تحریکِ انصاف کیا پیپلز پارٹی کی جگہ لے چکی؟ کیا ملک ایک بار پھر دو جماعتی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے؟ حمایت علی شاعر نے کہا تھا: مجھے غروب ہی جانو جو میں اُفق پہ نہیں بکھر گیا ہوں اندھیرے میں کہکشاں کی طرح پیپلز پارٹی سیاسی منظر پہ دکھائی نہیں دے رہی۔ تین صوبوں کا معاملہ تو یہی ہے۔ کوئی ایک چہرہ ایسا نہیں جو ملک بھر میں پارٹی کا نمائندہ سمجھا جائے۔ اگر کوئی ہے تو اپنے حلقہء انتخاب کا اسیر۔ پیپلز پارٹی کو اس صورت حال کا سامنا ضیاء الحق کے دور میں بھی نہیں ہوا جب حکومت اسے مٹا نے کے درپے تھی۔ آج ایسا کیوں ہے؟ کیا عمومی صورتِ حال بائیں بازو کی جماعتوں کے لیے سازگار نہیں؟ کیا پیپلز پارٹی پھر کسی تعصب کا ہدف ہے؟ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کردار تمام ہوا اور اس کی جگہ نئی ابھرنے والی سیاسی قوت تحریکِ انصاف لے چکی؟ گیلپ سروے یہ کہتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے وابستگان میں 42 فیصد وہ ہیں جو پیپلز پارٹی سے آئے ہیں۔ عمران خان کی ا نتخابی مہم کے نتیجے میں یہ تعداد بڑھ سکتی ہے؛ تاہم یہ بات زیادہ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ تحریکِ انصاف پیپلز پارٹی کی جگہ لے سکتی ہے۔ اس کا ایک سبب واضح ہے۔ پیپلز پارٹی جس نظریاتی گروہ کو مخاطب بناتی ہے، تحریکِ انصاف میں اُس کے لیے زیادہ کشش نہیں۔ پیپلز پارٹی لبرل نقطہ نظر رکھنے والوں کی سیاسی ترجمان ہے۔ عمران خان کا معاملہ یہ نہیں۔ وہ اپنے خیالات میں مذہبی ہیں اور اسی عصبیت کو مخاطب بنا رہے ہیں۔ لبرل طبقہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی سے مایوس ہے لیکن اُس کے لیے عمران خان متبادل نہیں ہے۔ جب تک یہ صورتِ حال برقرار ہے، پیپلز پارٹی کا وجود ثابت ہے۔ قومی سطح پر کو ئی جماعت ایسی نہیں جو لبرل خیالات کی ترجمانی کر تی ہو۔ اس لیے بادِل نخواستہ یہ لوگ پیپلز پارٹی ہی سے وابستہ ہیں؛ تاہم پیپلز پارٹی صرف اسی طبقے کا نام نہیں۔ اس میں غریب عوام کی غیرمعمولی تعداد بھی شامل ہے جو کبھی روٹی‘ کپڑا اور مکان کے نعرے سے متاثر ہوئی تھی۔ تحریکِ انصاف کا رخ کرنے والے لوگ انہی میں سے ہیں۔ گویا پیپلز پارٹی کمزور ہوئی ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس کا وجود ہی تحلیل ہو گیا ہے۔ اس بات میں البتہ شبہ نہیں کہ انتخابی اعتبار سے اس کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ اس کی کوئی مرکزی انتخابی مہم نہیں ہے۔ جو کچھ ہے، وہ حلقہ ہائے انتخاب کی سطح پر ہے۔ سنا تھا لاہور میں نو تعمیر شدہ زرداری ہاؤس پارٹی کی انتخابی مہم کا مرکز ہو گا۔ صدر صاحب یا بلاول پنجاب میں پڑاؤ ڈالیں گے لیکن یہ سب کہانیاں ثابت ہوئیں۔ پیپلز پارٹی قومی سطح پہ کوئی مہم منظم نہیں کر سکی۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایک بار پھر مخالفین کی نوکِ تلوار پر ہے؟ کیا یہ مقدمہ درست ہے کہ بائیں بازو کی جماعتیں دہشت گردوں کا ہدف ہیں؟ میرا خیال ہے اس بات میں جزوی صداقت ہے۔ میں یہ بات دو اسباب کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ ایک یہ کہ بائیں بازو کی اصطلاح اس وقت بے معنی ہو چکی۔ آج ملک میں کوئی بڑی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو بائیں بازو کے نظریات رکھتی ہو۔ سب سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ ہیں۔ انہیں البتہ لبرل کہا جا سکتا ہے۔ لبرل بھی یہ اسی حد تک ہیں جس حد تک یہاں کا سماجی ماحول انہیں اجازت دیتا ہے۔ بھٹو صاحب جب قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیتے ہیں یا غلام احمد بلور شاتمِ رسول کے سر کی قیمت لگاتے ہیں تو اس سے ان کے لبرل ازم کی حقیقت واضح ہو جا تی ہے۔ اس رویے کی زیادہ سے زیادہ یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ وہ دل سے ایسا نہیں چاہتے، صرف سیاسی فائدے کی طلب میں یہ روپ دھارتے ہیں۔ اس مقدمے کو اگر درست مان لیں تو عملاً یہ لوگ کبھی لبرل نہیں بن سکیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا سماج کبھی لبرل ازم کے لیے ساز گار نہیں ہو سکتا۔ سلمان تاثیر کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے رویّے کے بعد کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ تین جماعتیں اگر تحریکِ طالبان پاکستان کا ہدف ہیں تو اس کی واحد وجہ ان کا لبرل ہو نا نہیں۔ یہ تینوں کھل کر طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حامی رہی ہیں۔ یہ تینوں پانچ سال اقتدار میں اور طالبان کے خلاف سرگرم رہیں۔ آج اگر طالبان ان کے درپے ہیں تو یہ قابلِ فہم ہے۔ جہاں تک نظریات کا معاملہ ہے تو طالبان کے فہمِ اسلام میں جمہوریت کفر ہے۔ اس حوالے سے وہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سے بھی فکری بُعد رکھتے ہیں جو جمہوریت کی حامی ہیں۔ ان کے نزدیک قومی ریاست اور آئین جیسی ’بدعات‘ کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے ہمیشہ طالبان کی حمایت کی اور جمعیت علمائے اسلام کو معاف رکھنے کے لیے یہ دلیل بھی کم وزنی نہیں کہ یہ دیوبندیوں کی جماعت ہے۔ عمران خان نے بھی ہمیشہ ان کی حمایت کا تاثر دیا اور ن لیگ بھی ان کی طرف مائل رہی۔ میرے نزدیک اگر وہ ان جماعتوں میں فرق رکھتے ہیں تو اس کا سبب نظریاتی نہیں عملی ہے۔ پیپلز پارٹی کی کمزور انتخابی مہم کی یہ وجہ اس لیے بھی نہیں ہے کہ پنجاب میں اسے کسی نے انتخابی عمل سے نہیں روکا۔ اگر اس کے امیدوار انفرادی حیثیت میں مہم چلا سکتے ہیں تو جماعتی حیثیت میں کیوں نہیں؟ منظور وٹو صاحب کو تو کوئی خطرہ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپنی پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر انتخابی مہم چلانی ہے۔ اس کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں۔ بلاشبہ پیپلز پارٹی ماضی میں مظلوم رہی ہے لیکن یہ 2008ء سے پہلے کی باتیں ہیں۔ عوام نے اسے مظلومیت کا صلہ دے دیا۔ اب تینوں جماعتوں کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کا سامنا کرنا ہے اوران کا نامہ اعمال ایسا نہیں کہ وہ عوام کا سامنا کر سکیں۔ اب انہوں نے مظلومیت اور چھوٹے صوبوں کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ لبرل ازم اور مظلومیت، دونوں پتّے اب اس کھیل میں کام آنے والے نہیں۔ بطور خاص پیپلز پارٹی کو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا‘ الاّ یہ کہ وہ وفاق کے بجائے قوم پرستی کی سیاست کرے۔ اگر پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم کو صرف دیہی سندھ تک محدود رکھتی ہے تو یہ وفاق کے لیے نیک شگون ہے نہ پیپلز پارٹی کے لیے۔پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں وفاق کی بقا کے لیے لازم ہیں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر وہ سندھ کے علاوہ بھی کہیں سے کامیاب ہو تی ہے۔ اس کے لیے اسے ہمت کرنا ہو گی۔ وہ بدستور ایک ایسے طبقے کی نمائندہ ہے جو مایوسی کے باوجود اس کے ساتھ وابستہ ہے۔ لبرل طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان میں اس کا کوئی سیاسی مستقبل ہے تو اسی جماعت کے دم قدم سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سماج کی لبرل تشکیل کے لیے وہ کوئی پیش قدمی نہیں کر سکی؛ تاہم اس نے بہت سے لبرل افراد کو پارلیمنٹ ضرور پہنچا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے بدستور جگہ موجود ہے۔ اس جگہ پر پاؤں جمانے کے لیے پیپلز پارٹی کو عوامی قیادت چاہیے جو اس وقت اسے میسر نہیں۔ انتخابات میں ایک ہفتہ باقی ہے۔ اتنے دنوں میں جوتا نہیں تیار ہوتا، قائد کیسے بن سکتا ہے! تاہم پیپلز پارٹی سیاسی اُفق پہ نہ سہی، کہکشاں کی طرح بکھری ہوئی تو ہے۔ کیا معلوم کب سمٹ کر ستارہ یا چاند بن جائے؟