اضطراب اور بے چینی ہے۔ میدان ابھی سجا نہیں اور فتح و شکست کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ آرزو قابو میں نہیں آرہی کہ شام ہو نے سے پہلے پرویز مشرف اپنے انجام کو پہنچیں۔ انتخابات سے پہلے ہی فرسودہ نظام کی بساط لپیٹ دی جائے۔ شخصیت کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ سودائے خام کو دل میں سنبھالا جائے۔ یہاں تک کہ وقت اپنا فیصلہ سنائے اور قانونِ فطرت نافذ ہو جائے۔ مکہ میں مظالم کی انتہا ہو گئی۔ سیدنا خباب ؓ کا پیمانہء صبر لبریز ہوا۔ عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ آخر کب تک؟ چہرہ اقدس پہ ناگواری کے آثار نے ظہور کیا۔ انبیاء کی تاریخ کا حوا لہ دیا اور فرمایا: اللہ کو پرکھنا تو ہے! آلِ یاسر نے وہ قربانی دی کہ آسمان رو دیتا اگر اس کا دل ہوتا۔ بس اتنا ارشاد کیا: آلِ یاسر کو خوش خبری سنا دو کہ اللہ نے جنت میں ان کے لیے محل تیار کر دیا۔ مدینہ کی ریاست قائم ہو گئی لیکن امتحان ختم نہ ہوا۔ عبداللہ بن ابی جیسا سیاست دان مقابل تھا۔ رسالت مآب ﷺ تشریف لائے تو اس کا خواب بکھر گیا۔ مدینہ کی سرداری قریب آ کر دور ہو گئی۔ آپﷺ کے اس طرح درپے ہوا کہ اس کے ناپاک ہاتھ اہلِِ بیت کی چادرِ عصمت کی طرف بڑھنے لگے۔ آیہء تطہیر کی مصداقِ اوّل سیدہ عائشہؓ کے دامنِ پاک پر الزامات کی گرد ڈالی۔ اللہ کے رسولﷺ اتنے پریشان ہوئے کہ فرمایا: کون ہے جو اس شخص کے حملوں سے میری عزت بچائے؟ سیدنا عمرؓ نے اجازت چاہی کہ مسلمان سماج کو اس کے وجود سے پاک کر دیا جائے۔ اجازت نہیں دی، صبر کیا۔ یہاں تک کہ اس درخت پر پھل آیا۔ ابن ابی اپنے بیٹے کے ہاتھوں رسوا ہوا۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اس موقع پر اپنے جان نثار عمرؓ سے فرمایا کہ جب آپ اجازت مانگ رہے تھے، میں دے دیتا تو بہت سی ناکیں پھڑکنے لگتیں۔ آج اگر میں حکم دوں تو اس کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھنے والی۔ یہ الگ بات کہ آپﷺ کی رحمت نے اس وقت بھی درگزر کا معا ملہ کیا۔ اللہ کے رسول سیدنا یونسؑ بستی چھوڑ کر چل دیے۔ عالم کے پروردگار کو اپنے جلیل القدر پیغمبر کی ادا پسند نہیں آئی۔ صاحب الحوت بنا دیا اور داستان اس کتاب میں رقم کر دی جس نے قیامت کی صبح تک باقی رہنا ہے۔ قرآن مجید نے صبر کو پیغمبروں کا ہتھیار قرار دیا اور اعلان فرمایا کہ اللہ تو صابرین کے ساتھ ہے۔ اس مرحلے پر مجھے مولانا امین احسن یاد آئے۔ تئیس برس ہوتے ہیں امام فراہی کے جانشین اور مدرستہ الاصلاح کے اس جلیل القدر فرزند کی صحبتیں نصیب ہوئیں۔ اُس وقت ہمارا شمار بھی اُن میں ہوتا تھا جو مولانا کے الفاظ میں ’پڑھے کم لکھے زیادہ‘ تھے۔ اپنے بارے میں تو تئیس برس بعد بھی ان کی بات سچی لگتی ہے۔ فرمایا: اپنا پیمانہ بھرنے کی کوشش کر نی چاہیے۔ جب بھر جائے گا تو خود ہی چھلک اٹھے گا۔ جس سماج میں آمروں کے احتساب کی کوئی روایت نہ ہو، وہاں یہ بات کم اہم نہیں ہے کہ وہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے کیے جائیں۔ کیا یہ معمولی ارتقا ہے کہ جو چیف جسٹس آف پاکستان کو بلاتا اور بیک جنبشِ قلم مسند سے ہٹاتا ہے، آج عدالتِ زیریں کے حکم پر پیش کیا جاتا اور ضمانت کا طالب ہوتا ہے؟ ایک سوال اور بھی ہے: 11 مئی کے انتخابات کیا ملک کے آخری انتخابات ہیں کہ ہم 12 مئی کو ہر منصب پر ایک صالح کو بیٹھا دیکھنا چاہتے ہیں؟ مجھے کچھ شبہ نہیں ہے کہ 12 مئی کو ہم ایک نیا پاکستان دیکھیں گے۔ یہ مثالی نہیں ہو گا لیکن پہلے سے یقیناً بہتر ہو گا۔ پہلی مرتبہ یہاں ایسے انتخابات ہو رہے ہیں جب صرف اہلِ سیاست کی کارکردگی زیرِ بحث ہے۔ اب مظلومیت کی بات نہیں ہو رہی۔ اب یہ بیانیہ بھی پیش نہیں کیا جا رہا کہ فوج رکاوٹ بنی رہی یا عدلیہ نے کام نہیں کر نے دیا۔ اب تو سیاست دانوں کا نامہ اعمال دیکھا جا رہا ہے۔ الیکش کمیشن سے شکایات بجا لیکن بہت سے لوگ اس کی زد میں بھی ہیں۔ الیکش کمیشن اور عدالت کی یہ مجبوری بھی ہے کہ وہ محض الزامات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتے۔ اخباری کالم اور عدالتی فیصلے میں فرق ہوتا ہے۔ کالم تو الاماشااللہ، کاتا اور لے دوڑی کا مصداق ہوتے ہیں۔ عدالت کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا۔ عدالتوں کی بات ہو گی تو پھر گواہ بھی زیرِ بحث آئیں گے۔ گواہ عام آ دمی ہوتا ہے۔ پھر اس کی اخلاقی حالت پر گفتگو ہو گی اور نتیجہ وہی نکلے گا جو کئی بار نکل چکا۔ سماج کی اصلاح کے بغیر مثالی نتائج نہیں مل سکتے۔ اس لیے انتخابی نتائج بھی مثالی نہیں ہوں گے اور اس کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ بدقسمتی ہو گی کہ انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے، اُن کے بارے میں ما یو سی پھیلا دی جائے۔ کسی ایک پارٹی یا فرد کے ہارنے سے قوم نہیں ہار جا ئے گی۔ یہ تعمیر کا سفر ہے جو طویل ہوتا ہے۔ ہم 11 مئی کو ایک سنگِ میل عبور کریں گے۔ اس کے بعد منزل نہیں ہے لیکن یہ منزل کی طرف ایک قدم ضرور ہے۔ اس موقع پر جس زادِ راہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ صبر ہے۔ ہم تدریجاً بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اگر اس موقع پر ہم اتنا جان لیں کہ سماج کی اصلاح ارتقا میں ہے کسی انقلاب میں نہیں تو یہ بھی بہت اہم پیش رفت ہو گی۔ انقلاب کے بجائے ارتقا کی طرف مراجعت سے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم صبر کرنا سیکھ لیں گے۔ صبر بے عملی یا بزدلی کا نام نہیں، ایک حکمتِ عملی کا عنوان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جہدِ مسلسل پر یقین رکھیں اور کسی مرحلے پر اپنے اعصاب کو کمزور نہ ہو نے دیں۔ مسلسل اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ اگر ناکامی ہے تو اس کا سبب کیا ہے۔ ہر ناکامی کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حکمت عملی غلط تھی۔ بعض ناکامیاں اس لیے بھی ہوتی ہیں کہ ہم وقت سے پہلے پھل کی توقع کر تے ہیں، جب نہیں ملتا تو ناکامی کا اعلان کر دیتے ہیں، جیسے آج انتخابات سے پہلے فتح و شکست کا اعلان ہو رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو ضرور سزا ملنی چاہیے لیکن اس خواہش کے جوش میں ہوش کو نہیں کھونا چاہیے۔ ہمیں ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ایک ادارے کے خلاف دوسرے ادارے کی انا کا مقدمہ بن جائے۔ آج پرویز مشرف ایک فرد کا نام ہے لیکن اگر فرد کی ذلت سے اداراتی سطح پر حظ اٹھانے کا عمل شروع ہوا تو پرویز مشرف شاید ایک فرد نہ رہیں، ایک ادارے کی علامت بن جائیں۔ میرے نزدیک یہ مناسب ہوتا کہ اُن کے معاملے کو موخر کیا جاتا۔ عدالتیں مزید سماعت کے لیے 11 مئی کے بعد کی کوئی تاریخ دیتیں تا کہ اِس وقت قوم کی ساری توجہ انتخابات کے پُرامن اور بروقت انعقاد پر مر تکز رہتی۔ اسی طرح انتخابات تک ساری توجہ اس پر دی جاتی کہ قوم بہتر قیادت کا انتخاب کرے۔ اس باب میں یہ ضرور پیشِ نظر رکھا جاتا کہ بہتر کا انتخاب موجود لوگوں ہی میں سے کرنا ہے۔ یہ خواہش بُری نہیں کہ پرویز مشرف کو سزا ملے۔ یہ آرزو بھی محمود ہے کہ انتخابات میں صالحین منتخب ہوں گے لیکن اک ذرا صبر! اضطراب اور بے چینی قابلِ فہم ہے۔ اس کو ابھی دل میں سنبھال کے رکھنا ہے۔ اس کا مداوا ہو گا اگر ہم صبر کا اختیار کر سکیں۔12مئی کو ان شا اللہ ایک بہتر پاکستان ہمارا منتظر ہو گا۔ مثالی پاکستان البتہ ابھی دور ہے۔ یہ منزل آئے گی اگر اپنے اضطراب کو تھام سکیں اور صبر کو بطور حکمتِ عملی اپنا لیں۔