اخبارات کے صفحات پر عمران خان کی جیت کا غلغلہ تھا۔ اب انہی صفحات پر ہار کا اعلان ہے۔ میں سوچتا ہوں یہ معرکہ کیا کبھی بر سر زمین بھی برپا ہوا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سراب کو سونامی مان لیا گیا تھا؟ کیا بات محض اتنی ہے کہ امیدواروں کے انتخاب میں غلطی ہو گئی؟ میرا خیال ہے بعض لوگ بات کی تہہ تک پہنچ گئے تھے۔ اس کے باوصف ان کے دل نے مان کر نہیں دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ دل و دماغ کے فاصلے سمیٹنے میں وقت لگتا ہے۔ دماغ نتیجے تک پہنچ جاتا ہے لیکن دل تردید پر آمادہ رہتا ہے۔ خواہش مرتی نہیں اور خواب بکھرتا نہیں۔ عمران خان کا غلغلہ برپا ہوا تو انہوں نے سوچا کہ برسوں نئی قیادت کے ابھرنے کا جو خواب ان کی آنکھوں میں سجا تھا اُس کی تعبیر کا وقت آ گیا ہے۔ عمران خان اس تعبیر کا دوسرا نام ہے۔ معاملہ عمران کی ذات تک محدود رہتا تو یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ ان کے شخصی اوصاف ایک ایسا مستند حوالہ تھا کہ دل اُن کی جانب کھنچا چلا جاتا ہے؛ تاہم عمران خان کو اس جمہوری نظام میں بروئے کار آنا ہے۔ خوابوں کو اس سر زمین پر تعبیر تلاش کرنی ہے۔ سماج کے رجحانات تبدیل نہیں ہوئے۔ یہاں بدستور انہی اقدار کا غلبہ ہے جو عمران جیسے لوگوں کے برسرِ اقتدار آنے میں مانع ہیں۔ عمران نے چاہا کہ وہ ان رجحانات کے جنگل میں راستہ تلاش کرے۔ جنگل میں یہ کام آسان نہیں ہوتا۔ زیادہ خدشہ یہی ہوتا ہے کہ انسان ’گم راہ‘ ہو جائے۔ خیال کیا گیا ہے کہ عمران خان کا راستہ بھی اب گم ہونے لگا ہے۔ تار عنکبوت جب بکھرنے لگا تو الزام امیدواروں پر رکھ دیا گیا۔ بالعموم انسان اپنے تجزیے کی غلطی قبول نہیں کرتا۔ سبب وہی ہے : رومانس کی شکست کو دل نہیں مانتا۔ دل و دماغ کا فاصلہ سمٹنے میں وقت لگتا ہے۔ اگر یہ فاصلہ مٹ جائے تو خواب کے بکھرنے کی وجہ ہمارے سامنے رکھی ہے۔ پیش پاافتادہ۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ انہی حلقوں میں تحریک انصاف کی جیت کا کچھ امکان ہے جہاں روایتی لوگ اس کے امیدوار ہیں۔ جن کا اپنا حلقہ انتخاب ہے۔ یہ کالا باغ کے نواب ہو سکتے ہیں۔ یہ میانوالی کے نیازی ہو سکتے ہیں۔ یہ ملتان کے مخدوم ہو سکتے ہیں۔ میرے علم کی حد تک، پورے ملک میں کوئی ایک حلقہ انتخاب ایسا نہیں جہاں کوئی امیدوار محض اس وجہ سے جیت سکے کہ وہ تحریک انصاف کا امیدوار اور دیانت دار آدمی ہے۔ جماعت اسلامی بارہا یہ تجربہ کر چکی۔ آج بھی اس کے امیدوار دوسروں سے زیادہ اس ترازو پر پورا اترتے ہیں؛ تاہم ایک آزاد تجزیہ نگار کہیں بھی ان کی جیت کی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ اسلام آباد سے میاں اسلم صاحب کے حق میں آواز اٹھتی ہے تو اس کا سبب کچھ اور ہے۔ انہیں سماجی حقائق کا ادراک ہے اور انہوں نے اپنی سیاست کو ان سے ہم آہنگ بنا رکھا ہے۔ یہی معاملہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ شہروں میں ان کا حلقہ اگرچہ وسیع تر ہے لیکن شہروںکا معاملہ دیہات سے پوری طرح غیرمتعلق نہیں۔ لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی سمیت سب شہروں میں بدستور برادری ازم کی حکمرانی ہے۔ روپیہ بدستور ایک کردار رکھتا ہے۔ اس داستان کو جتنا دراز کریں حاصل یہی ہے کہ انتخابی نتائج سماجی حقیقتوں سے بے نیاز نہیں ہوتے۔ سماج کو تبدیل کیے بغیر محض سیاسی جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ چند اہلِ دانش کو اس کا ادراک ہو چکا۔ انہیں آگے بڑھ کر اس مقدمے کو صحیح بنا پر استورا کرنا چاہیے۔ اس ممکنہ ناکامی کا ملبہ امیدواروں کے غلط انتخاب پر ڈال دینے سے ایک نئی غلطی جنم لے گی۔ میرے دل میں اُن لکھنے والوں کے لیے بہت احترام ہے جنہوں نے یہ نیک کوشش کی کہ نئی قیادت ابھر سکے۔ اُنہوں نے حسبِ توفیق ایک مہم بھی اُٹھا دی۔ ایک حلقے میں پزیرائی ملی تو خوش گمانی نے راہ بنا لی۔ انہوں نے دوسروں کو بھی باور کرانا چاہا کہ لوگ اب عمران خان کی قیادت میں صف بستہ ہیں۔ میر ا خیال ہے یہ پزیرائی بھی ویسی ہی تھی جیسی پرویز مشرف صاحب کو نصیب ہوئی۔ واقعہ یہ ہے کہ میڈیا، سوشل ہو یا الیکٹرانک، ایک سراب ہے۔ ترقی پزیر سماج میں تبدیلی آنے اور ماپنے کے پیمانے مختلف ہیں۔ سروے بھی یہاں قابلِ بھروسہ نہیں۔ گیلپ کے سروے سب سے زیادہ زیرِبحث رہتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین سروے بتا رہا ہے کہ ن لیگ کی عوامی تائید 39 فیصد ہے۔ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر ہے: 18 فیصد۔ تحریکِ انصاف کا تیسرا نمبر ہے:7 فیصد۔ سروے اگر معیار ہے تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ عمران خان کی کم ہوتی مقبولیت کا سبب امیدواروں کا غلط انتخاب نہیں۔ وہ تو ابھی بروئے کار نہیں آئے۔ عوام کی رائے بصورت سروے پہلے آ چکی۔ یقینا تحریکِ انصاف میں مایوسی پھیلے گی جب اُس کے وکیل فیصلہ آنے سے پہلے ہی مقدمے کی ہار کا اعلان کریں گے۔ وہی غلطی شاید پھر دہرائی جا رہی ہے۔ زمین پر بکھری حقیقتوں سے صرفِ نظر اور ایک سراب پر سمندر کا گمان۔ سماج کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ لوگ جب گفتگو کرتے ہیں تو اُن پر مثالیت پسندی غالب ہوتی ہے۔ جب فیصلہ کرتے ہیں تو حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں گزشتہ چند برسوں میں لوگوں کے خیالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ عوام تو ایک طرف رہے یہاں خواص کا معاملہ بھی عوام سے مختلف نہیں۔ برٹش کونسل کا سروے ہم دیکھ چکے۔ گیلپ ہی کا سروے ہے کہ عوام آج بھی مذہبی لوگوں پر سب سے زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ مذہب، سماج اور سیاست کے ایسے مقبول تصورات میں یہ گنجائش کیسے پیدا ہو سکتی ہے کہ محض سیاسی جدوجہد سے کوئی تبدیلی آ جائے۔ عمران خان اور اہلِ دانش خود فریبی کا شکار ہوئے اور پھر انہوں نے عوام کو اس کی غذا بنا ڈالا۔ آج نتیجہ جب سامنے دکھائی دینے لگا ہے تو ایک بار پھر اسی خودفریبی کو حصار بنا لیا گیا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ سماج میں جزیرے نہیں بنتے۔ یہ ممکن نہیں کہ سماجی اقدار کا نظام تبدیل نہ ہو اور کسی ایک شعبۂ زندگی کی اصلاح ہو جائے۔ اہلِ سیاست، عساکر، مذہبی رہنما، میڈیا سب ایک جیسے ہی ہوں گے۔ سیاسی جدوجہد سے ایک حد تک تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے اور اس کی آرزو بھی کرنی چاہیے۔ انتخابات میں لوگ جیتنے کے لیے شریک ہوتے ہیں، خیر بانٹنے کے لیے نہیں۔ اس لیے امیدوار کا انتخاب کرتے وقت یہی دیکھا جاتا ہے کسے زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔ عمران خان نے اگر انتخابات میںکامیابی کو ہدف بنانا ہے تو اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا؛ تاہم اس میدان میں دوسروں کی مہارت تحریکِ انصاف سے زیادہ ہے۔ جو مایوسی انتخابی نتائج سامنے آنے پر بھی ہونی تھی، اس کا اظہار وقت سے پہلے ہونے لگا۔ یہ اظہار عمران خان کی انتخابی مہم پر منفی اثر ڈالے گا۔ اس مایوسی کا ایک ردعمل یہ بھی ہے کہ جمہوریت ہی کو ہدف بنا لیا جائے۔ یہ ایک اور سنگین غلطی ہو گی۔ جمہوریت کو مطعون کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ سماج فساد کی نذر کر دیا جائے۔ یہ جمہوریت کا ثمر ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور میڈیا بھی۔ عوامی سوچ ارتقا سے گزر رہی ہے۔ سماج اِسی طرح تبدیل ہوتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ انتخابات کے بعد ایک ’نیا پاکستان‘ ہمارا منتظر ہو گا۔ ممکن ہے یہ عمران خان کی قیادت میں وجود پزیر نہ ہو لیکن اِس کے ویژن کی تشکیل میں ان کا حصہ ہوگا۔ اُن اہلِ دانش کا بھی یقیناً اس میں حصہ ہو گا جنہوں نے ’نئے پاکستان‘ کا خواب برسوں سے اپنی آنکھوںمیں بسا رکھا ہے۔ زندگی میں ثبات نہیں۔ تبدیلی کا یہ احساس ہی امید کی کرن ہے۔ احساس موجود ہے، ممکن ہے نتیجہ بظاہر وہ نہ ہو جیسا ہم چاہتے ہیں۔ سیاست میں کامیابی محض یہ نہیں کہ آپ اقتدار تک پہنچیں، یہ بھی کامیابی کی ایک صورت ہے کہ آپ سیاست کے ایجنڈے پر اثرانداز ہوں۔ عمران خان نے یہ کام کر دیا ہے۔ اب وہ اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھیں یا اس سے دور رہیں، میں انہیں ناکام نہیں کہوں گا۔