امورِ جہاں بانی آسان نہیں۔ان کو نبھانے کے لیے محض آئین کی دفعہ 63,62 پر پورا اترنا کافی نہیں۔اس کے لیے صلاحیت بھی چاہیے۔امیر المومنین عمر ابن خطاب ؓ نے اس رمز کو پا لیا تھاورنہ کوفہ کے فتنہ پرورمحض تقویٰ سے کہاں قابو آنے والے تھے۔الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عصرِ حاضر میں ہمارے لوگ اُس راز کو نہیں جا ن سکے جسے باقی دنیا نے ازبر کررکھاہے۔اللہ تعالیٰ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن کی حسنِ کارکردگی سے اہم رازیہ منکشف ہوا کہ ضعف کے سبب پیدا ہونے والا تقویٰ کسی کام کا نہیں ہو تا۔ سید شاہد گیلانی این اے 54 سے تحریکِ انصاف کے امیدوار تھے۔راولپنڈی میں تعلیم کے بہت سے اداروں کا قیام ان کے نامۂ اعمال میں درج ہے۔اچھی شہرت اور خدمتِ خلق اس پر مستزاد۔ الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔ان کے ذمہ انکم ٹیکس کی کچھ رقم واجب الادا تھی۔انہوں نے یہ فرض ادا کیااور اس فیصلے کے خلاف اپیل کردی۔اس دوران میںانتخابی مہم اپنے جوبن پر تھی۔دوسرے امیدوار رات دن حلقۂ انتخاب میں مصروف تھے اور شاہ صاحب عدالتوں میں۔عدالت میںایک دن مقدمہ لگا تو معلوم ہوا ان کا تیسرا نمبر ہے۔ شام تک باری آنہ سکی۔اگلے دن کا آ غاز ہوا تو ان کا مقدمہ مزید پیچھے جا چکا تھا۔عدالتوں کے چکر لگتے رہے ۔دو مئی کو فیصلہ ہوا کہ آپ نے واجب الادا رقم جمع کرا دی لیکن تاخیر ہوگئی۔آپ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ میں سوچتارہا اگر عدالت انہیں اجازت دے دیتی تو ایک ہفتے میں وہ کتنے ووٹرز تک پہنچ سکتے تھے؟تاخیر کا بڑا سبب یہ ہوا کہ مقدمات کی تعداد کہیں زیادہ تھی اور عدالت کے پاس وقت محدود۔انتخابات کا شیڈول جاری کرتے وقت اس بات کو پیش ِ نظر رکھا جا نا چاہیے تھا۔اگر ایک حلقۂ انتخاب میں امیدواروں کو ایک جیسے مواقع میسر نہ آئیں تو کیا ایسے انتخابات منصفانہ قرار پائیں گے۔سید شاہد گیلانی سراپا سوال ہیں:پرویز اشرف سے کروڑوں کے سکینڈل منسوب ہیں۔ امین فہیم کی اہلیہ کے اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے۔ جمشید دستی کی ڈگری کا جعلی ہونا ثابت ہے۔ پھر بھی یہ سب صادق وا مین ہیں۔شاہ صاحب کے پاس ایسے کرداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے داغ دھلے نہیں لیکن وہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔دوسری طرف شاہد گیلانی اعتراض رفع کر نے کے باوجود اس عمل سے باہر ہیں؟کیا ایسے انتخابات منصفانہ ہیں؟الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ سعید خورشیداین اے 153،جلال پور پیروالا سے امیدوار ہیں۔ان کا تعلق بھی تحریکِ انصاف سے ہے۔وہ جج تھے لیکن جب جسٹس افتخار چوہدری کو ہٹایا گیاتوسراپا احتجاج بن گئے۔ منصب چھوڑا اور عدلیہ کی بحالی کے لیے سڑکوں پہ نکل آئے۔ان کی جدوجہد اب تاریخ کا حصہ ہے۔سعید صاحب نے انتخابی مہم کا آغاز کیا تو پنجاب انتظامیہ پیچھے پڑگئی۔ایک انتخابی جلسے کے بعد دوسرے کا رخ کرتے تو پہلے کا حساب لینے پولیس پہنچ جاتی۔صوبائی انتظامیہ کے لوگ بہت پہنچے ہوتے ہیں۔ انہوں نے شاید ن لیگ کے اقتدارکی طرف بڑھتے قدموں کی چاپ سن لی‘ اس لیے دوسرے امیدواروں کو ہراساں کر کے اپنا مستقبل محفوظ بنانا چاہا۔سعید خورشید کو مساوی مواقع کے لیے رات بھر دھرنا دینا پڑا۔ سوال یہاں بھی اٹھتا ہے: الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ میری نظر ٹی وی سکرین پر پڑی۔ مردان میں تحریکِ انصاف کے جلسے پر دستی بموں سے حملہ ہوا۔سوال پھر اٹھا۔الیکشن کمیشن کہاں ہے؟یہ ’بریکنگ نیوز‘ ابھی جاری تھی کہ ایک اور اسی طرح کی خبر نے اپنی جانب متو جہ کیا:لوئی دیر میں پولیس نے نوے ہزار جعلی بیلٹ پیپرز برآمد کر لیے۔ یہ لکھنے والا ایک بار پھر سوچ رہا تھا: الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ میں زندگی کے امور میں مثالیت پسندی پہ یقین نہیں رکھتا۔اپنی ذات کے حوالے سے تو مثالیت پسند ہوناچاہیے لیکن دوسروں کو پرکھتے وقت شک کا فائدہ دینا چاہیے۔قانون کی نفسیات یہی ہے اور سماجی نفسیات بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔سماج اگر رسول اللہ کا تربیت یافتہ ہے تو مسند ِ امامت پہ ابو بکر صدیق ؓہی کوہو نا چاہیے لیکن جب شہری ہما شما ہوں تو پھر ہم زیا دہ سے زیادہ عمران خان ہی کی توقع کر سکتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی کوبھی اسی حوالے سے دیکھنا چاہیے۔آج اس سے کوئی غیر حقیقی مطالبہ نہیں کیا جارہا۔ریاستی ادارے ہر صورت میں اپنا بھرم قائم رکھتے ہیں ۔ان کی کارکردگی مثالی نہ ہو لیکن وہ ایک خاص سطح سے نیچے نہیں اترتے۔ الیکشن کمیشن معلو م ہوتا ہے کہ اپنی ساکھ کے معاملے میں بہت حساس نہیں ہے۔یہ ایک ایسی فضا میں ہے جب فوج اور عدلیہ اس کی پشت پر کھڑی ہے۔الیکشن کے عمل کو شفاف رکھنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ پولنگ کے دن کوئی دھاندلی نہ ہو۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قبل از انتخاب بھی کوئی ایسا کام نہ ہو جو الیکشن کی ساکھ کو مجروح کرے۔ آج الیکشن کمیشن اپنے ضعف کے سبب اقدام تو کرتا ہے لیکن بعد از خرابی ٔ بسیار۔ٹی وی پر ایک اشتہار کئی روز تک چلتا ہے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن کو خیال آتا ہے کہ اس میں قوانین کا احترام نہیں کیا جارہا۔الیکشن کمیشن نے اعلان کر رکھا ہے کہ انتخابی مہم میں مذہب کا سوئے استعمال نہیں ہو نا چاہیے۔آج مولا نا فضل الرحمٰن کا حلقۂ اثر عمران خان کے خلاف فتوے دے رہا ہے۔سیاق و سباق واضح ہے کہ وہ عمران خان کی تنقیدکے جواب میں مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔اس فتوے کا دینی اور شرعی پہلو ایک طرف کہ ان علما کو اللہ کے ہاں جواب دہ ہونا ہوگا،الیکشن کمیشن کو اس کا نو ٹس لینا چاہیے۔ یہ فتویٰ ملک کے قانون کے بھی خلاف ہے۔اگر الیکشن کمیشن کی ماضی کی کارکردگی سامنے رہے توامید یہی ہے کہ اس کا ردِ عمل انتخابات کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ایسی صورت میں اگر انتخابی عمل کی شفافیت زیرِ بحث اتی ہے تو یہ بلا جوا ز نہیں ہے۔ جب یہ واضح ہے کہ الیکشن کمیشن کا ضعف اس کی کارکردگی کو متاثر کر رہا ہے تو یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کمی کو پورا کرے،جس حد تک اس کے لیے ممکن ہے۔مثال کے طور پر اسی فتوے کو لے لیجیے۔میڈیا کو بتانا چاہیے کہ اس ملک میں کس طرح مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اس رویے کا مذہبی اخلاقیات سے دور کا بھی تعلق نہیں۔اسی طرح اگر کہیں انتخابی عمل کو متاثر کر نے کی کوئی دوسری غیر قانونی حرکت ہوتی ہے تو اس کو بھی سامنے لائے۔عدلیہ بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے، جیسے پولنگ کے دن فوج کی تعیناتی جیسے اقدام ہیں۔جس طرح جنگ کو صرف جرنیلوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اسی طرح ہم انتخابات کو صرف اس الیکشن کمیشن پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کے ضعف کی تلافی اسی طرح ہو پائے گی۔شفاف الیکشن ہماری ضرورت ہیں اور ہم اس بات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔