مانگی گئی تو اس کے لیے متحرک ہوگئی۔ جماعت اسلامی کا یہ رائگاں سفر میرے لیے افسوس کی بات ضرور ہے لیکن غیر متوقع نہیں۔1992-93ء میں، میں نے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ میں ایک سلسلہ مضامین کا آغاز کیا۔یہ 1997ء میں ’’اسلام اور پاکستان ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہو۔ میں نے ان مضامین میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ فکری تحریک، سیاسی جماعت اور اصلاح و دعوت کا کام مختلف حکمت عملی کا تقاضا کر تے ہیں۔جماعت نے انہیں ایک نظم کے تحت کر نے کی کوشش کی ہے۔چونکہ ان سب کاموں کے تقاضے مختلف بلکہ بعض اوقات متضاد ہوتے ہیں،اس لیے فکری تبدیلی کا کام نتیجہ خیز ہو سکتا ہے نہ سیاسی جد وجہد بار آور ہوسکتی ہے۔اسی کو تشخص کا بحران کہتے ہیں۔ افسوس کہ آج جماعت اسلامی اس کی عملی تصویر بن گئی ہے۔ میں اگر سو ختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ خود دکھایا ہے اسی گھر کے چراغاں نے مجھے جماعت اسلامی نے بدقسمتی سے ہر تنقیدکو بد خواہی پر محمول کیاہے اورناقدین کی بات کو ہمیشہ کسی منفی محرک کا مظہر سمجھا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جماعت کے حلقے میںخود احتسابی کی کوئی روایت جنم نہیں لے سکی۔اس کے ساتھ جماعت بہت سے باصلاحیت خیر خواہوں سے محروم ہو گئی۔آج جب میں سید منور حسن کو دیکھتا ہوں کہ وہ مجلسِ عاملہ میں اپنی سیاسی تنہائی کاسبب امریکا کی مخالفت قرار دے رہے ہیں تومجھے محسوس ہوتا ہے کہ جماعت کی قیادت خیر خواہوں کی تنقید کے ساتھ ماہ و سال کے تجربات سے بھی سبق حاصل کر نے پر آ مادہ نہیں۔جماعتیں شاید اسی طرح اپنے فطری انجام کی طرف بڑھتی ہیں۔