انتخابات دو دن کی مسافت پر ہیں۔ انتخابی مہم میں جوہری اعتبار سے کوئی جدت دکھائی نہیںدی۔ وہی لب و لہجہ ،وہی ہتھکنڈے جو سیاست دانوں کی پہچان ہیں۔ عمران خان کی موجودگی سے ایک نیا پن تو آیا لیکن وہ انتخابی مہم کو کوئی ندرت نہیں دے سکے۔ اس کے باوصف میرا خیال ہے کہ عام آدمی نے شعور کی کچھ منازل طے کی ہیں۔ کم از کم شہروں کی سطح پر تو یہ ضرور ہوا ہے کہ عام آدمی انتخابات کو ایک مختلف زاویہ نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اسے ہم ایک نئے عہد کی تمہید کہہ سکتے ہیں۔آپ اسے نیا پاکستان بھی قرار دے سکتے ہیں۔اس حوالے سے،میں اپنے چند مشاہدات و تأثرات میں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ دو تین دن پہلے میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں مدعو تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ اس ٹاک شو کے چاروں مہمان کالم نگار تھے اور اس کے ساتھ ٹی وی اینکر بھی۔ پروگرام سے پہلے غیر رسمی گفتگو میں ،سب سے پوچھا گیا کہ وہ کس کو ووٹ دیںگے۔ ایک شریک خاتون کا تعلق اسلام آباد سے تھاجو بودوباش اور خیالات سے کسی طرح مذہبی نہیں تھیں۔ انہوں نے اپنے حلقے کا تجزیہ پیش کیا اور یہ کہا کہ وہ جماعت اسلامی کے امیدوار میاں اسلم کو موزوں سمجھتی ہیں اور انہیں ووٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ایک مہمان کا تعلق خیبر پختون خوا سے تھا۔میں جانتا ہوں کہ وہ اے این پی کے حامی نہیں ہیں اور اس کی حکومت کے شدید ناقد رہے ہیں۔ان کا جواب تھا کہ وہ اے این پی کو ووٹ دیں گے۔ دلیل یہ تھی کہ انہوں نے طالبان کے خلاف کھڑا ہونے کی جرأت تو کی۔ایک خاتون کا تعلق کراچی سے تھا۔ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب کا تجزیہ کیا اور کہا کہ وہاں سب سے بہتر امیدوار جماعت اسلامی کے نعمت اﷲ خان ہیں ۔ بظاہر اُن کا کوئی تعلق کسی مذہبی جماعت سے نہیں تھا۔ ایک صاحب نے اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ اپنا ووٹ عمران خان کو دیں گے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ان کے حلقہ انتخاب میں اگر تحریکِ انصاف کا کوئی اور امیدوار ہوتا تو وہ موازنہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتے۔ چونکہ عمران خان خود وہاں امیدوار ہیں، اس لیے ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ مجھے نسبتاً کم پڑھے لکھے لوگوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا۔اُ ن کے حلقے میں بھی میں نے یہ محسوس کیا کہ لوگ اب امیدوار کو اہمیت دے رہے ہیں اور اس کی جماعت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اچھے امیدوار کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد کے رہائشی ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ وہ نواز شریف صاحب کے حامی اور ان کو برسرِ اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے امیدوار انجم عقیل کو ووٹ نہیں دے سکتے، جو سیکنڈلز کی زد میں ہیں اور اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔مجھے اندازہ ہوا کہ کم از کم شہروں کی سطح پر یہ صورتِ حال نہیں ہے کہ لوگ کھمبوں کو بھی ووٹ دینے پر آمادہ ہوں۔ عام آدمی اب سوچنے لگا ہے اور وہ امیدوار کو اہمیت دیتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک مثبت پیش رفت اور جمہوری عمل کے تسلسل کا ثمر ہے۔ اگر یہ سوچ برقرار رہتی ہے تو سیاسی جماعتوں کو مجبور ہونا پڑے گا کہ وہ امیدوار کا انتخاب کرتے وقت اس کی ساکھ اور کردار کو پیشِ نظر رکھیں۔سچ یہ ہے عوامی شعور کی بیداری سے جس بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے وہ دفعہ62,63کے نفاذ سے ممکن نہیں۔قانون سے کبھی سماج نہیں بنتے،البتہ سماج کو قائم رکھنے کے لیے قانون کی ضرورت ہو تی ہے۔دیہات میں البتہ صورتِ حال شاید زیادہ مختلف نہ ہو۔ وہاں برادری ازم اور علاقائیت بدستور مضبوط رجحانات ہیں۔ لوگ امیدوار کے بارے میں صحیح رائے کا اظہار کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ برادری یا گاؤں والوں سے مختلف مؤقف نہیں اپنا سکتے۔ میرا مشاہدہ اور تأثر یہ بھی ہے کہ اب مذہبی استحصال کا امکان بھی بہت کم ہو گیا ہے۔ اہلِ مذہب کا فتویٰ سیاست میں زیادہ مؤثر نہیں رہا۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کی کوشش زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف بھی عورت کی حکمرانی کے شرعی جواز کو بنیادبنا کر فتویٰ دیاگیا لیکن عوام نے انہیں مسندِ اقتدار پر بٹھا کر زبان حال سے اس فتوے کو مسترد کر دیا۔خود علما نے بھی ان کی حکو مت میں مناصب قبول کر کے عملاً اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔تاہم متحدہ مجلسِ عمل نے مذہب کو ایک بار پھر کامیابی سے استعمال کیا۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ان انتخابات میں بھی یہ کوشش کی جائے گی۔مولانا فضل الرحمٰن نے عمران خان کے خلاف یہ حربہ استعمال کیا لیکن اس کو پذیرائی نہ مل سکی۔مجبوراً انہیں بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی اور انہوں نے ذاتی سطح پر اس فتوے سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔گویا انہیں اندازہ ہو گیا کہ لوگوں کے مذہبی جذبات سے سیاسی فائدہ اٹھانا اب مشکل ہو گیا ہے۔اس فتوے نے کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے،ا نہیں دفاعی سطح پہ لا کھڑا کیا ہے۔مذہبی استحصال کے امکانات کو کم کرنے میں مجلس عمل کی کارکردگی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی نہیں، اس وقت بڑی سیاسی جماعتیں بھی جس ایجنڈے پر اپنی توجہ مرتکز کیے ہوئے ہیں وہ سیکولر ہے۔ن لیگ اور تحریک انصاف،دونوں عرفِ عام میںغیر سیکولر جماعتیں ہیںلیکن ان کی انتخابی مہم میں کہیں مذہب زیرِ بحث نہیںہے۔کچھ لوگوں نے لال مسجد کے مسئلے کو ن لیگ کے خلاف استعمال کرنا چاہا لیکن نواز شریف صاحب اس سے متاثر نہیں ہوئے۔اس سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوئی کہ ستانوے فی صد مسلم آبادی کے ملک میں مذہب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔سیاست اور ریاست کو درپیش چیلنج کچھ اور ہیں۔ہماری سیاسی قیادت اس باب میں بالغ نظری کا مظاہرہ کر رہی ہے اور یہ بھی ایک نیک شگون ہے۔جب سماج میں استحصال کی تمام صورتوں کے بارے میں عمومی آگاہی پیدا ہونے لگے تو یہ اس بات کا اعلان ہے کہ معاشرہ بلوغت کی طرف بڑھ رہا ہے۔انتخابی عمل فی الجملہ اس کی نشان دہی کر رہا ہے۔ سماجی تبدیلی ریاضی کے پیمانوں سے نہیں ماپی جا سکتی۔ اسے بچشم سر نہیں دیکھا جا سکتا۔تاہم اسے خوشبو کی طرح محسوس کیا جا سکتا ہے۔جمہوریت کے ثمرات کا گہر اتعلق اس کے تسلسل سے ہے ۔ اگر ہمارے ہاں یہ سلسلہ منقطع نہ ہوتا تو آج ہم بہت سا سفر طے کر چکے ہوتے۔جمہوریت کے بارے میں، میں بار ہا عرض کر چکا کہ یہ محض ووٹ دینے کا نام نہیں۔آزاد میڈیا،آزاد عدلیہ سمیت کچھ دوسرے مظاہر بھی ہیں جن کی موجودگی سے اس بات کا تعین ہوتاہے کہ ایک سماج کتنا جمہوری ہے ۔انتخابی عمل بھی جمہوری ارتقا کا ایک مرحلہ ہے۔2009ء میں جناب آصف زرداری ایوان صدر میں تھے۔وہ آج بھی ملک کے صدر ہیں۔کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ آج اتنے موثر ہیں جتنے 2009ء میں تھے؟ان کو غیر موثر کس نے بنایا؟ جمہوری ارتقا نے۔ اس طرح کے بہت سے اشارے ہیں جو یہ بتا رہے ہیں کہ جمہوریت کوئی دردشکن دواpain killer) (نہیں ہے جو دو گھنٹوں میں اپنا اثر دکھا تی ہے۔یہ اینٹی بائیٹکس antibiotics))کا ایک مکمل کورس ہے،جس کے اثرات کورس کی تکمیل کے بعد ہی سامنے آ سکتے ہیں۔ دو دن کے بعد انشاء اﷲ جو نتائج سامنے آئیں گے ،مجھے امید ہے کہ اُن سے میرے تاثر کو تقویت ملے گی کہ ہم نے بہتری کی سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے۔ہم ایک ایسے پاکستان کی توقع کر سکتے ہیں جو کئی حوالوں سے ’’نیا پاکستان‘‘ ہو گا۔